غیر متوازن احتساب کا تاثر

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 ستمبر 2019
اس تاثرکو ختم کرنا ناگزیر ہے، اسی طرح اختلافی آواز کو دبانا بھی جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ (فوٹو: فائل)

اس تاثرکو ختم کرنا ناگزیر ہے، اسی طرح اختلافی آواز کو دبانا بھی جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ (فوٹو: فائل)

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ غیر متوازن اور سیاسی انجینئرڈ احتساب کا بڑھتا ہوا تاثر ایک خطرناک سوچ ہے، احتساب کے عمل کے غیر متوازن ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات لینے کی ضرورت ہے، ملک میں اختلافی آواز دبانا جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے ۔ ازخود نوٹس کے اختیار کو آیندہ فل کورٹ میٹنگ میں ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔

نئے عدالتی سال کے آغاز پر تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کریں۔

چیف جسٹس نے اپنے بلیغ خطاب میں مضمر انتباہ کے ذریعے احتساب کے غیر متوان اور انجینئرڈ ہونے کو جمہوری نظام کے لیے خطرہ قرادیا ہے جو ایک ویک اپ کال ہے اور ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ بھی۔ اس خطاب میں ایک خطرناک سوچ کی نشاندہی کرتے ہوئے منصف اعلیٰ نے توازن سے عاری اور سیاسی جوڑتوڑ پر مبنی جوابدہی کے نظام پر فاضلانہ گرفت کی ہے۔

چیف جسٹس نے اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے اقدامات لینے کو کہا ہے، اگر ملک کے سیاسی اور انتخابی تاریخ کے مختلف اداوار کا جائزہ لیا جائے تو اس تاثر کی گھمبیرتا فہمیدہ حلقوں، ماہرین قانون و آئین اور سیاسی رہنماؤں کے لاشعور سے جا ملتی ہے، اور ہر باشعور سیاستدان جانتا ہے کہ ملک میں غیر متوازن اور سیاسی انجیئیرڈ احتساب کا تاثر ماضی کے سیاسی اوراق میں بھی موجود تھا اور اس سنڈروم کی بازگشت لمحہ موجود کے انتخابی عمل کے مابعد میں بھی سنائی دیتی ہے، اپوزیشن جماعتوں نے ، جن کے خلاف کرپشن چارجز پر احتساب کا عمل کئی ہائی پرفائل کیسز کی شکل میں جاری ہے۔

اس پر شدید تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے اور غالباً چیف جسٹس کے انداز نظر کا ایک یہ تناظر بھی ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح2018ء کے انتخابات کے انعقاد اور نتائج کے حوالہ سے بھی صورتحال غیر یقینی اور منظرنامہ  تشویش وتشکیک سے مبرا نہیں۔ پارلیمنٹ کے ماحول پر بھی اس کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں، معیشت، گڈگورننس اور خطے کی صورتحال مل کر ایک فشار انگیز سیاق وسباق مہیا کرتے ہیں جن پر چیف جسٹس کا انتباہ  بروقت ہے۔ چیف جسٹس نے قراردیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی تاہم صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی، کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور بااختیار ہے۔

گزشتہ عدالتی سال سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا پرائیویٹ درخواستوں کی تعداد56تھی جب کہ102شکایات کا اندراج ہوا، اس دوران149 شکایات نمٹائی گئیں، اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 شکایات زیرالتوا ہیں، ان میں صدر مملکت کی جانب سے دائر دو ریفرنس شامل ہیں، کونسل ان ریفرنسز پر اپنی کارروائی کررہی ہے، تمام ممبران اور چیئرمین اپنے حلف پر قائم ہیں،کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھیں گے۔

بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے، یہ طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹوازم پر تنقید کرتا تھا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے، معاشرے کا یہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سوموٹو لینے کو سراہتا ہے، ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جب ضروری ہوا یہ عدالت سوموٹو نوٹس لے گی۔

اٹارنی جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 367 اور 370 میں ترامیم غیر قانونی ہے، بدقسمتی سے بھارتی سپریم کورٹ بھی تاخیری حربے استعمال کررہی ہے، قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے جس نے قیام پاکستان سے ہی عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ نے کہا ماتحت عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کبھی تسلی بخش نہیں رہی، صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی نے کہا کہ تمام اختلافات اور کمزوریوں کے باوجود وطن کے دفاع کے لیے ہم سب ایک ہیں، فوج اور سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہم سکون کی نیند سوتے ہیں ۔

بناں بریں مذکورہ تاثر کا جائزہ لیا جائے تو چیف جسٹس نے ایک فکر انگیز بیانیہ کے طور پر اسے موضوع بحث بنایا ہے، جوگردش لیل و نہار میں موجودہ سیاسی بے چینی اور بے یقینیت کا ایک اہم موڑ ہے۔ بلاشبہ ملک کی سیاسی اور انتخابی تاریخ سیاسی انجینئیرڈ احتساب کے تسلسل کے ساتھ ہمارے تحت الشعور میں جاگزیں ہے۔

اس تاثرکو ختم کرنا ناگزیر ہے، اسی طرح اختلافی آواز کو دبانا بھی جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ چیف جسٹس کی جانب سے حقائق کی تفہیم کے مطابق کرپشن سے پاک نظام کی سمت درست پیش قدمی اور احتساب کی شفافیت ہی قوم کو مثبت نتائج دے سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔