32 لاکھ روپے ماہانہ کا کوچ

سلیم خالق  اتوار 8 ستمبر 2019
پاکستان کرکٹ میں یہی ہوتا ہے، جس کا داؤ چل جائے وہی چیمپئن۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ میں یہی ہوتا ہے، جس کا داؤ چل جائے وہی چیمپئن۔ فوٹو: فائل

’’پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں‘‘ یہ ضرب المثل آج کل مصباح الحق پر پوری طرح صادق آتی ہے، وہ کرکٹ حکام کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں اور بقول شعیب اختر انھیں ’’پی سی بی کا چیئرمین کیوں نہیں بنایا‘‘،خیر ان کے ’’مذاق‘‘ کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے وہ بیچارے چیف سلیکٹر بننے کی آس لگائے بیٹھے تھے مگر کوئی لفٹ نہ ملی، اب اپنے یوٹیوب چینل پر ہی بھڑاس نکالا کریں گے۔

ویسے مصباح بہت خوش قسمت ہیں کہ پاکستان کرکٹ کی سب سے طاقتور شخصیت بن گئے، انھیں باقاعدہ اسکرپٹ بنا کر لایا گیا، پہلے جس کرکٹ کمیٹی میں شامل تھے اسی نے سفارشات پیش کیں کہ مکی آرتھر اچھے کوچ نہیں انھیں عہدے سے ہٹایا جائے،پھر وہ خود ہی امیدوار بن گئے، جب اشتہار میں لیول ٹو کی شرط سامنے آئی تو اسی وقت واضح ہوگیا کہ بورڈ کسی من پسند شخصیت کو کوچ بنانا چاہ رہا ہے۔

وسیم خان نے کوشش تو کی مگر کسی ایک ہائی پروفائل کوچ کو بھی درخواست دینے پر قائل نہ کرسکے، بورڈ کے پاس آپشنز بہت محدود تھے لہذا مصباح کی منت سماجت شروع ہو گئی، وہ بطور کوچ مکمل اختیارات کے ساتھ اتنا ہی معاوضہ مانگ رہے تھے جو مکی آرتھر کو ملتا تھا ساتھ پی ایس ایل میں کام کرنے کی بھی اجازت چاہتے تھے، پی سی بی کی مشکل یہ تھی کہ 20 ہزار ڈالر (تقریباً32 لاکھ روپے) ملکی کوچ کو کیسے دیتا، پھر حکام خود ہی کہہ چکے تھے کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اب ہیڈ کوچ یا سلیکٹرز کو کسی فرنچائز کے ساتھ کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔

سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور بولنگ کوچ اظہر محمود کراچی کنگز سے وابستہ تھے اور بورڈ نے تاثر یہی دیا تھا کہ ایسا رواں برس آخری بار ہوا، ڈرافٹ کمیٹی سے سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق اور سلیکٹر توصیف احمد کو اسی خدشے پر نکالا کہ کہیں اپنی فرنچائز کے پلیئرز کو ترجیح نہ دیں، اب مصباح کے لیے قوانین بدل دیے گئے، کیا ان کے حوالے سے یہ خدشہ برقرار نہیں رہا، ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہوگیاکہ بورڈ کے امور میں شفافیت کا فقدان ہے، اس سے قبل ڈومیسٹک ٹیموں کے کوچز والے معاملے میں جس طرح اپنوں کو نوازا گیااس سے بھی یہ بات نمایاں ہو رہی تھی۔

مصباح کے کیس میں بھی قوائد و ضوابط کو نظراندازکر دیا گیا، سابق کپتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، انھیں میڈیا اور شائقین کسی کی کوئی پروا نہیں، جسے جو کہنا ہے کہے وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگ اپنے ہی خول میں بند رہتے اور خامیوں کوجانچنے کی کوشش نہیں کرتے جس سے نقصان ہوتا ہے،مصباح کے بارے میں پہلے ہی مشہور تھا کہ وہ اپنے قریبی لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں، بطور کپتان بعض کھلاڑی ان کی نظرکرم کا انتظار ہی کرتے رہے، اب تو وہ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ہیں،نجانے کیا ہوگا۔

انھوں نے ڈومیسٹک ٹیموں میں اپنے سابقہ ڈپارٹمنٹ کے بیشتر کرکٹرز کو فٹ کرا دیا اس سے قبل کیمپ میں کئی منظور نظر بھولے بسرے کرکٹرز کو بھی بلا لیا تھا، یہ اچھی علامات نہیں ہیں، گوکہ بورڈ ذرائع نے گذشتہ دنوں سرفراز احمد کو محدود اوورز کی ٹیموں کا کپتان برقرار رکھنے کا عندیہ دے دیا تھا مگر مصباح کا کچھ پتا نہیں، کوئی نہیں جانتا کہ وہ حارث سہیل کو قیادت نہ سونپ دیں، اگلی سیریز سری لنکا سے ہے جس کے کئی اسٹار کرکٹرز پاکستان آنے سے انکار کر چکے، اسے ہرانا مشکل نہ ہوگا، البتہ اصل امتحان آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سیریز ثابت ہوگی، وہاں اگر خدانخواستہ نتائج اچھے نہ رہے تو کہا جائے گا کہ یہاں تو بڑی بڑی ٹیمیں نہیں جیتیں یہ بچے کیسے جیتتے، یا ابھی تشکیل نو کے دور سے گذر رہے ہیں۔

خیر مصباح کیلیے یہ عہدے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ثابت ہوں گے، ان کی خاصیت یہ ہے کہ حکام کے سامنے کبھی نہیں بولتے اس لیے کپتانی کے دنوں میں بھی بورڈ کی آنکھ کا تارا بنے رہے، البتہ تعلقات نہیں ٹیم کی کارکردگی ثابت کرے گی کہ وہ32 لاکھ روپے ماہانہ کے حقدار ہیں بھی یا نہیں، چیف ایگزیکٹیو برطانیہ سے لانے والا پی سی بی ملکی کوچ کا راگ الاپ رہا تھا۔

وسیم خان بھی اب پاکستان کے رنگ میں رنگتے جا رہے ہیں، انھیں قریبی شخصیات نے مشورہ دیا کہ ’’نئے لوگوں‘‘ کو آگے لاؤ اس پر ہی عمل ہو رہا ہے، البتہ میں تو وسیم خان کو اس دن مانوں جب وہ کسی نئے شخص کو لاتے ہوئے ذاکر خان کو سائیڈ لائن کردیں، وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنزکے ساتھ ایسا کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے، بات وہی ہے نہ کہ پاکستان میں طاقتور کے لیے الگ اور کمزور کیلیے الگ قانون ہے، بورڈ بھی اسی سسٹم کا حصہ ہے، ان دنوں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔

بھاری بھاری تنخواہوں پربعض لوگوں کو ملازم رکھا گیا، یونس کو انڈر 19ٹیم کی کوچنگ کیلیے 14،15لاکھ دینے کو تیار نہ ہوئے،2،3 لاکھ پر ڈیڈلاک بنا، مصباح کو 32 لاکھ پر سینئر ٹیم کی ذمہ داری سونپ دی، کہیں ’’اوپر‘‘ سے کسی کی کال تو نہیں آ گئی تھی کہ ہرحال میں انہی کو کوچ بنانا ہے، اس سارے معاملے میں محسن خان کے ساتھ بہت غلط ہوا،ان سے کہا گیا کہ کرکٹ کمیٹی کی پوسٹ چھوڑ دیں ہم آپ کو کوچ یا چیف سلیکٹر بنا دیں گے اس لیے مفادات کے ٹکراؤ کا مسئلہ ہو سکتا ہے، وہ مستعفی ہو گئے اور اب خالی ہاتھ رہنا پڑا۔

خیر محسن خان کی خاموشی بتا رہی ہے کہ انھیں بھی کہیں نہ کہیں ’’ایڈجسٹ‘‘ کر دیا جائے گا، پاکستان کرکٹ میں یہی ہوتا ہے، جس کا داؤ چل جائے وہی چیمپئن،اب دیکھتے ہیں مہنگے ترین کوچ مصباح ٹیم کو کب ٹیسٹ اور ون ڈے میں بھی نمبر ون بناتے ہیں، ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔