مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 29 ستمبر 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیزہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔ ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جا رہے ہیں ہرکامیاب آدمی کے پیچھے لا تعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہییں۔

ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جا کر نئی شروعات نہیں کرسکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کرکے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں، یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفرکرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔

ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں ‘‘ آئیں ! ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جزکل میں سما جائے ہمارا علاج فکرونظرکے سوا کچھ نہیں ، انسانی کردار اورایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطرناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں، جتنی آج کل ہو رہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے۔ ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے، آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں آج ہم سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔

زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنیٰ ہو رہی ہے۔ کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سقراط نے اس کے لیے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظورکیا۔ افلاطون نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دو مرتبہ اپنی جان خطر ے میں ڈالی ۔

مارکس اور پلیٹس کو تخت وتاج سے زیادہ اس سے محبت تھی۔ برونو اس کا وفادار ہونے کے جرم میں آگ میں جلا دیاگیا کسی زمانے میں کلیسیا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اور اس کے نام لیوائوں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا۔

دوسری طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے، ہمارے سامنے سچ بار بار آکے چلاتا رہا ، دہائیاں دیتا رہا، لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اورجرأت نہ ہوسکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خوفزدہ ہوکے اس سے ڈرکر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تمام تر بزدلی اور ڈروخوف کے باوجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے۔ آج سچ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے، اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی۔

آج سچ چیخ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کر دیا اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیے کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ آج پورے ملک میں خاک اڑتی پھر رہی ہے ۔ بربادی و حشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے۔ آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا جہاں سیاست دان جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں جہاں علماء مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں جہاں بزنس مین اپنے منافع کی خاطر لوگوں کو زندہ درگورکر نے تلا بیٹھا ہے۔

جہاں جاگیردار ذراسی بات پہ اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھانے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تارکردیتے ہیں جہاں ڈاکٹرکو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیادہ فکر ہوتی ہے جہاں شرافت، تعلیم ، تہذیب وتمد ن ، اخلاص ، خلوص محبت کوکوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا۔ جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتا ہے جہاں ہر جائزکام، ناجائز طریقے سے انجام پاتا ہے اور ناجائزکام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔

جہاں تھانے ، نوکریاں، ٹھیکے سر عام بکتے ہیں جہاں کفن تابوتوں، رشوت ،کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے۔ جہاں مزدوروں کا دن رات خو ن پیا جا رہاہے۔ جہاں ہر دو نمبرکام عروج پر ہے، جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمد ن سے عارج سمجھ و دانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں ، تعلیم یافتہ ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔

جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں ، لٹیروں کی چاندی ہی چاندی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش وعشرت میں غرق ہیںجہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم برپا ہے، وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیر دوائی یا دو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کرجان دینے پر مجبور ہیںجب کہ وہ لوگ جو ان ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں۔

ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول سے پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان ، ایئرکنڈیشنر انگلش اسکولوں سے تعلیم حاصل کریں ، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بناد ی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اور منافع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔

برسہا برس سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، عوام قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں ۔ بجلی، پٹرول ،گھی ، آٹا ، گیس، چاول ، چینی میں اضافہ کرنا نا گزیر ہوگیا ہے، ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاں کرتے رہیں۔آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں آپ کسی ارکان پارلیمنٹ ، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دارکے بچوں کی شادی یا موت میت میں جا کر معائنہ کرلیں آپ ان کی شان وشو کت، ان کے کھانے،ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے۔

کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں، فاقے کرتے رہیں، خود کشیاں کرتے رہیں۔ ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوں پر چند ہزار لوگ عیاشیوں میں غرق رہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے ’’کفرکا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں‘‘ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔