جینیئس لوگوں کو ترستا سماج

نادر شاہ عادل  پير 4 نومبر 2019

جب میر انیسؔ کے مناجات کے ان اشعار پر نظر پڑی۔

بھر دے در ِمقصود سے اس درجِ دہاں کو

دریائے معانی سے بڑھا طبعِ رواں کو

آگاہ کر آغازِ تکلم سے زباں کو

عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو

تو شعروں کے اس انتخاب نے سرخرو اور فکری طور پر سیراب کر دیا۔ بھائی علیم احمد یاد آئے جو ہماری ویب سائٹ express.pk سے وابستہ ہیں، ایک دن انھوں نے دلچسپ سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ ہم من حیث القوم قحط الرجال کا شکار ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم ایک کوکھ جلی قوم ہیں، بس بے آب و بنجرکلچرکی کھیتی باڑی میں مصروف ہیں، ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ صدی کے ادبی، علمی، سائنسی، تاریخی اور سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالیں تو کوئی بڑی ایکسٹرا آرڈنری شخصیت ملتی نہیں جسے عرف عام میں فوق البشر ’’لارجر دین لائف ‘‘ کہیں۔

آپ کو پتہ ہوگا کہ ایشین ٹائیگرکا بہت سنتے آئے ہیں مگر کوئی سوئیڈن کا بندۂ بے دام گنار مرڈال جیسا نہیں ملا جس نے ایشین ڈرامہ جیسی شاندار تحقیقی کتاب مارکیٹ میں پہنچائی، مجھے یاد ہے جمیل الدین عالی نے گنار مرڈال کی اس تحقیقی کاوش کو جن لفظوں میں بیان کی تھا، اس کی نظیر نہیں ملتی، اسی طرح جب سحر انصاری نے نسائی رجائیت کے عنوان سے ایک تحقیق پر تبصرہ کیا تو فکرکے نئے دریچے کھل گئے، آج نظریں نادرالوجود شخصیات کو ڈھونڈ رہی ہیں جو وطن عزیز میں موجود تو ہونگی مگرگمنام ہیں، ایسا پاکستانی جو اپنے عہد سے بہت آگے کی پیداوار ہو، وہ ہمعصروںمیں جینیئس کہلائے، اسے دیکھ کر ہمیں امریکی نژاد جاپانی دانشور فرانسس فوکویاما کی کتاب ’’دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین‘‘ کو جواب دینے کی استدلالی طاقت حاصل ہو، ہم کہہ بھی سکیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ہماری دھرتی نے بونے سیاستدانوں سے ہٹ کر بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں، ہم نے بھی ایک شیکسپئیر، شیخ سعدی، ابن رشد،امام غزالی، ادب، سائنس، ثقافت، تحقیق، عمرانی علوم اور خاص طور پر شاعری میں میرؔ و غالبؔ اور جوشؔؔ و فیضؔ کے بعد پاکستانی ادب وثقافت، فلسفہ، سیاست و اقتصادیات، تاریخ و تہذیب کے میدان میں ایک حیران کن جست لگائی ہے، کسی ہم وطن نے خاموشی سے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، کوئی غیر معمولی کام ایسا بھی کیا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں فلسفہ کی بنجر زمین نے گل ہائے رنگ رنگ بکھیر دیے ہوں۔ جن لوگوں نے رابرٹ لوئی سٹیونسن کی کتاب ’’گلیورز ٹریولز‘‘ پڑھی ہے وہ بونوں کی بسی کے للی پٹنز کو جانتے ہونگے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اکثر ادیب، دانشور، مفکر اور مستقبل کے معمار یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارا عام طالب علم  معاشرے سے کٹا ہوا ہے، اساتذہ سے اس کا ارتباط برائے نام ہے، وہ قدریں ماند پڑ چکیں جو جامعات کو آفاقی علمی آدرش کی جانب پکارتی تھیں، وہ اہل علم فرد اور ریاست کے مابین پل کا کردار ادا کرتے تھے انھیں گن ڈائون کردیا گیا، دہشتگردوں نے انھیں چن چن کے مار ڈالا۔ جو طالب علم تحصیل علم کررہے ہیں وہ حقیقت میں جہاد کر رہے ہیں۔ سوچنے والوں کی زندگی معاشی و سیاسی ابتر حالات کی نذر ہو گئی، اس لیے ملک کے فہمیدہ لوگوں کی اس تشویش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے درمیاں سے کوئی بڑا شاعر، ادیب، فلسفی، مفکر، مصلح، بطل جلیل اور دانائے روزگار کیوں جنم نہیں لے رہا؟ بعض شوخ چشم نقادان فن کہتے ہیں کہ صاحبو! غالبؔ و میرؔ کی عالمگیر فکر کی تقلید ، ذہنی غلامی سے کوئی آزاد ہو تو ’’آزاد شاعری‘‘ کرے، اقبال تو کہتے کہتے تھک گئے کہ :

جوانوں کو مری آہ سحر دے

پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ پاکستان کا نہیں ، ہندوستانی کلچر، سیاست،ادب اور تہذیب کو بھی قحط الرجال کا سامنا ہے، وہاں بھی فاروقی کو گوپی چند نارنگ کی زبانی گلہ کرنے کی گنجائش میسر ہے کہ میرؔ وغالبؔ کی جگہ لینے کوئی آتا دکھائی نہیں دیتا۔ ادھر شو بزنس کی طرف آئیے، کیا دلیپ کمار کو امیتابھ نے re place کیا؟ کیا پاکستان میں کوئی درمیانے درجے کا مارلن برانڈو پیدا ہوا، اس موضوع پر ضیا محی الدین کو لکھنا چاہیے، مگر ناپا اکیڈمی نے انھیں مصروف رکھا ہے۔ یہ کام طلعت حسین بھی کر سکتے ہیں، اہل نظر ہیں، قلمکار بھی ہیں۔ لیکن مسئلہ معاشی ہے، گردش ایام نے اچھے خاصے ذہین لوگوں کو روبوٹ بنا دیا ہے ان سے کسی بڑے کام کی توقع رکھنا دانشمندی نہیں۔

دانشوروں کے کئی مکاتب فکر ہیں، وہ جینیئس کی آفرینش کے لیے ماحول کی سازگاری کو شرط اول قرار نہیں دیتے، ان کے لیے گندی گلی بھی کسی شیکسپیئر کے نکلنے کی نوید دیتی ہے، وہ درجنوں ان عظیم عالمی شخصیات کی کہانیاں اور سوانح گنوا سکتے ہیں جنھوں نے پوری زندگی ایک خاص کاز کے لیے وقف کر دی، کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ’’وار اینڈ پیس‘‘ لیو ٹالسٹائی نے ہنسی خوشی ،گاتے بجاتے مکمل کی۔ کیا میکسم گورکی نے ’’ماں‘‘ کسی آفاقی نظریے کے بغیر لکھی۔ کیا میرؔ وغالبؔ نے اقلیم سخن کسی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے پے رول پر رہتے ہوئے قائم کی، اقبال کے پورے علمی کام کا جائزہ لیں، کوئی نوجوان شاعر، ادیب، فلسفی اور جہاں گشت دانشور اتنے سارے کام آسانی سے انجام دے سکتا ہے۔

غالباً یہی وہ مقام ہے جہاں اس سوال کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے کہ جینیئس پیدا کہاں ہوتا ہے، اس کی شرح نمو میں اس ملک کی معیشت اور سیاست کا کوئی دخل ہے یا یہ پودا کسی سیاسی مصلحت اور معاشی کفالت یا اقامے کا مرہون منت نہیں ہوتا، وہ اپنا ماحول خود تشکیل دیتا ہے، اس کا اسٹوڈیو اس کی کائنات ہوتی ہے، سماج محض صادقین سمجھ کر اس کی خطاطی کے حصول کا منتظر رہتا ہے، اسی طرح اسے فیض صاحب کے کلام کا حوالہ دینے کے لیے اپنے مقالہ کی رسمی ضرورت مجبور کرتی ہے، جینئس کی اٹھان اسی ماں کی گود کا نتیجہ ہے جسے تاریخ ایک خاص مشن کے لیے محفوظ کرتی ہے۔

کہتے ہیں بڑی تخلیق، اہم تحقیقی کام، منفرد نظریے یا آئیڈیاز کے ظہور کے لیے ایک متنوع کینویس چاہیے، ذہین وفطین لوگوں کی کیمسٹری عجیب ہوتی ہے، ایک بار عرفان حسین نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ لندن کی ایک خصوصی علمی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا، اس میں ایک بڑے میاں کو بے حد مضطرب پایا، مقررین کی تقریروں کے نوٹس لیتے کبھی خود لکھتے، گہری سوچ میں پڑتے، کمرہ سائنس دانوں، ماہرین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، یوں لگتا تھا کہ موصوف پر اس شعر کا نشہ چڑھا ہوا ہے،

آتے ہیںغیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

عرفان حسین نے لکھا کہ جب انائونسر نے آخری مقرر کا نام پکارا تو وہ یہی ’’بابا‘‘ تھے، فوراً نشست سے کھڑے ہوئے اپنے کاغذات سمیٹے اور ڈائس پر پہنچ گئے، پھران کے اور ہمارے درمیان سائنس،تحقیق، انسانی تجسس، مشاہدات، تجربات اور نتائج واستنباط کے خزانے لٹے۔

ریڈرز ڈائجسٹ میں کوری فورڈ نامی ایک معروف مصنف نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان مجھے یاد پڑتا ہے کچھ اس قسم کا تھا،How much of a genius you are

اس مضمون میں وہ کہتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو موسیقار بیتھوون کے پاس ہے موزارٹ کے پاس نہیں، شیکسپیئر کے پاس ہے، کرسٹوفر مارلو کے پاس نہیں، لیونارڈو ڈیونسی کے پاس ہے، مائیکل اینجلو کے پاس نہیں، یا کسی گھرکی معمولی نوکرانی کے پاس ہے کسی ریاضی دان کے پاس نہیں، وہ اس نوکرانی کے کارنامے گنواتے ہیں کہ کسی تعلیم اور ڈگری کے بغیر وہ ریاضی کے سوال پل بھر میں حل کر دیتی تھی ۔کوری فورڈ امریکا کے مشہور طنز ومزاح نگار، فری لانس رائٹر، اسکرین پلے رائٹر، اور ادیب تھے، انھوں نے ظرافت نگاری میں نام پیدا کیا،ایک بار انھوں نے مردہ ناول نویسوں کو زندہ ناول نگاروں کے مقابلے میں زیادہ فوقیت دی، بعد ازاں اپنی یادگار سیریز میں ناممکن انٹرویوز کے نام سے بڑی دلچسپ فرضی بات چیت کرائی۔ ان لوگوں میں اسٹالن کا راک فیلر، چیف جسٹس چارلس ایوانزکا الکیپون، سگمنڈ فرائد کا جین مارلو، سیلی فیلڈکا مارتھا گراہم، کرٹ روڈ اسٹائن کا گریشیا ایلن اور ایڈولف ہٹلر کا ہوئے لانگ سے مکالمہ کرایا۔ کوری فورڈ نے جینیئس کے سماجی، گھریلو، اور تعلیمی و تخلیقی پس منظر پر تفصیلی بحث کی تھی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی بڑا شاعر، ادیب ، مدبر ، مصور ، مصلح ، سماجی رہنما یا فلسفی وطن عزیز کی دھرتی سے نارض ہے یا اس کی شرح نمو رکی ہوئی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔