محرم الحرام سے ذوالحج تک

محمد مشتاق ایم اے  منگل 10 ستمبر 2019
اسلامی سال کا ابتدائی مہینہ محرم الحرام اور آخری مہینہ ذوالحجہ عظیم قربانیوں کا استعارہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسلامی سال کا ابتدائی مہینہ محرم الحرام اور آخری مہینہ ذوالحجہ عظیم قربانیوں کا استعارہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

انگریزی کیلنڈر کی طرح اسلامی کیلنڈر بھی بارہ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ویسے تو ہر سال کا ہر مہینہ، ہر مہینے کا ہر دن اور ہر دن کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کا نازل اور مقرر کردہ ہے، جس پر کسی بھی زاویے سے انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا، سورج اور چاند ستاروں کا، ہواؤں اور بادلوں کا، جمادات اور نباتات کا، سمندروں اور پہاڑوں کا ایک ایسا نظام جاری فرما رکھا ہے کہ انسان کی عقل اس سارے نظام کی گہرائی، وسعت اور حکمت جاننے سے یکسر قاصر ہے۔ انسان کے علم و عقل کا اللہ کے علم سے اتنا بھی واسطہ نہیں بن سکتا جتنا واسطہ سوئی کی نوک پر لگنے والے پانی اور سمندر کے درمیان ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلامی کیلنڈر کا ہر سال، ہر ماہ، ہر دن اور ہر لمحہ اپنے اندر ایک عظمت رکھتا ہے اور تاریخ کے کسی نہ کسی واقعے کی شہادت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔

اسلامی سال کے کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام، جب کہ آخری مہینہ ذوالحج کا ہے۔ باقی دس ماہ ان دو مہینوں کے اندر سمائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھیے کہ سال کے یہ دونوں مہینے اپنے اندر لازوال قربانی کی مثالیں جذب کرکے پوری انسانیت کو یہ درس دیتے ہیں کہ ابتدا بھی قربانی ہے اور انتہا بھی قربانی ہے۔ اس بات سے یہ قاعدہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ انسان کی بقا کےلیے قربانی لازمی ہے۔ اسلام کے پہلے اور آخری مہینوں میں آسمان کے درخشندہ ستاروں (حسینؓ اور اسمٰعیلؑ) نے ایثار و قربانی کی جو مثالیں قائم کیں، گویا انہوں نے اندھیری رات میں روشنی کا دیا جلا کر راستے میں رکھ دیا، تاکہ ان کے بعد آنے والا ہر مسافر اس دیے کی روشنی میں ٹھوکر سے بچ کر چلے اور سلامتی کے ساتھ اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکے۔ اور نہ صرف خود کامیاب ہوجائے بلکہ چراغ سے چراغ جلاتا جائے اور آنے والی نسلوں کےلیے مشعل راہ ثابت ہو۔

اسلامی سال کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے شروع ہوتے ہی ایک تو نئے سال کا آغاز ہو جاتا ہے اور دوسری طرف خاندان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں کی طرف سے ظلم کے خلاف اپنی جانوں کی قربانی کا واقعہ تازہ دم ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت 72 افراد نے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے اپنی جانوں کی قربانی دے کر دنیا کو حیران و ششدر کردیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آسمان کی نظر نے یہ دیکھا کہ سچے اور کھرے ایمان والے اپنی جان تو جان آفرین کے سپرد کرسکتے ہیں، لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتے۔ کربلا کی زمین اور وہ سارے راستے جن پر چل کر وہ مبارک ہستیاں مکہ سے کربلا کے میدان تک پہنچیں، قیامت تک ان ہستیوں کی مستقل مزاجی، حق سچ کے ساتھ ان کی محبت اور دین کی سربلندی کےلیے ان کے خوشی سے سر کٹانے کی رسم کو یاد رکھیں گے۔

اگر حضرت امام حسینؓ چاہتے تو باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اپنی اور اپنے خاندان کے لوگوں کی جان بچاکر محفوظ زندگی گزار سکتے تھے، مگر انہوں نے یہ گھاٹے کا سودا قبول کرنے کے بجائے سرعام سر کٹا کر رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ جب کبھی حق و باطل کا معرکہ درپیش ہو تو سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے میں کامیابی ہوتی ہے۔ آپ کے قافلے میں جنس و عمر کی قید کے بغیر ایک ایک نے لازوال قربانی کی ایسی مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک مشعل راہ بن کر ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔

اسی طرح سال کا اختتام ذوالحج کے مہینہ پر ہوتا ہے، جس کے اندر ایک نیک اور فرماں بردار بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے والد گرامی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کو سچا ثابت کرنے اور ان کی خواہش کے آگے اپنا سر ایسا تسلیم خم کیا کہ اس کی مثال بھی یہ دنیا قیامت تک دینے سے قاصر رہے گی۔ اس میں یہ بات یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں یہ بیٹا اللہ نے عطا کی، پھر جب اس کے چلنے کے دن شروع ہوئے تو وہ والدین کی آنکھوں کا تارا بن چکا تھا۔ ایسے میں ان کے والد کو خواب میں اللہ کی طرف سے اپنی سب سے قیمتی شے قربان کرنے کے معاملے پر ایک طرف اپنے والد کی فرماں برداری اور دوسری طرف اللہ کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرنا ایک واقعہ ہے۔ جس کو علم و عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا بلکہ صرف اللہ کی ذات پر غیر مشروط اور مستحکم ایمان ہی اس کسوٹی پر پورا اتر سکتا ہے۔

اس سلسلے میں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کی اور حضرت اسمٰعیلؑ نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے آپ کو سچا اور کھرا ثابت کرکے اپنے بعد آنے والے انسانوں کو یہ بتادیا کہ اللہ کی رضا کےلیے اپنی اور اولاد کی جان بھی قربان کرنا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹنا بلکہ سر تسلیم خم کردینا ہے۔

اسلام کی تاریخ ایسی درخشدہ مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ان ساری عظیم ہستیوں نے اپنا تن من اور دھن بھی دین حق کی سربلندی کےلیے قربان کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ سچے اور کھرے ایمان والے لوگوں پر کیسی کیسی آزمائشی آئیں لیکن ان کے پاؤں میں لغزش نہ آئی۔ نہ وہ باطل کے آگے جھکے اور نہ سچ کی گواہی دینے سے باز آئے۔ لوگوں نے ان کو کیا کیا طعنے نہ دیے، کیسی کیسی اذیتیں نہ دیں، حتیٰ کہ ان کی جان لینے سے بھی باز نہ آئے۔ لیکن ان پاک ہستیوں نے اپنی جان تو قربان کردی مگر سچے راستے کو نہ چھوڑا۔ اب آئیے ذرا ان میں سے کچھ مثالیں دیکھ بھی لیتے ہیں۔

رحمت اللعالمین اور وجہ کائنات حضرت محمدؐ کو ساری زندگی مختلف آزمائشوں کا سامنا رہا، مگر آپؐ کے پایہ استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی اور تکلیفیں دینے والوں کے حق میں بھی بددعا نہ کی، بلکہ ان کےلیے ہدایت کی دعا مانگی۔ اس کے باوجود آپؐ کو کھانے میں زہر دیا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کو دین حق سے نہ پھرنے پر بھڑکتی آگ میں ڈالا گیا، مگر وہ ثابت قدم رہے۔ حضرت اسمٰعیلؑ کے گلے پر چھری پھیری گئی مگر وہ اللہ اور اپنے والد کی فرماں برداری میں ثابت قدم رہے۔ حضرت یعقوبؑ کو اپنے بیٹے کے فراق میں کتنا رونا پڑا کہ بہتے آنسوؤں نے ان کے چہرے پر نشانات بنادیے۔ حضرت یوسفؑ کی زندگی میں کتنی آزمائشیں آئیں، لیکن وہ اللہ کے ڈر سے ثابت قدم رہے اور برائی پر مائل نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو وقت کے فرعون کے مقابلے میں کھڑا ہونا پڑا اور اللہ کے حکم پر دریا میں کودنا پڑا اور دریا نے انہیں راستہ دیا۔ حضرت عیسیٰؑ ؑ کے ساتھ کیا حالات پیش آئے اور ان کے مخالفین نے بظاہر انہیں صلیب پر لٹکادیا اور اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھالیا۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو توحید پر کاربند رہنے کی جو سزا اور صعوبتیں ملیں، ان کی مثال مشکل ہے۔

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھانے میں زہر دیا گیا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خنجر کے وار سے زخمی کیا گیا، جس سے ان کی وفات ہوئی۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوائیوں نے 40 دن تک گھر میں محصور رکھا اور پھر ان کو شہید کیا، لیکن انہوں نے شہر رسولؐ مدینہ میں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کو پسند نہ کیا اور شہادت کا جام پیا۔ خلیفہ چہارم حضرت علیؓ پر مسجد میں خنجر سے وار کیا گیا اور دو دن بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاکر اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلافت راشدہ کی طرز پر اپنی حکومت چلا رہے تھے، ان کا انتقال بھی زہرخورانی سے ہوا لیکن انہوں نے بھی جان دے دی مگر سیدھے راستے کو ترک نہ کیا اور ظلم کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔

آپ امام بخاریؒ اور آئمہ اربعہ کی زندگیوں کو چھان کر دیکھ لیجئے کہ انہوں زندگی کیسے گزاری؟ ہر آزمائش کا سامنا کیا، لیکن وقت کے حکمرانوں اور مخالفین کی زیادتیوں کی پرواہ کیے بغیر صراط مستقیم پر چلتے رہے اور لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ آخری دم تک ادا کرتے رہے۔

اب آئیے ان ساری مثالوں کی روشنی میں ہم آج اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں ہم جن کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کیا ان کی زندگیوں کا سایہ بھی اپنے اوپر پڑنے دیا ہے کہ نہیں۔ ہم محرم الحرام کے مہینے میں سوائے ہائے حسین اور واہ حسین کرنے یا لگی بندھی رسومات کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں؟ ربیع الاول کے مہینے میں سوائے جلسے جلوسوں، سروں پر رومال باندھنے اور کھانے پینے کے علاوہ کیا کرتے ہیں؟ ذوالحج کے مہینے میں ایک دوسرے کے مقابلے تگڑی قربانی کرنے کے علاوہ کیا کرتے ہیں۔ ہر واقعہ کی مناسبت سے مساجد میں مولویوں کی تقاریر سن کر سر دھننے کے علاوہ کیا کرتے ہیں؟ رمضان کے مبارک مہینہ کے پہلے ہفتے میں مساجد میں رش لگاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ختم قرآن کے بعد وہی رمضان سے پہلے والی صورتحال لوٹ آتی ہے۔ کیا کبھی عید کے فلسفے پر ہم نے غور کیا ہے کہ عید کیوں منائی جاتی ہے اور اس کو منانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

امام حسینؓ نے اپنا اور سارے خاندان کا سر اس لیے نہیں کٹایا کہ ہم ہر سال اس دن کو ایک رسم بنالیں، بلکہ ان کا قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم قیامت تک کسی باطل کے آگے نہ جھکیں اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیں۔ اور ایسا ہم میں آج کون کررہا ہے؟ شاید کوئی نہیں۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کےلیے کتنی دعائیں مانگیں اور روتے رہے اور آج ہم ان کی تعلیمات پر کتنا عمل کررہے ہیں۔ آپؐ نے کالے گورے، عجمی عربی اور غلام مالک کے حقوق و فرائض بتادیے، مگر ہم ان پر کون سا عمل کررہے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے سارے مواقع ہونے کے باوجود برائی کی طرف منہ نہ کیا اور آج ہم تو محض بہانہ ڈھونڈتے ہیں کہ مل جائے اور ہم برائی کے رنگ میں رنگ جائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چالیس دن گھر میں محصور ہونا پسند کرلیا، مگر شہر مدینہ میں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے سے انکار کردیا۔ آج ایک انسان کا خون کتنا ارزاں ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

خلفائے راشدین اور آئمہ کرام نے حق سچ پر ڈٹ کر یہ بتایا کہ ہم نے بھی ایسا ہی کرنا ہے۔ مگر آج حق سچ کی بات کرنا جیسے کوئی جرم کرنا ہے۔ خلفائے راشدین نے کس طرح حکومت کی، اور اب ہم ریاست مدینہ کے نام پر کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ آج عدل و انصاف کی فراہمی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے کہ ایک مقدمے کو اختتام تک لے جانے کےلیے ایک نسل کافی نہیں؟ فلاحی ریاست کا نام تو بہت سنا جاتا ہے مگر اس ملک کو عوام کو کبھی اس کی شکل دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ حکومتی اداروں میں کون سا ادارہ ہے جہاں پیسے یا سفارش کے بغیر ایک عام آدمی کا عزت کے ساتھ کام ہوجاتا ہو۔ تھانے کچہری میں عام آدمی کی جو حالت ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بازار کا رخ کریں تو کھانے پینے کی کوئی چیز خالص دستیاب نہیں، حتیٰ کہ زندگی بچانے والی ادویہ تک جعلی دستیاب ہیں۔

مہنگائی نے ایک تو ویسے ہی کمر توڑ رکھی ہے لیکن رمضان اور عید کے موقعوں پر ضروری استعمال کی چیزوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچادی جاتی ہیں۔ نہ کوئی پوچھنے والا اور نہ کوئی کنٹرول کرنے والا۔ حکمرانوں کو اپنی کرسی بچانے کی فکر اور اپوزیشن کو حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچنے کا شوق۔ اس دھینگامشتی میں ہر ایک کو جو دل کرتا ہے، وہ کررہا ہے کہ قیامت کس نے دیکھی ہے، بس زبان سے اقرار کرلیا ہے، وہی کافی ہے۔

بس اتنی بات یاد رہے کہ اللہ کا بنایا ہوا نظام بہت مضبوط ہے۔ بارہ مہینوں کا کیلنڈر محرم الحرام سے ذوالحج تک ہے۔ اس میں ہر دن اور ہر لمحہ ہم نے ایک جیسا گزارنا ہے۔ ہمارے لیے رائج رسومات پر عمل کافی نہیں، بلکہ جن ہستیوں کے دن ہم مناتے ہیں ان کی تعلیمات پر عمل ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زندگی فرعون کی طرح گزاریں اور آخرت ہماری موسیٰ ؑ کی طرح ہو۔ اب یہ کیسے ممکن ہے؟ آئیے! اپنی اداؤں پر خود ہی غور کرلیں۔ اپنا گریبان خود ہی چاک کرلیں اور اللہ سے توبہ کرکے سیدھے راستے کو مضبوطی سے پکڑ کرلیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمارے ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔