تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس

مزمل سہروردی  منگل 26 نومبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی غیر مصدقہ اطلاعات جو منظر عام پر آئی ہیں، ان کے مطابق کور کمیٹی نے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ خبر تو یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیوں کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ خبر یہ بھی ہے کہ دبے الفاظ میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینا ن کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس طرح تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ جاری کر دی ہے۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے ممبران کون ہیں۔ جہانگیر خان ترین کور کمیٹی میں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ بھی عثمان بزدار کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا علیم خان اور گورنر پنجاب چوہدری سرور سے اتحاد بھی قائم ہے۔ تینوں رہنما جہاں کور کمیٹی میں اکٹھے بیٹھے ہیں۔ تینوں کی عثمان بزدار سے مخالفت کوئی مخفی نہیں ہے۔

کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد یہ تینوں نعیم الحق کی خبر لینے بھی اکٹھے ان کے گھر گئے۔ ان کی اکٹھے سیاسی ملاقاتیں اور سرگرمیاں بھی چہ مگوئیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ کور کمیٹی میں شاہ محمود قریشی موجود ہیں۔ سنا ہے کہ ملتان میں ایک افسرکو ہٹانے پر وہ عثمان بزدار سے خوش نہیں ہیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ اور فیصل آباد ایک افسر کی تبدیلی سے بھی پنجاب کے تحریک انصاف کے بڑے ناراض ہو گئے تھے۔ان سب کا اثر تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں نظر آیا ہے۔ تحریک انصاف کے یہ بڑے پنجاب میں خود کو بے اثر محسوس کر رہے ہیں۔ ان سب کا خیال تھا کہ وہ جو چاہیں گے، عثمان بزدار وہ کردے گا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ کور کمیٹی میں فواد چوہدری بیٹھے ہیں،ان کے بارے میں بھی یہ افواہ گرم ہے کہ وہ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مند تھے۔ وہ جہانگیر ترین گروپ میں ہیں۔ شفقت محمود چوہدری سرور کے ساتھ ہیں۔ اسد عمر کی ہمدردیاں شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہیں۔

ایک عمومی خیال ہے کہ ایک بار پھر عثمان بزدار ہٹانے کے لیے ماحول بنایا جارہا ہے۔ کور کمیٹی میں باقی ممبران سندھ کے پی اور بلوچستان سے ہیں۔ کے پی کے لوگ تو اسی میں خوش ہوںگے کہ کور کمیٹی نے کے پی حکومت پر بات نہیں کی۔ پشاور بی آر ٹی پر بات نہیں کی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں کوئی بڑا اسکینڈل نہیں جب کہ پشاور بی آر ٹی نے نہ صرف تحریک انصاف کے تشخص کو خراب کیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا پشاور بی آر ٹی تحریک انصاف کے چہر ے کا ایک بد نما داغ ہے۔ اس کو تحریک انصاف کی بیڈ گورننس کی عملی شکل قرار دیا جا رہا ہے۔

تاہم کے پی میں تحریک انصاف کے اندر کوئی سیاست نہیں چل رہی۔ اس لیے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی کے پی پر کوئی توجہ نہیں۔ وہاں سب کو سب اچھا نظر آرہا ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی طرح کوئی عام اور غریب آدمی نہیں ہیں۔ کور کمیٹی کو سندھ بھی نظر نہیں آرہا ہوگا۔ وہاں سندھ کے گورنر کی گاڑی کا معاملہ بھی نظر نہیں آرہا ہوگا۔ وفاق کے منصوبوں کی بری کارکردگی بھی نظر نہیں آرہی ہوگی۔ وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے کراچی کے صفائی کے چیلنج میں ناکامی بھی نظر نہیں آئی ہوگی۔ مہنگائی بھی نظر نہیں آئی ہوگی۔ کور کمیٹی نے ٹماٹر پر بھی بات نہیں کی ہوگی۔

بڑھتی بے روزگاری پر بھی بات نہیں کی ہوگی۔ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے پر بھی بات نہیں کی ہوگی۔ کور کمیٹی نے وفاقی حکومت سے یہ بھی نہیں پوچھا ہوگا کہ نواز شریف کیسے ملک سے چلے گئے، شہباز شریف کیسے چلے گئے۔ مریم کی ضمانت کیسے ہو گئی؟

احتساب اور کرپشن کا بیانیہ کیسے مضبوط ہو رہا ہے۔ البتہ پنجاب میں ساری خامیاں نظر آگئیں ۔ کور کمیٹی نے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ اگر اسد عمر کو واپس کابینہ میں شامل کیا گیا ہے تو انھیں وزیر خزانہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ اس میں کیا رکاوٹ ہے۔ کشمیر کی صورتحال پر کوئی بات نہیں کی۔ خارجہ محاذ پر ناکامی کی وجوہات کو دریافت نہیں کیا۔ کور کمیٹی نے یہ نہیں پوچھا کہ دھرنے میں اتحادیوں نے پیٹھ میں چھرا کیوں گھونپا ہے۔ ہاں سب سے بڑا مسئلہ عثمان بزدار ہیں۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ تحریک انصاف کے وڈیرے عثمان بزدار سے خوش نہیں ہیں۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ملک کی سیاسی بساط اس وقت کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا ہنی مون ختم ہو گیا ہے۔ اتحادیوں کے پر نکل آئے ہیں۔ چوہدریوں کی ناراضی سامنے ہے۔ ایم کیو ایم کے رنگ بدلتے نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے تو وزیر اعظم عمران خان بار بار اعلان کے باوجود وفاقی کابینہ میں تبدیلی نہیں کر سکے ہیں۔ صرف اسد عمر کو وزیر بنایا جا سکا ہے۔

ورنہ اس سے پہلے تو یہ اعلان کیا گیا نا اہل وزیروں کو فارغ کر دیا جائے گا۔ لیکن ایک بھی وزیر کو فارغ نہیں کیا جا سکا۔ تحریک انصاف کے اندر اختلافات موجود ہیںے۔ تحریک انصاف کو حکومت میں لانے والے عہدیدار حکومت سے باہر ہیں۔ حکومت میں وہ ہیں جن کا پہلے نام و نشان بھی نہیں تھا۔ پنجاب کو ہی دیکھیں علیم خان، اعجاز چوہدری سمیت تمام سابق صدور اقتدار سے باہر ہیں۔لیکن یہ سب کور کمیٹی میں موجود ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف عثمان بزدار کو ہٹانے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ چوہدری پرویز الٰہی عثمان بزدار کے ساتھ ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھ سے چلا جائے گا۔ ق لیگ آجائے گی۔

عثمان بزدار پر حالیہ وار ویسا ہی تھا جیسا گزشتہ ماہ سوشل میڈیا سے کیا گیا تھا۔ جب دو دن میں چالیس ہزار ٹوئٹ کرائے گئے تھے کہ عثمان بزدار کو ہٹاؤ پنجاب بچاؤ۔ بعد میں جب کمیں گاہ کی طرف دیکھا تو اپنے ہی لوگوں سے ملاقات ہوگئی ۔ باقی عثمان بزدار کو اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لانی چاہیے۔ یہ مشورہ ان کو پہلے بھی دیا گیا ہے لیکن وہ مانتے نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کارکردگی چھپا کر انھیں کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔