تمہیں تو لوٹ کے آنا تھا!

شیریں حیدر  اتوار 8 ستمبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

تمہیں کیسے بھلا سکتی ہوں، مجھے تو وہ دن بھی نہیں بھولا آج تک جب تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ یہی مہینہ ہونا تھا، تم جولائی میں گئے تھے اور کہا تھا کہ میں ستمبر میں لوٹ آؤں گا۔ میرے ساتھ کیا گیا وہ پہلا وعدہ ہی وفا نہ کر سکے تم ۔ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں بھی نہ کھائی تھیں کہ انھیں وفا کرنے کی خاطر میں تمہارے ساتھ چل دیتی۔

ابھی ان قسموں، وعدوں اور محبت کی یقین دہانیوں کا موقع ہی کہاں ملا تھا۔ جون کی اس تپتی دوپہر میں تو میں نے تمہارے نام کا چولا پہنا تھا ۔یاد ہے مجھے لوگ گرمی سے پریشان تھے اور ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ جانے کیا ایسی مجبوری ہے اتنی گرمی میں شادی کرنے کی، ایسی گرمی میں تو کوئی پاگل ہی شادی کرتا ہوگا!! ہم پاگل تو نہ تھے، ہمارے نصیب میں لکھا تھا کہ ہم ایسی گرمی میں ایک دوسرے کے ہوں گے۔

دو برس کا مشکل محاذ خیریت سے کاٹ کر تم لوٹے تھے، تمہاری پوسٹنگ اسی شہر میں ہوئی تھی تو ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں جلد از جلد ایک کر دیں۔ دو برس سے منگنی کے جس بندھن میں ہم بندھے تھے، اسے مضبوط کر دینے کا ارادہ ہوا، اتنا مضبوط کہ جسے دنیا کی کوئی قوت جدا نہ کر سکے۔ اسی لیے تو تمہارے لوٹ کر آنے کے چار ماہ کے اندراندر ہی تاریخ بھی مقرر ہو گئی اور شادی بھی۔

ہنی مون کے لیے کہاں جاتے ، اس کا فیصلہ تو تب ہوتا جب خاندان بھر کی طرف سے کی گئی دعوتوں کا سلسلہ ختم ہوتا۔ اس روز بھی ایسی ہی ایک دعوت تھی جب وہ کال آئی کہ شمالی وزیرستان میں تعینات تمہاری یونٹ پر دشمن نے رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کیا تھا، سوئے ہوئے جوانوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا اور ان میں سے تیرہ جوان اور افسران جام شہادت نوش کر گئے اور اتنے ہی لوگ شدید زخمی بھی تھے۔ کسی ایک یونٹ کا یکلخت اتنا بڑا نقصان ہوا تھا کہ جیسے کسی کی کمر ٹوٹ گئی ہو۔ تمہیں فوری طور پر یونٹ میں واپس رپورٹ کرنے کو کہا گیا تھا، فقط اس وقت تک کے لیے جب تک کہ کہیں اور سے متبادل افسران کا تبادلہ نہ ہو جاتا۔

’’ زیادہ سے زیادہ دو ماہ میری جان!! ‘‘ تم نے کہا تھا، ’’ ہو سکتا ہے کہ ایک ماہ میں ہی لوٹ آؤں ! ‘‘

ایک ماہ کی بیاہی ہوئی اپنی دلہن کو تم نے وعدے کی ڈور پکڑائی تھی اور چل دئے تھے، پلٹ کر دیکھا تک نہیں کہ جسے تم چھوڑ کر جا رہے تھے وہ کھڑی تھی یا کھڑے کھڑے گر گئی تھی۔

ایسی انوکھی جگہ تھی کہ جہاں آج کے دور میں بھی موبائل فون نہ تھا… پھر تم نے بتایا کہ موبائل فون ہوتے تو ہیں مگر انھیں آف رکھنا پڑتا ہے،کیونکہ ان سے دشمن کو ہمیں تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ فوج کا اپنا مواصلاتی نظام ہے جس کے ذریعے ہم انھیں کال نہیں کر سکتے مگر وہ ہمیں کال کر سکتے ہیں ۔ اس ایک کال کے آنے سے میرے ارد گرد تمہاری خوشبو اور لمس کا احساس پھیل جاتا تھا۔ وہ کال، جس کا انتظار، جس کی آمد اور جس کا دورانیہ میری کل کائنات بن چکا تھا ۔ ہر دفعہ کال آتی تو میرا آخری سوال ہوتا تھا کہ کب آؤ گے اور تمہارا جواب، ’’ بہت جلد! ‘‘ مجھے امید کی ایک نئی ڈور سے باندھ دیتا تھا۔

’’ اب آ بھی جاؤ نا!! ‘‘ دو ماہ ہو چلے تھے اور تمہار ے وعدے کے وفا ہونے کا وقت آن پہنچا تھا۔

’’ تم اپنے ہاتھوں میں مہندی رچا کے، لال اور سبز کانچ کی چوڑیاں پہن لو اور اب دن نہیں… گھنٹے گنو، میں کسی بھی وقت آ سکتا ہوں ! ‘‘ تم سے آخری بار بات ہوئی تو تم نے کہا تھا۔

’’ توڑ دو یہ لال اور ہری چوڑیاں … ‘‘ کسی نے مجھ سے لپٹ کر کہا تھا۔

’’ نہیں … ہر گز نہیں، میں یہ چوڑیاں نہیں توڑوں گی، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں ایسی چوڑیاں پہنوں، وہ خوش ہو گا مجھے یوں تیار دیکھ کر! ‘‘ میںنے اپنی کلائیوں کو اپنے آنچل میںچھپا لیا ۔

’’ نہیں آنے والا وہ… اب وہ کبھی نہیں آئے گا، تمہارا انتظار کبھی ختم نہیں ہو گا! ‘‘ مجھے جھنجھوڑ کر کہا گیا۔

’’ ایسا نہیں ہو سکتا، وہ ضرور آئے گا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، ابھی تو میں نے اسے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ باپ بننے والا ہے، وہ سن کر کتنا خوش ہو گا!!‘‘ میںنے سسک کر کہا، ’’ اسے تو بچے بہت پسند ہیں، وہ ضرور آئے گا، آنے ہی والا ہو گا! ‘‘

’’ وہ آئے گا … مگر اپنے قدموں پر چل کر نہیں، نہ ہی وہ تم سے بات کرے گا، نہ دیکھے گا، نہ جان پائے گا کہ وہ باپ بننے والا ہے، وہ سن سب باتوں سے بے نیاز ہو چکا ہے!! ‘‘ سننے والے بھی سسکے اور ہچکیوں سے رونے کی آوازیں بھی آئیں ۔

’’ نہیں ، نہیں، وہ آئے گا اور مجھ سے بات بھی کرے گا، مجھ سے وعدہ کر کے جو گیا تھا کہ ستمبر میں آؤں گا!! ‘‘ میںنے پورے اعتماد سے کہا تھا۔ ’’ اپنا ہی کیا گیا وعدہ وہ کیونکر ایفا نہ کرے گا! ‘‘ میں مہندی کی خوشبو ہاتھوں میں بسائے، چوڑیوں سے بھرے ہاتھوں سے اس کا انتظار کر رہی تھی اور وہ آیا تو سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا تھا۔ میں لکڑی کے بکسے میں بند اس کے وجود کو چھو بھی نہ سکتی تھی، اسے محسوس بھی نہ کر سکتی تھی، اسے کچھ کہہ سکتی تھی نہ اس کی سن سکتی تھی۔ میںنے اس کے چہرے والے حصے پر، جہاں لکڑی کے بکسے میں شیشہ لگا ہواتھا، اپناچوڑیوں والا ہاتھ اس کے سامنے کیا کہ شاید اسے خوشبو آئے اور میری چوڑیوں کے رنگ نظر آئیں تو آنکھ کھول کر مجھے دیکھے، اس کے چہرے پر جو مسکراہٹ سجی تھی وہ مزید گہری ہو جائے مگر… میری خواہش ، حسرت بن گئی۔

وہ سو رہا تھا، ابدی نیند، سکون کی نیند! وہ نیند جو ان کو میسر آتی ہے جو راہ حق کے مسافر ہوتے ہیں ، دھرتی ماں کے رکھوالے، جنھیں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا اور اسے گلے لگا لینا آتاہے۔ جنھیں کوئی طاقت اپنے پیاروں کو تنہا چھوڑ کر جاتے ہوئے اداس نہیں کر سکتی۔ جنھیں فرض پر محبتیں قربان کرنا آتی ہیں۔ نہ یہ اس دنیا کے لوگ ہوتے ہیں، نہ اس دنیا میں زیادہ عرصہ رہنے والے، نہ ہی دنیا ان کی قدر کرتی ہے، نہ ہمیں ان کے درجات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا اللہ کے ہاںمقام عالی، اس دنیا میں عارضی قیام مثالی، ان کا حسن جمالی، جن کی دشمن پر ہیبت جلالی، جن کے مستقبل خیالی ہوتے ہیں ۔

یہ جیتے تو شاید چند ہی برس ہیں مگر ان کے نام رہتی دنیا تک کے لیے رہ جاتے ہیں۔ یہ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں تو ہم زندہ رہتے ہیں، یہ رات رات بھر جاگتے ہیں تو ہم سکون کی نیند سوتے ہیں۔ دھرتی ماں سے کیا گیا عہد وفا نبھاتے ہوئے، اپنے ان رشتوں سے عہد نہیں نبھا پاتے جو ان کی راہ تکتے تکتے ، ان کی آس میں سانس لیتے ہیں۔ میں اسے دیکھ رہی تھی، آخری بار… ستمبر میں اسے آنا تھا، وہ ستمبر میں ہی آیا تھا مگر ویسے نہیں ، جیسے اسے آنا تھا۔ اسے اس بچے کو بھی نہیں ملنا تھا جو سات ماہ بعد اس دنیا میں آئے گا۔

کئی بہاریں آئیں گی، کئی ساون بیتیں گے، رتیں بدلیں گی، دنیا کا نظام اسی طرح چلتا رہے گا، مگر میرے دل پر جما ہوا غم کا موسم کبھی نہیں بدلے گا۔ تمہارے چند دن کے پیار سے میں نے وہ زندگی کشید کی ہے کہ اپنے بچے کے ساتھ باقی عمرتنہا گزارنا مجھے گراں نہ گزرے گا۔ میں کسی اور کو یہ مقام دے ہی نہیں سکتی جو تمہارا میری زندگی میں ہے۔ یوں بھی میں بیوہ تو کہلاتی ہوں مگر یہ بھی جانتی ہوں کہ تم زندہ ہو۔ تمہاری زندگی میں، میں کسی اور کی کیسے ہو سکتی ہوں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔