سلطان راہی سے بڑا اداکار کون؟ (دوسرا اور آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  جمعـء 13 ستمبر 2019

سلطان راہی کوئی معمولی اداکار نہیں تھے، انھیں آپ ہالی ووڈ دور کی خاموش فلموں کے ہیرو رڈولف والنٹینو کہہ سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض نقادان فن سرے سے سلطان راہی کو اداکار ہی تسلیم نہ کرتے ہوں کیونکہ اداک ری کے اس مکتب فکر کے لوگ ٹی وی ڈرامہ سے فلم ایکٹنگ کا موازنہ کرتے ہیں۔

ان کے نزدیک آغا حشر کے زمانے کی پاٹ دار ،گرجتی ہوئی آواز میں پر شور ، بلند آہنگ مکالمے کہنا کا دور گذر گیا، ان کینزدیک سلطان راہی اسی دور کی باقیات میں سے تھے، لیکن اس فلسفہ سے ہٹ کر اگر بڑے اسکرین پر مقبولیت کو دیکھا جائے تو راہی صاحب کو پاکستان کی فلمی دنیا کے اولین مزاحمتی ہیروکی حیثیت حاصل تھی۔

وہ اسکرین ہی نہیں پورے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا تھا، اور اس کام میں اسے مدد  اسکرپٹ اور فلم کی کہانی نے دی، بشیر نیاز،ناصر ادیب، سید نور اور ریاض الرحمان ساغر سمیت دیگر رائٹرز کے مکالموں نے پنجابی فلموں کا ایک ٹرینڈ سیٹ کردیا تھا اور مین اسٹریم اردو فلم بھی پنجابی فلم کے بیانیہ سے پناہ مانگتی تھی۔

ایک بار اولین بلوچی فلم بنانیوالے خوبرو ہیرو انور اقبال نے لاہور جا کر طبع آزامائی کی، وہ بنیادی طور پر ٹی وی ایکٹگ کے تربیت یافتہ تھے، ان کا لہجہ شائستہ، دھیما،اور دائیلاگ ڈیلیوری نارمل تھی ، لیکن ان کا اسٹائل نہیں چلا، انور اقبال خود مجھے کہنے لگے کہ میری لاہور سے واپسی کا سبب یہی تھاکہ میں سلطان راہی نہ بن سکا۔ جو سلطان راہی بنے ان کی طویل فہرست ہے، راز کی بات یہ ہے کہ پنجابی فلم کا خمیر اینٹی فیوڈل ازم سے اٹھا ہے، جتنے اسکرپٹ لکھے گئے۔

جہاں دیدہ رائٹرز نے لکھے، بشیر نیاز کی عمر اسی کام میں گزر گئی، ریاض شاہد جیسے مکالمے لکھنے والے اب نہیںرہے۔ مگر ریاض الرحمان ساغر ، خواجہ پرویز ، سید نور، ناصر ادیب نے سلطان راہی کے لیے نہیں پنجابی فلم کی بقا کے لیے بلند آہنگ اسکرپٹ لکھے، ایک ایسا سیاسی نظام جس میں فیوڈل ازم کی سفاکان روش انسانی طبقات کو تقسیم در تقسیم کرکے انصاف سے محروم کردے۔

اس میں سلطان راہی کے لیے صرف ’’ضرب عضب ‘‘ کی ضرورت رہتی تھی جو اس نے اپنے مکالموں، فائٹ،ا سٹیمنا اور جوش وجلال سے لبریز اداکاری کی صورت پوری کی۔ سلطان راہی کو اندازہ تھا کہ عوام کی طاقت اسی وقت اس کا ساتھ سینما میں دے گی جب ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کا حساب وہ قانون کے نام نہاد محافظوں ، مسند انصاف سے لیں، ایک فریاد کناں ’’ماں‘‘ کا بدلہ جاگیرداروںسے اسکرین پر چکائیں۔ حقیقت میں آج آزاد میڈیا معاشرے کی چیر پھاڑ جس بیدردی سے کررہا ہے ، اس کی بنیاد سلطان راہی کی فلموں سے پڑی تھی، معاشرہ گونگا بہرا تھا اور اب بھی ہے۔

آزاد میڈیا سے سب خائف ہیں، کوئی حقیقت نہ کل سلطان راہی چھپی تھی اور نہ آج میڈیا سے پوشیدہ ہے، یہ فلم کی ٹیکنالوجی ہے جس نے سماج میں بے انصافی کے خلاف احتساب کے نام سے وہ کردار اپنا لیا ہے جسے ادا کرنے کی سلطان راہی نے بھاری قیمت ادا کی ، وہ جی ٹی روڈ پر مارے گئے ، اس کے بعد پنجابی فلم انڈسٹری دوسرا سلطان راہی نہیں لاسکی۔ اسے ہدایتکاروں اور فلم سازوں نے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا تھا جو ناظرین کے احساس محرومی سے خود کوidentifyکرچکا تھا۔ سلطان راہی کی انفرادیت باغیانہ تھی، وہ ٹرینڈ سیٹر تھا، آپ عظیم فلم ایکٹرز کی نام پر نظر ڈال لیں، سب باکمال تھے، ان کی اداکاری کا اسلوب جادگاناہ تھا ، لیکن جو پنجابی فلم سے تعلق جوڑ گیا۔

اس نے سلطان راہی سے دامن نہیں چھڑایا، وہ اسی کا ہوکر رہ گیا، سلطان راہی کے ساتھ الیاس کاشمیری، ساون، مظہر شاہ کا کوئی نعم البدل نہ مل سکا، نعیم ہاشمی جیسے ذہین اداکار غائب ہوگئے۔ کئی خوبصورت ٹی وی اسٹار محض اس لیے فلم انڈسٹری سے دور رہے کہ ان کے لیے حقیقت پسندی کی زنجیر پاؤں سے چھوٹ نہ سکی۔ وہ لاؤڈ ڈرامہ نہ بول سکے۔ ناکامی یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میںمتوازی سنیما بھی پنپ نہ سکا۔ ضیا محی الدین کو اسلم ڈار ’’مجرم کون ‘‘ میں لے آئے وہ بھی نہ چل سکے۔

واقعتاً سلطان راہی کا فلمی کردار پنجاب کے جاگیردارانہ کلچر اور پولیس افسر شاہی کو للکارنے والی بے خوف ون مین آرمی کا رہا، واجبی شکل کا یہ اداکار سب سے بڑا اینٹی ہیرو بن کر اسکرین پر حکمرانی کرتا رہا ، سلطان راہی نے اپنی اداکاری سے جذبات وہیجان کا طوفان برپا کرنے کی روایت ڈالی ، وہ بیسویں صدی میں آغا حشر تھیٹر کا سب سے بڑا صداکار و اداکار تھا ،کراچی پریس کلب میں ایک بار بابا نجمی کے پنجابی  مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی میں راقم نے جب یہ انکشاف کیاکہ لیاری میں سلطان راہی سب سے مقبول ترین پاکستانی  اداکار ہے اور بلوچ محنت کش طبقہ سلطان راہی کی پنجابی فلموں کا دلدادہ ہے تو دوستوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ سلطان راہی کی پنجابی فلم ’’ بشیرا ‘‘ اور’’مولا جٹ ‘‘ نے ٹرینڈ تبدیل کردیئے، مصطفی قریشی سلطان راہی کا اینٹی تھیسس ثابت ہوئے۔

سلطان راہی سے میری کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ، ٹیلی فونک رابطے ہوئے، تمام صحافتی رابطے فدا احمدکاردار کے توسط سے ہوئے، سلطان راہی اس وقت طیش میں آگئے، جب گنڈاسہ کلچر پر لکھتے ہوئے فلم ایشیا میں ’’ گوریلا کے قلم سے‘‘کئی سلسلہ ہائے مضامین شائع ہوئے، جن کا لب لباب یہ تھا کہ کون سے پنجاب کلچر میں ایک حسین عورت زیورات میں لدی پھندی اپنے ہیروکی میت پر آنسو بہانے آجاتی ہے، ایک بار یہی سوال اٹھایا گیا کہ پنجابی فلموں میں بے جا تشدد ، خونریزی ، لاؤڈ ازم اورحقیقت کی غیر سائنسی اور مضحکہ خیز عکاسی کا باب کب بند ہوگا، اس پر سلطان راہی نے میرے نام سے ایک خط لکھوایا جو فدا احمد کاردار نے کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین کو بطور منیجنگ ایڈیٹر بھیجا کہ اس مضمون کو میرے نام سے شائع کریں۔ یہ مکتوب نما مضمون ’’سلطان راہی بنام نادرشاہ عادل ‘‘ فلم ایشیا میں چھپا۔

بعد کے عشروں میں لاہور سے ویکلی ’’مصور‘‘ نے فلم انڈسٹری میں چربہ سازی ، غیر معیاری پروڈکشنز، ایک بیمار فلمی ذہنیت اور بیہودگی کے خلاف ایک مہم چلائی ، مصورکی صحافتی ٹیم میں بڑے معتبرنام تھے۔ میںسمجھتا ہوں مصور کے بعد فلم انڈسٹری کو صحتمند صحافتی ادارہ کی حیثیت دینے والا دوسرا رجحان ساز جریدہ پھر شائع نہ ہوسکتا۔

آج بھی برطانیہ کی طرزکے ماہنامہ sight and sound جیسے ایک جریدہ کی ضرورت ہے، جس کے ایک تبصرہ میں دی گئی رائے کو پڑھ کر فلم بین یا تھیٹر جانے والے فیصلہ کرلیتے تھے کہ فلم دیکھنے یا تھیٹرجائیں یا گھر میں رکیں۔60  ء کی دہائی میں ’’فلم ، فلم کلچر اور فلمز ان ریویوز‘‘ نامی رسالے ہفت روزہ نورجہاں میں پابندی سے آتے تھے۔ ان جرائد سے معیاری تراجم کے لیے سینئر صحافی دوپہرکو دفتر آجاتے اور جزوقتی کام کے تحت مطلوبہ تراجم کرکے روزناموں میں ڈیوٹی دینے چلے جاتے تھے۔ میں نے ہدایت کار شوکت ہاشمی ، آفتاب سید ، عبدالوحید خان، آصف نورانی، انعام صدیقی، اقبال کاردار کوکام کرتے دیکھا تھا۔

میرے خیال میں وسعت اللہ خان نے بھی صحرا نوردی میں کوئی کسر نہیںچھوڑی تھی۔اسی زمانے میں فلم کلچر رسالے میں مایا ڈیرین اور ران رائس کا ایک جامع مقالہ An Anagram of Ideas on Art,Form and Filmکے عنوان سے چھپا تھا جو میرے پاس موجود رہا اور اسے میں نے احسان شاہ اور ان کی اہلیہ (میری بھابھی) نازین کو دیا ہے۔ آج ایسے فکر انگیز مضامین  اور تخلیقی افکار فلم پالیسی کی صورت ہمارے نظروں سے اوجھل کیوں ہیں۔ جوزف وان اسٹرنبرگ کا ترجمہ میری نظر سے پھر نہیںگزرا۔ یا ہماری بصارت اور بصیرت ختم ہوتی جارہی ہے۔

نوٹ: رفیع الزماں زبیری صاحب نے ریشماں کے گذشتہ فیچر پر اپنے دلچسپ تاثرات بیان کیے ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔

ریشماں پر آپ کا کالم مزہ دے گیا،مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب آپ نے ریشماں کا انٹرویو لیا ہوگا، ان دنوں میں ’’مشرق‘‘ کے لیے فیروز اختر کے نام سے کالم لکھ رہا تھا، فیروز اختر میرا گھر کا نام ہے، میں گاہے بہ گاہے مشرق کے دفتر بھی جاتا تھا،وہاںان سب سے واقفیت بھی تھی، جن کا آپ نے اپنے کالم میں ذکر کیا ہے، آپ کو شاید علم ہوگا ، اقبال زبیری میرے چھوٹے بھائی تھے۔

وہ لاہور سے آتے تو ان کے ساتھ وہاں جانا ہوتاتھا۔ ایک نوجوان رپورٹر کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اسکوپ کرے، جب آپ یہ کارگزاری کرگزرے تواس وقت تومشرق میں بڑے جغادری رپورٹر ہوتے تھے،ارشاد احمد خان بڑے آدمی تھے،مجھے اکثریاد آتے ہیں، ریشماں کو سلیم گیلانی نے دریافت کیا،وہ ان دنوں ریڈیو میں ڈائریکٹر ایکسٹرنل سروس تھے،یہ قریش پور، عبیداللہ بیگ، اور افتخار عارف کا زمانہ تھا،جب وہ ایکسٹرنل سروس کی بیرک اپنا وقت ’’کسوٹی‘‘ کھیلنے میںگزارا کرتے تھے،پھر یہ کسوٹی ٹیلی ویذن کا بڑا کامیاب پروگرام بن گئی۔ ریشماں ایک فطری گلوکارہ تھی، آپ نے صحیح لکھا ہے، لوگوں نے اسے کمرشلائز کردیا،صحرا کی آواز شہر کی آوازوں میں گم ہوگئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔