ہمارا ایک مہربان

سعد اللہ جان برق  جمعـء 13 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

ہمارے ایک مہربان ہیں اور پڑوس کے صاحب مکان ہیں اور ان کا بیان ہے کہ وہ ہمارے بہت بڑے قدردان ہیں لیکن یہ ان کا اپنے اوپر سراسر بہتان ہے کیونکہ اصل میں یہ جو ہمارے ’’دوکان‘‘ ہیں اور پھر جو کچھ دونوں کانوں کے درمیان ہے وہ اسی کا قدردان بلکہ درپے نقصان ہیں۔

اصل میں وہ ایک پکے پکائے اور پکانے والے پانچ منزلہ یعنی ’’فائیو ان ون‘‘ مسلمان ہیں۔ لیکن جن پانچ نشانیوں کے وہ نشان ہیں وہ اسلام کے وہ پانچ ارکان نہیں ہیں جن کے بغیرکوئی مسلمان نہیں ہو سکتا بلکہ پانچ نشان جو ان کی پہچان ہیں۔ ان میں ایک تو یہ کہ وہ ایک جدی پشتی خاندانی مسلمان ہیں۔

دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ ایک مسلک کے بھی روح رواں ہیں اور ایک پیر صاحب کے مرید دل و جان ہیں۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہیں اور پاکستانی مسلمان کم از کم اپنے خیال کے مطابق سب سے درجہ اول کے مسلمان ہوتے ہیں۔ چوتھی نشانی یہ ہے کہ وہ ایک دینی جامعہ کے بھی ثناخوان اور شہسوار ہیں۔

پانچویں نشانی جو تمام پاکستانیوں کی جان ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہر کسی کو مسلمان بنانے کا پیشہ کرتے ہیں۔ اور ہمیں تو خاص الخاص طور پر اکثر مسلمان بناتے رہتے ہیں۔ مسجد میں عصر کی نماز پڑھتے ہی وہ ہمیں مزید مزید اور پھر مزید مسلمان بنانے لگ جاتے ہیں۔ مغرب کی اذان تک وہ اچھی طرح مسلمان بنا چکے ہوتے ہیں لیکن نہ جانے رات کو اس پر کہاں سے یہ شک نازل ہو جاتا ہے کہ ہمیں مسلمان بنانے میں وہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ یا رات کو شاید ہماری مسلمانی کو ابلیس خبیث نے نقصان پہنچایا ہو گا یا خود ہی زنگ آلود ہو گئی ہو گی اس لیے صبح کی نماز ختم ہوتے ہی وہ اپنا کام وہیں سے شروع کر دیتے ہیں جہاں سے ان کو شک ہوتا ہے کہ کچھ کمی رہ گئی ہے۔

وہ خود تو اچھی طرح فارغ  البال ہیں، صاحب مال اور اہل و عیال ہیں۔ اور ان کے سارے بیٹے بھی ان ہی کی طرح صاحبان ہنر و کمال ہیں اور اپنی دکانوں اور تجارتوں میں فعال اور مالا مال ہیں۔ یعنی ان کے پاس۔ ’’اللہ کا دیا ہوا‘‘ تو نہیں کہہ سکتے ہیں لیکن لوگوں سے چھینا ہوا یا ٹھگا ہوا یا کھینچا ہوا سب کچھ موجود ہے، اس لیے صرف یہی ایک کام کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ہمارے اندر ایسی بہت ساری خامیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں جو ان کی طرح کی مسلمانی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس لیے ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں اور جیسے ہی فارغ تو اپنی ڈیوٹی پر لگ جاتے ہیں۔

ان کا سب سے بڑا اعتراض ہم پر یہ ہے کہ ہم نہایت خود غرض اور لالچی مسلمان ہیں۔ دن رات صرف اپنے لیے ’’جنت کمانے‘‘ کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں اور یہ ذرا بھی نہیں سوچتے کہ آخر دوسرے مسلمانوں کا بھی ہم پر حق ہے اور انھیں بھی صراط مستقیم دکھا کر جنت مکین کرنا ہمارا فرض ہے۔

یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ ہم صرف ایسے اعمال تک محدود ہو جائیں جو کرنے کے ہوتے ہیں اور خود ہی نہایت خود غرضی سے جنت کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ آخر یہ باقی سارے لوگ بچارے جو بھٹکے ہوئے ہیں ان کو بھی صراط مسقیم پر ڈالنا ہمارا فرض ہے جیسا کہ وہ خود کر رہے ہیں کہ دوسروں کو راہ دکھانے کے جوش میں خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔

ایک دن ہم نے عرض کیا کہ جناب ہر کوئی آپ جیسا ’’قربانی‘‘ دینے والا تو نہیں بن سکتا۔ کہ لوگوں کو جنت پہنچاتے پہنچاتے خود باہر رہ جائیں لیکن وہ نہیں مانتے۔کہتے ہیں یہ تو سراسر خود غرضی ہوئی کہ پہلے ہم جنت کی طرف ہو لیں اور دوسروں کی فکر نہ کریں۔ نہیں یہ اسلامی اخوت کے بالکل خلاف ہے جو ’’پہلے آپ‘‘ پر مبنی ہے۔

ایک دن ہم نے ان کو ایک ’’توجہ دلاو‘‘ نوٹس کے ذریعے ان کو اپنے بیٹوں کی طرف متوجہ کیا جن میں سے ایک بینک افسر ہے دوسرا ٹھیکدار ہے اور تیسرا سیاست کا کاروبار کرتا ہے اور ان کا پکا پکا عقیدہ ہے کہ ’’روپیہ‘‘ صرف روپیہ ہوتا ہے حلال یا حرام ہرگز نہیں ہوتا ہے۔

اور روپے پر اس قسم کے ’’الزامات‘‘ خاص طور پر اپنے پاس آنے والے روپے پر اس قسم کے لیبل لگانا ہرگز درست نہیں ہے بلکہ روپے کے پاکیزہ دامن پر داغ لگانا ہے جو ’’بہتان‘‘ کے ضمن میں آتا ہے۔ خود ان کا ذریعہ معاش وہ روپیہ ہے جو اس نے اپنے بینکر بیٹے کے ذریعے ایک ایسے کھاتے میں ڈالا ہوا ہے جس کی ’’کمائی‘‘ پر ان کا اپنا گزارہ بھی خوب ہوتا ہے بلکہ خرات اور دان پن کے طور پر ’’چندے‘‘ بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کے بارے میں تو وہ بہت پہلے ہمیں اور ہم سے زیادہ خود اپنے آپ کو مطمئن کر چکے ہیں۔

ان کا بیان تھا کہ سب سے پہلے تو بینک کا ’’منافع سود‘‘ ہوتا ہی نہیں اور ثبوت کے طور پر انھوں نے ہمیں اکاونٹ کھولنے کا فارم دکھاتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ اگر بینک دیوالیہ ہو گیا تو کھاتہ داروں کی رقومات بھی ڈوب جائیں گی۔ چنانچہ اس شرط کے ساتھ بینک کا منافع نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہوا۔ اس لیے ’’سود‘‘ کیسے ہوا۔

پھر دوسری دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنے بچے کو پڑھاتے لکھاتے ہیں اسے ’’کماو‘‘ بناتے ہیں تو ان کی کامیابی آپ کی ہوئی یا نہیں؟ اسی طرح ’’روپیہ‘‘ بھی ایک طرح سے ہماری اولاد ہوتا ہے۔ ہم نے اسے کمایا ہوتا ہے اگر اولاد کی طرح اس روپیہ کو بھی ہم بینک میں کام بلکہ مزدوری پر لگا دیں تو اس کی کامیابی ناجائز کیسے ہوئی۔

ذرا سوچو؟۔ اور ہم سوچتے رہ گئے کہ لوگ کس کس چیز کے لیے کیسی کیسی دلیلیں پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ ’’بھیڑیا‘‘ خوا مخواہ بدنام ہے جس نے بھیڑ کے بچے کو کھانے کے لیے ’’دلائل‘‘ پیدا کیے تھے اور پھر آرام سے یہ کہتے ہوئے ہڑپ لیا کہ بزرگوں سے زبان لڑاتے ہو۔ حالانکہ اس نے صرف یہ کہا تھا کہ میں تو آپ سے نیچے ہوں تو پانی کیسے گدلا کر سکتا ہوں اور میری ساری عمر ہی چھ مہینے کی ہے تو ایک سال پہلے میں نے آپ کو گالی کیسے دی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔