طالبانائزیشن آف پنجاب

مزمل سہروردی  جمعرات 12 ستمبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک میں ٹورازم اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے دنیا کے دروازے کھولنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اور دوسری طرف ملک میں طالبانائز یشن کی پالیسی پر بھی عملدرآمد تیز کر دیا گیا ہے۔

ایک طرف بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں آنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی جارہی ہے دوسری طرف ملک میں طالبان طرز حکومت کی ترویج جاری ہے۔ ایک طرف سعوی عرب اور دیگر اسلامی ممالک اپنے دروازے دنیا پر کھولنے کے لیے لبرل از م کی ایک پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دوسری طرف ہم اپنے لبرل معاشرہ کو قدامت پسند سے بھی کہیں آگے کے معاشرہ میں تبدیل کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔

پنجاب میں آج کل طالبانائز یشن کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں یو ای ٹی جو پنجاب کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی ہے اس کے کیفے ٹیریا میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اکٹھے بیٹھنے پر پا بندی لگا دی گئی۔ اس ضمن میں جب شور مچا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ مضحکہ خیز نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ اس پر غیر اعلانیہ عمل درآمد شروع ہے۔ یو ای ٹی کی جانب سے ایسا نوٹیفکیشن پہلی دفعہ نہیں جاری کیا گیا اس سے پہلے لڑکیوں کے لباس کے حوالے سے بھی ایک نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا۔ میں حیران ہوں جن بچوں نے انجینئر بننا ہے۔

جن خواتین انجینئر زنے آگے بڑھ کر مردوں کے شانہ بشانہ ملک میں کام کرنا ہے۔ جنہوں نے دفاتر اور سائٹ پر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہے۔ ہم ان کو اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ چائے پینے اور کیفے ٹیریا میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ہم انھیں ایک خاص قسم کا لباس پہننے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایک طرف مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی بات کی جاتی ہے۔ دوسری طرف عام تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو مدارس بنایا جا رہا ہے۔

اسی طرح کمشنر لاہور نے ایک ریسٹورنٹ پر چھاپہ مار کر غریب ویٹرز کو پکڑ کر معرکہ سر کر لیا ہے۔  چھاپے کی جو کہانی زبان زد عام ہے میں اس کی تفصیل پر نہیں جانا چاہتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح ریسٹورنٹ پر چھاپہ مار کر ہم کیا پیغام دے رہے ہیں۔ ہم پاکستان پنجاب اور لاہور کو کس قسم کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔

میں شراب نوشی کا وکیل نہیں ہوں۔لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شراب نوشی اور منشیات میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم پاکستان کو کیسا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم پاکستان کو ملائیشیا اور دبئی کی طرزپر ترقی دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو طالبان کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم دنیا کے ساتھ کاروباری روابط بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ہم پاکستان کو قدامت پسند پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں سمجھ ریسٹورنٹ پر چھاپہ مار کر پاکستان کی کیا خدمت کی گئی ہے۔

گو کہ لاہور میں ریسٹورنٹ میں چھاپہ مارنے سے متعلقہ پولیس نے انکار کر دیا۔ لیکن اس ضمن میں پولیس کا کردار کوئی اچھا نہیں ہے۔ ناکوں پر لوگوں کے منہ سونگھنااور نکاح نامہ چیک کرنا پولیس کا محبوب مشغلہ ہے۔ کیا پولیس خود ہی ایسے اعدادو شمار ظاہر کرے گی کہ کتنے لوگوں کو صرف منہ سونگھ کر شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔

حالانکہ ان کے پاس سے شراب کی کوئی بڑی مقدار بھی برآمد نہیں ہوتی۔ اور اگر ہوئی بھی تو ایک بوتل ہی بر آمد ہوتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے کاموں کی حوصلہ افزائی کیوں کی جاتی ہے۔ moral policingسے پولیس جان کیوں نہیں چھڑا لیتی۔ اسی طرح ناکوں پارکوں پر نوجوان جوڑوں کے نکاح نامہ اور دیگر تفصیلات چیک کرنا کون سی پولیسنگ ہے۔ آج تو حال یہ ہے کہ بڑے ہوٹلوں کو چھوڑ کر باقی گیسٹ ہاؤسزا ور ہوٹلوں میں کمرہ لینا اپنی عزت داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ روزانہ گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں پر چھاپہ مار کر پولیس ملک میں کس کلچر کو پروان چڑھا رہی ہے۔ کیا یہ سب صرف منتھلی لینے کے لیے کیا جا تا ہے۔ رات کو پولیس کے ناکے کسی مجرم کو پکڑنے کے لیے نہیں بلکہ ان کاموں کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔

لاہور کے ایس ایچ او نے ایک محفل میں فخریہ بتایا کہ اس نے متعدد چینی شہریوں پر اس لیے پرچے درج کیے ہیں کہ وہ لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہو ٹل سے شراب لے کر جا رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے افسرا ن کو معلوم ہے کہ تم چینی شہریوں پر اس طرح شراب لیجانے پر پرچے درج کر رہے ہوں۔ اس نے کہا معلوم ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ ملک کی کیا خدمت ہے۔

اگر مسلمان مغربی ممالک میں مساجد اور اپنے طرز زندگی کا حق مانگتے ہیں۔ کیا ہم اپنے ملک میں غیر ملکیوں کو یہ حق دینے کے لیے تیار ہیں۔ پنجاب میں فائیو اسٹار ہو ٹلز میں شراب کی بار رومز ہیں۔ آجکل وہاں بھی طالبان کی حکومت آگئی ہے۔ ایکسائز کے موجودہ افسران نے سالہا سال سے جاری طریقہ کار کو بند کر دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس سے کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ لیکن صوبے بھر میں شراب کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ یہ بلیک مارکیٹ کا کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔ا س کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

آج تو سعودی عرب بدل رہا ہے۔ دنیاکو احساس ہو گیا ہے کہ اس طرح طالبانائز یشن سے نہ تو ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے آزاد ہو سکتے ہیں۔ ہم پاکستان کو دنیا کے لیے بند نہیں کر سکتے۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو ملائیشیا اور عرب ممالک میں اس طرح آزادیاں نہیں دی جاتیں۔ پتہ نہیں صرف پاکستان میں ریاست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کو مذہب کا ٹھیکیدار کیوں سمجھتے ہیں۔

کیا اس طرح معاشرہ بنا کر ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں۔ کیا پاکستان کے تعلیمی اداروں میں لڑکے اور لڑکیوں کو الگ الگ بٹھا کر ہم بعد میں یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارے مرد اور خواتین ملک کی ترقی کے لیے قدم سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں۔ جب ہم تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام تعلیم کو ختم کر رہے ہیں تو ملک میں خواتین اور مردوں کو اکٹھے کام کرنے کا ماحول کیسے دے سکتے ہیں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیاں زیادہ ڈاکٹر بن رہی ہیں لیکن وہ ڈاکٹر بننے کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ پڑھ لیتی ہیں۔ لیکن کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ شہر سے باہر ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم نے معاشرہ کو اتنا آزاد ہی نہیں کیا کہ ہم لڑکیوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے سکیں۔ کیا لڑکیوں کا صرف پروفیشنل تعلیم حاصل کرنا کافی ہے۔ کیا انھیں پروفیشنل بنانا ضروری نہیں ہے۔

میری رائے میں ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بالخصوص پولیس اور انتظامیہ کو moral policingکے تصور سے جان چھڑانی چاہیے۔ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اور اسے ذاتی معاملہ ہی رہنے دینا چاہیے۔ باقی دنیا سے لوگوں کو پاکستان آنے کی ترغیب دینے کے لیے ہمیں پہلے پاکستان کے معاشرہ کو آزاد کرنا ہوگا۔ ایک قید اور بند معاشرے کی سیر اور وہاں کاروبار کے لیے کوئی نہیں آتا۔ لوگ وہاں آنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

حال ہی میں دیکھیں کرکٹر حسن علی نے ایک بھارتی لڑکی سے شادی کی ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کی چند تصاویر سوشل میڈیا پر آئی ہیں۔ ان تصاویر پر بھی ایک عجیب تنقید شروع ہو گئی ہے۔ لوگوں نے میاں بیوی کی تصاویر کو بھی ایک الگ رنگ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

ہم کون ہیں اعتراض کرنیو الے۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سال پہلے کی بات ہے جب سید منور حسن جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری جنرل تھے اور ان کی اہلیہ شعبہ خواتین کی سیکریٹری جنرل تھیں تو میاں بیوی کا ایک مشترکہ انٹرویو ایک اخبار میں شائع ہوا۔ اس موقعے پر دونوں کی تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سید منور حسن کی اہلیہ مکمل حجاب میں تھیں لیکن پھر بھی ایک تصویر میں وہ اپنے شوہر سید منور حسن کو چائے بنا کردے رہی تھیں۔

تو مجھے یاد ہے کہ منصورہ اور جماعت اسلامی میں اس پر بھی اعتراضات شروع ہو گئے۔ جس پر سید منور حسن نے کہا کہ کیا بیوی خاوند کوچائے بنا کر نہیں دے سکتی ۔اس میں اعتراض والی کونسی بات ہے۔ کیا میاں بیوی کے درمیان ایک انس اور محبت کا رشتہ موجود نہیں ہوتا۔

میں پریشان اس بات پر ہوں کہ تحریک انصاف کی یہ حکومت پاکستان کو دوبارہ ضیاء الحق کا پاکستان بنانے کے درپے ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب کی طالبا نائز یشن کی کوششیں شرو ع کر دی گئی ہیں۔ اس کا پاکستان کوکیا فائدہ ہوگا۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔