زیرحراست ہلاکتوں کا معاملہ

مزمل سہروردی  منگل 1 اکتوبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پنجاب میں پولیس حراست میں ملزمان کی ہلاکت کے واقعات پر آج کل بہت شور ہے۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں ایسے واقعات پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیہی او ر جاگیردارنہ کلچر کی وجہ سے ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن میرے لیے زیادہ پریشانی کی بات لاہور جیسے اربن اور بڑے شہر میں ایسے واقعات کا ہونا ہے۔

لاہور میں گزشتہ ایک ماہ میں پولیس حراست میں ہلاکت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ جب کہ پنجاب میں عمومی طور پر یہ چھٹا واقعہ ہے۔ اعدادو شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو پورا پنجاب ایک طرف جب کہ لاہور ایک طرف۔

یہ درست ہے کہ حکومت نے اب پولیس حراست میں ملزمان کی ہلاکت پر عدم برادشت کی پالیسی بنائی ہے۔ متعلقہ پولیس اہلکاران کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت پرچے درج کیے جا رہے ہیں۔ انھیں نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ واقعات ختم نہیں ہو رہے۔ شاید جن عہدیداران کے خلاف پرچے درج کیے جا رہے ہیں وہ بہت جونیئر ہیں۔ اور پولیس میں جونیئر کی قربانی کی ایک رسم موجود ہے۔

جونیئر اپنے سنیئر افسران کے لیے ڈسپلن کی خاطرقربانی دیتے آئے ہیں۔اور ایسا لگ رہا ہے کہ آج بھی یہی جونیئر افسران اپنے سنیئر کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ اب گزشتہ روز لاہور کے علاقہ نواب ٹاؤن میں ہونے والے واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں نواب ٹاؤن کے علاقے میں پولیس کی ٹیم نے ایک گھر میں ریڈ کیا ہے۔

اس ریڈ میں ایک نوجوان اشفاق کی موت واقعہ ہو گئی ہے۔ اشفاق کے والد کے مطابق پولیس کی ریڈنگ پارٹی نے اشفاق کو ریڈ کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے سر پر بندوق کے بٹ مارے گئے۔ جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ اور اس کی موت ہو گئی۔ جب کہ دوسری طرف پولیس کا موقف ہے کہ ریڈ کے دوران اشفاق نے بھاگنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ آئی اور بعد ازاں دل کا دورہ پڑنے سے وہ جاں بحق ہو گیا ہے۔ پولیس کا موقف ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے سچ سامنے آجائے گا۔

ایک طرف لاہور پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کا کھل کر دفاع کر رہی ہے دوسری طرف عوامی غصہ کم کرنے کے لیے متعلقہ پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ حیرانی کی بات ہے، لاہور پولیس افسران کا موقف ہے کہ ریڈ کے لیے متعلقہ ایس ایچ او سے اجازت بھی نہیں لی گئی تھی۔

اور ایک اے ایس آئی چند پولیس کانسٹیبلز کے ساتھ ایک گھر میں گھس گیا اور اس نے بندہ مار دیا۔ یہ کیا ہے؟ کیا لاہور میں کسی کے گھر ریڈ کرنے کے لیے کوئی قواعد ہی نہیں ہیں؟ آپ جب چاہیں جس کے مرضی گھر گھس جائیں۔ اور جو مرضی کریں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔پولیس کے مطابق اشفاق کے گھر میں جوا ہوتا تھا۔ اس لیے ریڈ کی گئی۔ نواب ٹاؤن لاہور کا کوئی پوش علاقہ نہیں ہے۔

یہ کوئی متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس کا بھی علاقہ نہیں ہے۔پولیس نے جھگیوں میں ریڈ کی ہے۔ اور جگی نشینوں کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جھگیوں میں غریب لوگ ہی رہتے ہیں۔ان جھگیوں میں کسی بہت بڑے جوئے خانے کا وجود ممکن نہیں۔ میں اشفاق کی بے گناہی ثابت نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن لاہور میں تیس سال صحافت کرنے کے بعد مجھے اتنا تو اندازہ ہے کہ جھگیوں میں جوئے کا کوئی بڑا اڈا ممکن نہیں ہے۔

وہاں کوئی دولت مند جو ا کھیلنے نہیں جاتا۔ شاید لاہور پولیس کو نہیں معلوم لاہور کے بڑے جوئے کہاں ہوتے؟ لاہور کے جوئے کی بڑی بک کہاں ہیں؟ لاہور کے کونسے علاقوں کو جوئے کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے؟ میں حیران ہوں کہ کیا لاہور پولیس نے امیروں کے تمام جوئے خانے بند کروا دیے ہیں جو جھگیوں میں ریڈ شروع کر دی ہے۔ پتہ نہیں سارے کام غریب سے ہی کیوں شروع کیے جاتے ہیں۔ ورنہ جہاں امیروں کے عشرت کدے ہیں وہاں لیکن پولیس کی رسائی نہیں ہے۔ یہ وہی معاملہ ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلز میں تو پولیس کے گھسنے کی ہمت نہیں لیکن عام گیسٹ ہاؤ سز میں چھاپے پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ ریسٹورنٹس پر چھاپے مارنے شروع کیے ہوئے ہیں۔

رحیم یار خان میں صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پوسٹ مارٹم کی جعلی رپورٹ نے بھی ابہام اور عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے اب اس دلیل میں بھی وزن نہیں رہا کہ پوسٹ مارٹم سے حقیقت سامنے آجائے گی۔ سب کو معلوم ہے کہ پولیس اپنی مرضی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہے تا کہ کیس کو خراب کیا جا سکے۔

پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے ملزمان کا مقدمہ بھی پولیس خود ہی درج کرتی ہے۔ اس کی تفتیش اور کیس کی پیروی بھی پولیس ہی کرتی ہے۔ اس لیے آج تک ایسے کسی مقدمے میں کسی پولیس اہلکار کوکوئی سزا نہیں ہوئی ہے۔ کون پولیس کے خلاف کیس کی پیروی کرے؟ اکثر پولیس جن کو مارتی ہے وہ کوئی با اثر ملزم نہیں ہوتے۔ ان کا تعلق معاشرہ کے کمزور طبقہ سے ہوتا ہے۔ آپ اشفاق کے کیس کو ہی دیکھ لیں، جھگی میں ریڈ کے لیے کسی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

ایک سال سے لاہور میںپولیس کا ایک نیا نظام متعارف کروایا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے خاطرہ خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ پولیس ہے کوئی ملٹی نیشنل کارپوریٹ ادارہ نہیں ہے۔ افسروں کو بہر حال اپنے دفتر سے نکل کر تھانے تک جانا ہوگا ۔ انھیں خود کو ہر تھانہ کا ذمے دار سمجھنا ہوگا ۔ تب ہی ایسے واقعات رکیں گے۔ ورنہ بڑھتے جائیں گے۔

یہ درست ہے کہ رحیم یار خان کے واقعہ کا جب میڈیا میں بہت شور مچ گیا تو ڈی پی او رحیم یار خان کو تبدیل کیا گیا تا ہم لاہور میں ایک ماہ میں تین ہلاکتیں ہو گئی ہیں لیکن لاہور سے کسی کی قربانی نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل میڈیا میں کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا شور ہے۔  صلاح الدین کے واقعہ کے بعد اب مزید واقعات کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی موثر اقدمات نہیں کیے گئے ہیں ۔

آج کل ویسے بھی پولیس اور ڈی ایم جی گروپ کے درمیان ایک لڑائی چل رہی ہے۔ ڈی ایم جی گروپ ایک مرتبہ پھر پولیس کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب کہ پولیس اپنی خود مختاری قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔  شنید یہی ہے کہ نئے قواعد کے تحت ڈی سی او کو پولیس پر کنٹرول دینے کی بات کی جا رہی ہے جب کہ پولیس اس ضمن میں اپنی خود مختاری قائم رکھنا چاہتی ہے۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنا کلچرکیوں نہیں دیکھتا۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ پولیس کلچر میں سفاکی اور انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ پولیس گردی اس رائے کو مضبوط کر رہی ہے کہ پولیس پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں پولیس گردی کے پے درپے واقعات معاشرہ پر بد نما داغ ہیں۔ اس ضمن میں بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ در گزر کی پالیسی کوئی کامیاب پالیسی نہیں ہے۔ انسانی جان کی قیمت کو سمجھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔