پودے جڑوں کی روشنی سے زیرِ زمین دیکھتے ہیں

ویب ڈیسک  اتوار 17 نومبر 2019
قدرت کے کارخانے میں پودوں پر پڑنے والی روشنی پودوں سے باقاعدہ کسی پائپ کی طرح گزر کر جڑوں تک پہنچتی ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

قدرت کے کارخانے میں پودوں پر پڑنے والی روشنی پودوں سے باقاعدہ کسی پائپ کی طرح گزر کر جڑوں تک پہنچتی ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

سیؤل ، جنوبی کوریا: سورج کی روشنی صرف پتوں اور پھولوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ یہ جڑوں تک جاتی ہے اور ان کی مدد سے پودوں کی بہترین نشوونما ہوتی ہے۔

اس سے قبل ماہرین کئی پودوں کے پھولوں، تنوں اور پتوں میں روشنی کو محسوس کرنے والے اور اس کے سگنل سے مفید کام لینے والے ریسپٹر دریافت کرچکے ہیں۔ لیکن اب پودوں کی جڑوں میں بھی یہ ریسپٹر دریافت ہوئے ہیں لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آخر وہ تاریک مٹی میں کسطرح روشنی کا احساس کرتے ہیں اور یہ صلاحیت ان میں کیسے پیدا ہوتی ہے۔

جنوبی کوریا کی سیئول نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ سائنسداں ہیو جُن لی نے سرسوں کی قسم کے ایک پودے عربائڈوپسِس تھیلییانہ نامی پودے پر انہی سوالات کے لیے تحقیق کی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ پودے کی باریک باریک جڑیں عین فائبر آپٹک تاروں کی طرح کام کرتی ہیں جن کے سروں سے روشنی خارج ہوتی رہتی ہے۔

جڑوں سے روشنی نیچے جاتی ہے جس میں فائٹوکروم نامی ریسپٹر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس عمل سے ایچ وائے فائیو نامی ایک پروٹین بنتا ہے جو پودے کی صحت کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

اس کی تصدیق کے لیے پودے میں جینیاتی انجینیئرنگ کی گئی تو فائٹوکروم پر اثر پڑا۔ اس کے ساتھ ہی پروٹین ایچ وائے فائیو کی پیداوار بھی کم ہوگئی اور دھیرے دھیرے جڑیں سوکھ کر تباہ ہونے لگیں۔

اس کے بعد ماہرین نے ایک اور حیرت انگیز تجربے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا روشنی سورج سے ہوتی ہوئی پودے سے گزر کر جڑ تک آتی ہے یا پھر وہ کیمیکل سگنل کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ تو تصدیق ہوگئی کہ روشنی باقاعدہ پورے پودے سے گزرتی ہے عینی فائبر آپٹک تار کی طرح۔

اسطرح پودے سے روشنی گزرنے والا ایک باقاعدہ نظام سامنے آیا ہے جن میں سرخ روشنی بہت اچھی طرح گزرتی ہے۔ اس کےبعد نیلی اور پھر سبز روشنی کی باری آتی ہے۔ پروفیسر لی کے مطابق روشنی جڑوں تک جاتی ہے تو انہیں توانا رکھتے ہوئے ان کی افزائش کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔