زندگی کی تیز گام…

شیریں حیدر  اتوار 3 نومبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

زندگی ایک سفر ہی تو ہے… ہم سب مسافر، کوئی کسی نوع کی گاڑی میں سوار ہے کوئی کسی اور نوعیت کی، کوئی پیدل چل رہا ہے کوئی سوار، مگر چل سب رہے ۔ منزل با لآخر سب کی ایک ہے، ہر کوئی اس منزل پر پہلے سے طے شدہ وقت پر اور اپنے اپنے طریقہء کار سے پہنچتا ہے ۔ زندگی ایک تیز گام جیسی ہی تو ہے، ٹوٹی پھوٹی ، خستہ حال پٹڑی پر بھی اسی رفتار سے بھاگتی ہوئی ۔ اسی طرح جس طرح تین روز قبل… جمعرات کو رحیم یار خان کے قریب، لیاقت پور میں ہوا۔

علی الصبح، کتنے ہی مسافر اس ریل گاڑی میں سوار تھے… جس کا نام ہی تیز گام تھا اور اس میں سوار کتنے ہی لوگوں کو اس نے ایک پلک جھپکتے میں، موت کے منہ تک پہنچانا تھا۔ تیز گام کی چھکا چھک کے ساتھ، زندگی کی تیز گام بھی چھکا چھک کر رہی تھی، ہر کوئی علی الصبح جاگا ہو گا اور اس دن اور اس دن کے بعد آنیوالے کئی دنوں کے حوالے سے کئی سوچوں نے ان کا احاطہ کیا ہو گا۔ اپنے پیاروں کو سویرے سویرے پیغام بھیجا ہو گا کہ اس وقت ان کی ریل گاڑی، تیز گام کس اسٹیشن پر تھی، منزل سے کتنی دور… اس بات سے نا واقف کہ زندگی کی تیز گام اس سے بھی تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔

منٹوں میں دھماکوں سے آگ لگنا، اندر جلتے ہوئے زندہ جسموں کا موت سے آخری جنگ لڑنا، باہر نکلنے اور ٹرین کو روکنے کی تمام کوششوں کا ناکام ہونا اور اسی جدوجہد میں موت کو گلے لگا لینا… ایک ایسا المیہ ہے کہ جس کا اندازہ نہ آپ کر سکتے ہیں، نہ میں اور نہ کوئی اور۔ ان ستر سے زائد جل کر خاکستر ہو جانے والوں میں سے چند کے سوا باقی تمام میتیں ( لگ بھگ پچپن) … بے نشان ہیں کہ ان کی پہچان کا کوئی وسیلہ نہیں ۔ ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جائیں گے، لیکن انھیں کس سے میچ کیا جائے گا؟ مجھے اس سوال کا جواب معلوم نہیں۔ کتنے ہی گھر ہیں جن میں امیدوںکے چراغ اس وقت سے لے کر اب تک جل اور بجھ رہے ہوں گے۔ پہچان لیے جانے والوں کے جنازے بھی ہو چکے اور وہ سوختہ بدن، جزو خاک بن چکے ۔

باقی جانے کب تک پہچان اور ملکیت کے دعوؤں کے عمل سے گزریں گے اور کس کے ہاتھوں اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچیں گے؟ کیا ہم اس المیے کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ستر سے زائد گھروں میں کتنے بچے یتیمی اور کتنی عورتیں بیوگی کا لقب پا چکی ہوں گی؟ وہ کس کے ہاتھوں پر اپنے پیاروں کا لہو تلاش کریں گے؟ اس ملک میں آج تک دست قاتل… قانون کی گرفت سے محفوظ رہا ہے۔ خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے، بانی مملکت، سربراہ مملکت، کسی وزیر، سفیر کا قاتل ہو یا کسی عام تیرے میرے جیسے انسان کا ۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ( کافی عرصہ ہو گیا ہے ) کسی قاتل کو، خواہ وہ کسی کی جان کا قاتل ہو یا عزت کا، ( قانون کے ہاتھوں ) انجام تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہمارے یہاں قانون سوئی کا وہ ناکہ ہے جس میںسے اونٹ اور ہاتھی بھی گزر جاتا ہے۔

ملک کا ہر کرسی بردار ، ہر بڑے جرم کے بعد، ہمیشہ یہی دعوی کرتا ہے کہ مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ لیکن مجھے بھی حسرت ہے کہ میں کبھی ان آہنی ہاتھوں کو دیکھ سکوں جو صرف باتوں میں نظر آتے ہیں یا پھر جرم و سزا اور سائنس فکشن کی انگریزی فلموں میں۔

جرم ، مذکور بالامیں… مجرم سلنڈر ہے یا ٹرین کی بوگی میں شارٹ سرکٹ ہوجانے والا پنکھا؟ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کوئی آدمی مجرم نہیں ثابت ہو گا، کوئی وزیر اپنی نا اہلی پر استعفی دے گا نہ کوئی حکمران اس بات پر اپنی ناکامی کا اعلان کرے گا کہ اس کے دور حکومت میں، دوسرے سال کے دوران ہونے والا یہ بھیانک ترین حادثہ ہے اور اس کی ذمے داری کسی نہ کسی طرح ان پر بھی آتی ہے۔ ریاست مدینہ جیسی ریاست قائم کرنے کا شوق اور دعوی ہو تو یہ ایک بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’’ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو عمر ؓ اس کے لیے جواب دہ ہے!! ‘‘

اپوزیشن کو اپنے لالے پڑے ہیں، ان کا مارچ، ان کا دھرنا اپنے ان مفادات کی خاطر ہے جس طرح کے مفادات جنگل کے تمام جانوروں کو جنگل کے بادشاہ کے خلاف متحد کر دیتے ہیں ۔ یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ اس لیے منسلک ہیں کہ ان میں دشمن کا دشمن ہونا قدر مشترک ہے، دشمن کا دشمن اور دشمن کا دوست … یہ قدر مشترک بہت خطر ناک اتحاد کا سبب بنتی ہے۔ اس میں دوستوں کے بھیس میں بھی کئی چہرے ہوتے ہیں جو در پردہ دشمنوں کے دوست ہوتے ہیں ۔ اپنے ہی جب آستینوں میں خنجر چھپا کر، چہرے پر مسکراہٹ چھپا کر ملیں تو ہر کوئی دھوکہ کھا جاتا ہے، بلکہ کھاتا رہتا ہے ۔

مارچ اور دھرنا تو جانے کب تک اور کس رنگ میں جاری رہنا ہے۔ اس مارچ کے اختتام پر کیے جانے والے مطالبات کس طرح اور کون پورے کرے گا مگر یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی کو اس طرح کے مارچ اور دھرنے ماضی میں بھی مشکلات کا شکار کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ بیمار، مسافر، طالب علم، ملازم… یہ سب تو اپنے معمول نہیں جاری رکھ پاتے اور کوشش بھی کریں تو گھنٹوں کے حساب سے سڑکوں پر وقت گزارتے اور ذمے داروں کو کوستے ہیں ۔ سب سے خراب حال پھر اسی طبقے کی ہے کہ جن کے ہاں ہر روز کی دیہاڑی کے بعد چولہا جلتا ہے۔ جب سارے کاروبار زندگی بند ہوں گے اور مزدوری کا کال ہو گا تو ایسے لوگوں کے پاس ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ انھیں اپنے گھر کے چولہے جلانے کے لیے کچھ نہ کچھ بندوبست تو کرنا ہوتا ہے ورنہ ان کے بچے بھوکے پیٹ کیونکر سوئیں۔

بھوک تو ان کی بھی اڑی ہوئی ہو گی کہ جن کے پیارے اس ریل گاڑی کے مسافر تھے اور ان کی عافیت کی کوئی خبر ملی ہو گی نہ ان کے بھسم ہو جانے کی تصدیق۔ ان کے وارثوں کو کس طرح یقین آئے ، وہ یہ یقین کرنا بھی نہیں چاہتے ہوں گے۔ ان کا سفر تو تمام ہوا مگر ان کے گھر والے ایسی راہ کے مسافر بن گئے ہیں کہ جس کے ہر موڑ پر کٹھنائیاں اور مشکلات ہیں ۔ ایسی ناگہانی اور حادثاتی موت اپنے پیاروں کے دلوں میں وہ انمٹ نقوش چھوڑتی ہے کہ جو کبھی مدہم نہیں ہوتے۔ ہر بہار ان زخموں کو ہرا کرتی ہے اور ہر خزاں امیدکے سارے پات توڑ دیتی ہے۔

حکومتوں کے تحقیقاتی کمیشن بھی ہمیں بے وقوف بنانے کا ایک ایسا ڈرامہ ہیں کہ جس ڈرامے کی کسی قسط کا انجام ہم نے آج تک نہیں دیکھا… قائد اعظم سے لے کر، لیاقت علی خان، لیاقت علی خان کے قاتل… ضیا الحق اور ان کے ساتھ اعلی فوجی قیادت، امریکی سفیر، محترمہ بے نظیر بھٹو، یہ تو وہ سیاسی اور اہم کردار ہیں کہ جن کے انجام آج تک سوالیہ نشان ہیں، قاتل آج بھی ہمارے بیچ دندناتے پھر رہے ہیں اور ہم پر طنز سے ہنستے ہیں ۔ عام آدمی، خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، عزت کے نام پر قتل کی جانے والی، کاری ہونے والی، عزتیں لٹا کر خود کشیاں کر لینے والی، سڑکوں پر گھسیٹے جانے والے، سر عام گولیوں سے بھون دیے جانے والے، چار پیسوں یا کسی موبائل فون کی خاطر جان سے چلے جانے والے، سچ کہنے پر زبان گدی سے کھنچوا لینے والے، مجرموں ہی نہیں بلکہ ہماری محافظ پولیس کے ہاتھوں نشان عبرت بنا دیے جانے والوں کی بھی ہزاروں نہیں، لاکھوں داستانیں ہیں ۔

آج تک کس انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جو آیندہ آئے گی؟ لیکن اب تو حکمران تبدیلی کے دعوے دار ہیں، ان سے تو امید ہے کہ وہ ان انکوائری کمیشن کی رپورٹ عام آدمی تک بھی پہنچائیں گے اور ان محکموں کے وزیروں کو بر طرف کر کے بھی مثال قائم کریں گے کہ انھوں نے ماضی میں اپنے ہی بیانات میں ان ملکوں اور ان کے ان وزیروں کے بارہا حوالے دیے ہیں کہ جو اپنے محکموں کی نااہلی کو اپنی نا اہلی تسلیم کرتے اور محکمانہ ناکامی پر مستعفی ہوجاتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کون مستعفی ہوتا ہے، کیا رپورٹ آتی ہے انکوائری کمیشن کی اور وزیر اعظم اس پر کیا قدم اٹھاتے ہیں!!!

نوٹ۔ براہ مہربانی اپنی آراء اس ای میل ایڈریس پر ارسال کریں۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔