برطانیہ اور امریکا میں جنسی جرائم

عمران شاہد بھنڈر  جمعرات 3 اکتوبر 2013

مشرقی تہذیب ہو یا مغربی، اگر ان میں جنسی جرائم کی نوعیت دیکھی جائے تو وہ تقریباً ایک ہی جیسی گھنائونی رہی ہے۔ مختلف سماجوں کی ہیئت ترکیبی ہی ایسی ہے کہ ان میں ہولناک جرائم کے لیے جگہ بن جاتی ہے۔ اہم  فرق محض یہ ہے کہ تیسری دنیا بالخصوص پاکستان میں اگر جنسی جرائم کا ارتکاب ہو تو انھیں ذرایع ابلاغ میں بہت زیادہ اچھالا جاتا ہے اور اگر اس سے زیادہ گھنائونی نوعیت کا جنسی جرم برطانیہ، امریکا یا یورپ میں ہو تو اسے ایک معمول کی خبر کے طور پر نشر کردیا جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ جنس سے متعلقہ معاملات ان معاشروں کے شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ ’’مہذب‘‘ لوگ گھنائونے جنسی جرائم کی خبریں سننے کے عادی ہوچکے ہیں۔ چھوٹی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی نوعیت سے ان ’’مہذب‘‘ معاشروں کے بارے میں ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ جنسی گھٹن سے آزاد ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں جہاں جسم فروشی کے اڈے بھی جگہ جگہ دکھائی دیں ان میں ایسے سنگین نوعیت کے جنسی جرائم کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟ ان جنسی جرائم کی وجوہ کو کسی تجریدی آئیڈیالوجی میں نہیں بلکہ ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشروں کی کلی ساخت میں ہی دریافت کیا جاسکتا ہے۔

’’ترقی یافتہ‘‘ معاشروں میں ایسے بھی جنسی جرائم ہیں کہ جن کو پاکستان میں کھلے عام زیر بحث بھی نہیں لایا جاسکتا ، مگر ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشروں میں ان پر معمول کے واقعے کے طور پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان جرائم کا گھنائونا پن کم ہوگیا ہے، بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان جرائم کے گھنائونے پن کو تہذیب کی سطح پر قبولیت مل چکی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں لاہور میں معصوم بچی سنبل کے ساتھ زیادتی کا جو واقعہ پیش آیا اس سے لوگوں کو حد سے زیادہ تکلیف ہوئی اور تقریباً ہر سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی اور اس جرم کا ارتکاب کرنیوالوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور سخت سزا کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس واقعے اور اس پر ہونیوالے ردعمل سے یہ نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ جہاں اس قسم کے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنیوالے چند لوگ موجود ہیں تو وہاں ان کے خلاف آواز اٹھانیوالے باشعور افراد بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ گھنائونے جرائم سے اس حد تک نفرت یہ واضح کرتی ہے کہ ایک ایسی ریاست جس کی ساخت میں بدعنوانی، ڈاکا زنی، رشوت ستانی، استحصال اور ظلم و تشدد کے عوامل کثرت سے پایا جاتے ہوں وہاں کی تہذیب و تمدن میں اجتماعی شعور اور اخلاقیات کا بھی فقدان نہیں ہے۔

پاکستان میں جب کبھی معمول سے ہٹ کر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پاکستان کے خود ساختہ روشن خیال لبرل اس کی جڑیں معاشی، سماجی، ثقافتی  نظام اور انفرادی اور اجتماعی انسانی نفسیات کے انتہائی گہرے، پیچیدہ اور جدلیاتی عمل میں تلاش کرنے کے بجائے مذہب اور سماج کے ’’قدامت پسندانہ‘‘ اصولوں میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ’’ترقی یافتہ‘‘ مغربی ممالک کو وہ بطورِ نمونہ پیش کردیتے ہیں۔ ’’ترقی یافتہ‘‘ مغربی ممالک کے متعلق ان کاعلم کس حد تک ناقص ہے کہ یہ لوگ نظریاتی تعصبات کی جن گہرائیوں میں جکڑے جاچکے ہیں کہ حقیقت کا ادراک کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں۔ زنا بالجبر ایک ایسا جرم ہے جس کی شرح ان ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں کہیں زیادہ ہے جو آزادی، انصاف، اخلاقیات اور انسانی اقدار کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔

2007 کو بی بی سی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں ہر برس پچاسی ہزار عورتیں اس کا شکار ہوتی ہیں۔ 2009 میں این سی سی پی کی ایک رپورٹ میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کی تقریباً 000،250 لڑکیاں جب کہ سولہ سے انسٹھ سال کے درمیان کی 400,000 خواتین ہر برس ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ مارچ 2012 کو مارٹن بیکفورڈ نے برطانیہ کے ایک اہم اخبار ’’دی ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ میں یہ تفصیل پیش کی کہ جن خواتین پر جنسی حملے ہوتے ہیں ان میں سے پچاسی فیصد اپنی رپورٹ تک درج نہ کراسکیں۔ برطانوی معاشرے کی اکثریت اس کا ذمے دار ذرایع ابلاغ، قانونی نظام اور معاشرے کی اجتماعی ساخت کو قرار دیتی ہے۔ 2003 میں 000،50 خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں ۔ ان میں سے صرف 11,867 نے پولیس کے پاس جاکر اپنا مقدمہ درج کرایا اور صرف 629 کو سزا ہوئی۔ جونہی ہم برطانیہ سے نکل کر سب سے بڑے سرمایہ دار لبرل ملک اور دنیا کی واحد سپر پاور ریاست ہائے متحدہ امریکا پر جنسی جرائم کے حوالے سے توجہ مرکوز کرتے ہیں تو اس ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشرے کی انتہائی وحشت ناک شکل ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہاںہر برس ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں جنسی جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں ایسے گھنائونے واقعات برطانیہ سے 20 فیصد زیادہ ہیں۔ ریاست کے شعبہ انصاف کی رپورٹ کے مطابق 1995 میں 556,000 جنسی تشدد کے واقعات سامنے آئے، جب کہ 2010 میں ان کی تعداد 270,000  تھی۔ شعبہ انصاف کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2005 میں 191,670 ریپ کے مقدمات کا اندراج ہوا۔ 2005-2010 کے درمیانی عرصے میں صرف 36 فیصد جنسی جرائم کو رپورٹ کیا گیا اور 64 فیصد متاثرین نے رپورٹ کرانے سے اجتناب کیا۔ اسی طرح ہر 45 سیکنڈ کے بعد ایک عورت پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ عورت کے خلاف جنسی جرائم کی بنیادی وجہ مرد کا خود کو عورت سے برتر اور طاقت ور ثابت کرنے کا تصور ہے۔ اس طرح ماہرین جنسی جرائم کی وجوہ سماجی نظام کی ہیئت ترکیبی میں دیکھنے کے بجائے عورت و مرد کے درمیان پائی جانے والی فطری تفاوت میں دیکھتے ہیں۔ تاہم اس دلیل میں کچھ خاص وزن نہیں ہے کیونکہ امریکا میں دس میں سے ایک آدمی بھی ’ریپ‘ کا شکار ہوتا ہے، جب کہ برطانیہ میں 28 فیصد اور امریکا میں 32 فیصد بچے بھی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

انتھونی برائون کا خیال ہے کہ امریکا میں جنسی  جرائم کا شکار لوگوں کی تعداد اس لیے زیادہ ہے کیونکہ وہاں جنس کی تعلیم بہت کم عمر سے شروع کردی جاتی ہے۔ مغربی سماج کے وہ ماہرین جو سرمایہ داری نظام کے حمایتی ہیں وہ کسی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہتے کہ جس سے سرمائے کے بہائو اور اس کے ارتکاز میں کسی قسم کی کمی کا رجحان سامنے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت فحش نگاری کی صنعت مختلف کمپیوٹر کمپنیوں  سے زیادہ سالانہ آمدن حاصل کرتی ہے۔ رسائل، اخبارات اور ٹی وی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس سماج کا جنس کے علاوہ اور کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں زنابالجبر کے گھنائونے واقعات کو سرمائے کے لیے ہوس، طمع، لالچ، طاقت اور ارتکاز جیسے عوامل کی خواہش سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ سب ذرایع برطانوی اور امریکی سماج کے لوگوں کے اجتماعی شعور اور نفسیات کی تشکیل کرتے ہیں۔ سرکاری ’’دانشور‘‘ اسی قسم کی صنعتوں کی تنخواہوں پر پلتے ہیں، اس لیے اپنی وسیع تحقیقات کے ذریعے ایسے نتائج پر پہنچنا جو منافع کے اس عمل سے مماثلت نہ رکھتا ہو، ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس طرح بنیادی محرکات کو نظر انداز کردینا لازمی ٹھہرتا ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ وہ لوگ جن کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ جنسی جرائم کا شکار ہوسکتے ہیں، ان کو محض تعلیم دینے سے اس عمل سے نجات پائی جاسکتی ہے، یعنی حالات بدلنے کے بجائے لوگوں کے اذہان کو تبدیل کردیا جائے اور وہ ان جرائم کا ارتکاب بند کردیں۔ اگر اس عمل سے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوتی تو اب تک جنسی جرائم کی تعداد میں کمی واقع ہوچکی ہوتی۔ ایک طرف برطانیہ کی حکومت عورتوں کو تنبیہہ کرتی رہتی ہے کہ خواتین ٹیکسیوں میں اکیلی سفر کرنے سے پرہیز کریں تو دوسری طرف برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے رواں برس جنسی جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان میں خصوصی توجہ لیتے ہوئے اسکولوں میں جنس کی تعلیم کو فروغ دینے اور اس سے متعلقہ صورتحال پر ’’موثر‘‘ انداز میں منعکس ہونے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہاں وہ ایک بہت بڑی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ تعلیم سے جنسی معاملات کے بارے میں شعور تو بیدار کیا جاسکتا ہے، مگر  زیادتی کی صورت میں تعلیم کا خیال ہی بہت طفلانہ لگتا ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ  جنسی جبر کے مرتکب کی نفسیات کی تشکیل کرنے والے عوامل کو جان کر ان کا ازالہ کیا جائے، لیکن سرمائے کی سلطنت کو قائم رکھنے والی ’تہذیب‘ میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔