اِدھر دھرنا اور اُدھر کشمیر پر مودی کی سازشیں

تنویر قیصر شاہد  پير 4 نومبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

حکومت اور حکمرانوں کے خلاف احتجاجی مولانا فضل الرحمن کا لہجہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔ جواباً خان صاحب کے وزیروں مشیروں کا بھی لہجہ خاصا سخت ہے۔ ڈور سلجھنے کے بجائے اُلجھ رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان کشمیر کاز کو پہنچ رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہے کہ مولانا صاحب کے احتجاج نے میڈیا سے کشمیر کی آواز پیچھے ڈال دی ہے۔

وزیر اعظم سے سعودی عرب کا دَورہ بھی ملتوی کروا دیا ہے جب کہ اِسی دوران نریندر مودی سعودی بادشاہ اور طاقتور ولی عہد سے مل بھی آئے ہیں۔ ہم تو اِدھرمولانا موصوف کے احتجاج میں اُلجھے ہُوئے ہیں اور اُدھر بھارتی وزیر اعظم کی کشمیر پر جلی اور خفی سازشیں جاری ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کے دو درجن سے زائد ممبران کو سرینگر کا خصوصی دَورہ کروانا بھی اِسی مودی و ڈوول سازش کا حصہ ہے۔

ایک طرف تو بھارتی موقف ہے کہ کشمیر اُس کا ’’اندرونی‘‘ معاملہ ہے تو پھر یہ دورہ کروانے کا مقصد؟ یورپی ارکانِ پارلیمان کے اس دَورے سے قبل کشمیر میں پانچ غریب مزدوروں کو قتل کر کے بھارتی خفیہ اداروں نے اس کا ملبہ بھی کشمیری حریت پسندوں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ بھارتی ایجنسیوں نے ایسی ہی ظالمانہ حرکت مارچ2000 میں بھی کی تھی جب امریکی صدر، بل کلنٹن، بھارت کے دَورے پر تھے اور مقبوضہ کشمیر (چٹی سنگھ پورہ) میں 35 سکھ قتل کر دیے گئے تھے۔

بھارت نے یورپی پارلیمان کے28 ممبرز کو مقبوضہ کشمیر اس لیے ایک خاص ڈیزائن کے تحت بھجوایا ہے تاکہ عالمی سطح پر بھارت پر پڑنے والا دباؤ کم کیا جا سکے۔ یہ وفد 29 اکتوبر کو سری نگر پہنچا۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ نے کوشش کی کہ سرینگر میں اس وفد کی موجودگی کے دوران کشمیری کوئی احتجاجی مظاہرہ نہ کر سکیں۔ اس باوجود بھی مگر چالیس مقامات پر کشمیریوں نے مظاہرے کرکے اس وفد کو بتا دیا کہ کشمیر کی اصل صورتحال ہے کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ سری نگر پہنچنے والا یورپی یونین وفد سرینگر فوجی چھاؤنی تک مقید ہو کر رہ گیا تھا؛ چنانچہ دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارتی حکام نے اسی فوجی چھاؤنی میں مقامی نام نہاد سول سوسائٹی اور کاروباری افراد سے ان ارکان کی ملاقات کرائی۔

ظاہر ہے ان لوگوں نے بندوق کے سائے تلے اس وفد کو ’’سب اچھا‘‘ ہی کی رپورٹ دی ہوگی ۔اس ڈرامے کا اصل آرکیٹیکٹ اجیت ڈوول ہے۔ چالاکی مگر اُس نے یہ کی کہ دُنیا کو بتایا جائے کہ یورپی پارلیمان کا یہ وفد سرکاری طور پر کشمیر کا دَورہ کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وفد کے سارے ارکان نجی طور پر بھارت اور مقبوضہ کشمیر پہنچے۔

دراصل اس دَورے کے سارے اخراجات بھارتی خفیہ ایجنسیاں برداشت کر رہی تھیں لیکن بظاہر شو کرنے کی یہ کوشش بھی کی گئی کہ WESTT نامی ایک تھنک ٹینک کی سربراہ، مادی شرما، اس کی مہتمم ہے۔ مادی شرما چھ سال قبل معرضِ عمل میں آنے والے مشکوک و مشتبہ غیر سرکاری ادارے WESTT ( ویمن اکنامکس اینڈ سوشل تھنک ٹینک) کی بانی ڈائریکٹر ہیں۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ مذکورہ ’’تھنک ٹینک‘‘ میں صرف ایک مستقل ملازم اور دو جز وقتی ملازمین ہیں اور اس کا سالانہ بجٹ صرف 19 لاکھ انڈین روپے ہے۔

ہم اِسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نام نہاد تھنک ٹینک کی اصل اوقات کیا ہو گی! برسلز میں قائم کشمیریوں کی غیر سرکاری تنظیم ’’کشمیر کونسل ای یو‘‘ کے چیئرمین، علی رضا سید، نے بھی ایک جرمن نشریاتی ادارے کو تصدیق کرتے ہُوئے بتایا ہے کہ اس دورے کا انتظام مادی شرما نے کیا ہے۔ اس وفد کے جملہ ارکان کو نریندر مودی نے جس محبت سے خوش آمدید کہا، اِس نے بھی معاملات کو مشکوک بنا دیا ؛ چنانچہ بھارتی سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان یورپی ارکانِ پارلیمان کے دورہ کشمیر اور وزیر اعظم مودی سے ملاقات پر کئی سوالات اُٹھا دیے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کا دَورہ کرنے والے یورپی پارلیمان کے یہ 28 ارکان یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے گیارہ ریاستوں سے تعلق رکھنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سبھی لوگ یورپی مسلمانوں سے نفرت کرنے والی پارٹیوں سے وابستہ ہیں۔ اِنہی خصوصیات کی بنیاد پر اجیت ڈوول کے اشارے پر مادی شرما نے ان کا انتخاب کیا تاکہ مسلمان دشمنی میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دی جائے۔ یہ لوگ پہلے بھی مغربی یورپ کے کئی ممالک میں بھارت کی کھلی حمایت اور کشمیر و کشمیریوں کی مخالفت کرتے پائے گئے ہیں۔

اس وفد میں برطانیہ کی ’’لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کے ایک رکن، کرس ڈیوس، کو بھی مادی شرما نے شامل کیا تھا؛ تاہم بعد ازاں اُن کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا۔ کیوں؟ کرس ڈیوس کے مطابق: ’’جب مَیں نے کشمیر دورے کے دوران کشمیری پولیس، کشمیر کے مقامی شہریوں اور کشمیری صحافیوں سے آزادانہ گفتگو کے لیے کھلی اجازت پر اصرار کیا تو مجھے وفد کی فہرست میں سے خارج کر دیا گیا۔‘‘۔ کرس ڈیوس نے ایک بیان میں کہا: ’’مَیں مودی حکومت کی تعلقاتِ عامہ کی شعبدہ بازی کا حصہ بن کر یہ نہیں دکھانا چاہتا کہ (مقبوضہ کشمیر میں) سب ٹھیک ہے۔‘‘ کرس ڈیوس نے یہ بیان داغ کر بھارتی پروپیگنڈے اور عزائم کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی۔

واقعہ یہ ہے کہ بھارت اپنی چالاکیوں سے کشمیر کے حوالے سے عالمی رہنماؤں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔ مثال کے طور پر جرمن چانسلر انجیلا میرکل جو 31 اکتوبر2019 کو نئی دہلی پہنچیںتو بھارت نے بڑی چالاکی اور عیاری سے کوشش کی کہ انجیلا میرکل کا دھیان مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین دہکتی صورتحال کی طرف منعطف نہ ہونے پائے ( یہ دَورہ 3 نومبر کو ختم ہُوا ہے) بھارتی چالاکیاں مگر کسی کام نہ آئیں۔ کشمیریوں پر بھارت کے مظالم کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دے رہی ہے۔

انجیلا میرکل اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتی تھیں؟؛چنانچہ جرمن چانسلرنے نریندر مودی کی موجودگی ہی میں مقبوضہ کشمیر میں جاری دکھ بھری صورتحال کے تناظر میں بھارتی اخبار نویسوںسے اظہارِ خیال کرتے ہُوئے کہا: ’’وہاں لوگوں کو جس طرح کی صورتحال اور حالات کا سامنا ہے، وہ نہ تو مناسب ہے اور نہ اسی طرح مسلسل جاری رہ سکتی ہے۔ ( مقبوضہ) کشمیر میں عوام کی حالت اچھی اور پائیدار نہیں ہے۔ وادیِ کشمیر میں عوام اور سماج کے حالات میں تبدیلی کی فوری ضرورت ہے۔‘‘

کشمیر کے بارے میں، سفارتی زبان میں، جرمن چانسلر جو کچھ کہہ سکتی تھیں، کہہ دیا ہے۔ نئی دہلی میں میرکل نے صحافیوں کو اس حوالے سے مزید بتایا کہ کشمیر کی صورتحال پر وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا تفصیلی موقف بھی سننا چاہتی ہیں۔ انڈین میڈیا نے بہتیری کوشش کی ہے کہ کشمیر پر جرمن چانسلر کے ان الفاظ کو مدہم کیا جا سکے لیکن اُن کی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی، اس لیے کہ نئی دہلی میں موجود مغربی میڈیا کے نمایندگان نے یہ سب باتیں فوری نشر کر دی تھیں۔ ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان آگے بڑھ کر کشمیر کی صورتحال پر انجیلا میرکل کے ان بیانات کو کشمیریوں کے مقاصد کے لیے بروئے کار لاتا مگر ایسا ہنوز نہیں ہو سکا ہے۔

وزیر اُمورِ کشمیر، علی امین گنڈا پور، بھی مہر بہ لب رہے۔ حتیٰ کہ ہمارے میڈیا میں بھی جرمن چانسلر کے مذکورہ بالا الفاظ کی مطلوبہ بازگشت نہیں سنائی دی گئی۔ شائد اس لیے کہ ہمارا میڈیا بوجوہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے احتجاجی جلوس اور دھرنے کی کوریج میں مگن اور مصروف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔