ذرے سے آفتاب

عبدالقادر حسن  ہفتہ 7 ستمبر 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

مایوسی اور بددلی کے اتنے اسباب موجود ہیں کہ جتنا جی چاہے اتنے مایوس بددل اور پریشان ہو سکتے ہیں لیکن ان اسباب کے ساتھ ساتھ چکا چوند روشنی پیدا کرنے والے حالات اور اسباب بھی موجود ہیں جن سے دلوں کی دنیا میں نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک روشن مستقبل بازو پھیلائے دکھائی دیتا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت، میں ایک گائوں میں تھا جس کی دنیا میں فوری طور پر کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن جو لوگ حکومت کے مرکزوں میں موجود تھے وہ بتاتے ہیں کہ آزادی کے اعلان نے قوم کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔ اسباب اور ضروریات حکومت ناپید ہونے کے باوجود ایک نئے آزاد ملک کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔

صابن کی خالی پیٹیوں اور کیکر کے کانٹوں سے سرکاری دفاتر میں کام شروع کیا گیا اور چند برسوں میں اس ملک کو جسے دشمن اور مخالف ناقابل عمل اور معاشی لحاظ سے ناقابل زندگی سمجھتے تھے اسے کامیاب ملک بنا دیا گیا۔ہم اپنے ان بزرگوں کا احسان کبھی نہیں بھلا سکتے جو اپنی محنت دیانت اور عزم کے ساتھ ایک ملک کو عدم سے وجود میں لے آئے تھے۔

برٹش انڈیا جس کی وراثت بھارت کو منتقل کر دی گئی تھی اور پاکستان کو ایک نالائق اور ناخلف اولاد کا درجہ دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہی کمزور پاکستان بھارت کے مقابلے میں تن کر کھڑا ہو گیا اور اب تک کھڑا ہے۔ چند غداروں اور ان کے حواریوں کو چھوڑ کر اس ملک کے فقیر باشندے بھارت سے نہ پہلے ڈرتے تھے نہ اب ڈرتے ہیں وہ صابن کی خالی پیٹیوں کے فرنیچر والا پاکستان آج دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہے۔

چند بدنیت اور بد بخت لوگ جو پاکستانی کہلواتے ہیں اس پاکستان سے ناخوش ہیں لیکن اب ملک کے کروڑوں فاقہ کش اپنی حکومتوں سے بلاشبہ ناراض بلکہ ان پر غضبناک ہیں لیکن انھیں پاکستان سے کوئی شکایت نہیں وہ اس ملک کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتے۔

صرف دو کارخانوں والا ملک آج لاتعداد کارخانوں کا ملک ہے خواہ اس کے ہزاروں کارخانے بند بھی ہیں لیکن ان کی بندش کی بھی وجوہات ہیں جو حکومتوں کی نااہلی نے پیدا کی ہیں اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں ہے اس ملک کے اندر جتنی خرابیاں موجود ہیں وہ سب کی سب حکمرانوں کی پیدا کردہ ہیں لیکن اس کے باوجود اس قدر خوبیاں بھی موجود ہیں جن کا شمار کتابوں میں تو شاید کیا جا سکے اخباری کالموں میں اس کی گنجائش نہیں۔

بھارت ہمارا دشمن ملک ہے اور دشمن کے لیے یہ بالکل ناقابل برداشت ہے کہ اس کے کمزور پڑوسی کے پاس ایٹم بم جیسا خطرناک ہتھیار ہو جو صرف اور صرف اس کے خلاف ہی استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لیے بھارت وقتاً فوقتاً مہم جوئی کی کوشش کرتا رہتا ہے اور پاکستان کی آزاد سرزمین کی بے حرمتی کرنے کی ناپاک جسارت کرتا ہے جس کی وہ فوری سزا بھی پاتا ہے اور اگر یہ بے حرمتی بند نہ ہوئی تو اس سے آگے بھی کچھ ہو سکتا ہے لیکن دو ایٹمی طاقتوں کو دنیا حد کے اندر رکھنے کی پوری کوشش کرے گی اور اگر نہ بھی کرے تو ہم اپنی حفاظت اور سلامتی کے لیے کچھ بھی بچا کر نہیں رکھیں گے اور کیوں رکھیں۔

فی الحال میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے لیے صرف ایٹم بم کافی نہیں ہے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی اور وسعت لازم ہے ۔ ایک بات یاد آگئی ہے کہ ایک سیاح جو ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا جب اس کی بس مسلسل ہچکولے کھانے لگی تو اس نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے پاکستانی سے کہا کہ آپ کیسی ایٹمی طاقت ہیں جو اپنی اوسط درجے کی سڑک تک نہیں بنا سکتے ۔ اس بات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور بازاروں میں غیر ملکی اشیاء کا ہجوم اور انبار ہم سے پوچھتا ہے کہ آپ کیسی ایٹمی طاقت ہیں جو اپنی ضروریات اپنے ملک کے اندر تیار نہیں کرسکتے ۔ اس ملک کے میڈ ان پاکستان حکمرانی کے دعویداروں کو ہم کیا کریں جن کے ملک میں سب کچھ میڈ ان ممالک غیر کی بھر مار ہو۔

ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن ہمارا بم ہم سے بہت کچھ پوچھتا ہے بہت سے سوالات کرتا ہے اور بہت سے جوابات مانگتا ہے وہ ہمیں علاج معالجے کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا وہ ہم پر کسی دوسرے ملک میں گھر بنانے کو حرام قرار دیتا ہے وہ ان لوگوں کو ملک کا حقیقی غدار قرار دیتا ہے جو پاکستان میں کمائی ہوئی دولت کسی باہر کے ملک میں جمع کرتے ہیں وہ ان تمام اشیا کو تباہ کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس ملک میں باہر سے لائی گئی ہیں، وہ پینے کا صاف پانی نہ دے سکنے والے حکمرانوں پر یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ وہ بھی کسی تالاب کا پانی پیئیں۔

گورنر ہائوسوں اور وسیع و عریض بنگلوں میں رہنے والوں پر خدا کے قہر کی بددعا کرتا ہے ۔ وہ انتظامیہ کی چیرہ دستیوں اور عدالتوں تک مظلوموں کی نارسائیوں کو ناقابل برداشت قرار دیتا ہے ۔ وہ خودکشی کرنے والوں کے ہاتھ میں اپنے آپ (بم) کو دینا چاہتا ہے وہ وارننگ دیتا ہے کہ اگر میرے پاکستان کی یہی حالت رہی تو تو وہ غم کے مارے کسی دن پھٹ جائے گا اور کون نہیں جانتا کہ پھر کیا ہوگا۔ وہ یہ سوال کرتا ہے کہ مظلوم مسلمان کشمیریوں کی مدد کب کی جائے گی یا یونہی ہم ایک دوسرے سے سوال و جواب ہی کرتے رہیں گے۔

یہ پاکستان جو اس ملک کے چند دیانت و امانت والے لوگوں نے ذرے سے آفتاب بنا دیا ہے اس آفتاب کو جہانتاب بنانا ہے ورنہ ہم اپنے ٹاٹ کے لباس میں ایٹم کا پیوند زیادہ دیر نہیں لگا سکیں گے ۔ ایٹم بم کی حفاظت کوئی ایٹم بم نہیں کرتا ایک خوشحال اور باغیرت قوم کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔