شہابِ ثاقب کے ٹکڑے میں 4.6 ارب سال قدیم ’برفانی فوسلز‘ کی دریافت

ویب ڈیسک  ہفتہ 30 نومبر 2019
ایکفر 094 میں آئس فوسلز کی دریافت سے زمین پر پانی کی وافر موجودگی سے متعلق مفروضات کو تقویت پہنچی ہے۔ (فوٹو: سائنس ایڈوانسز)

ایکفر 094 میں آئس فوسلز کی دریافت سے زمین پر پانی کی وافر موجودگی سے متعلق مفروضات کو تقویت پہنچی ہے۔ (فوٹو: سائنس ایڈوانسز)

بیجنگ / ٹوکیو / لندن: جاپانی، چینی اور برطانوی ماہرین پر مشتمل ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہابِ ثاقب کے ایک ٹکڑے میں 4.6 ارب سال قدیم ’برف کے رکازات‘ (آئس فوسلز) دریافت کرلیے ہیں جبکہ اس دریافت سے ہمارے نظامِ شمسی کی ابتداء اور ارتقاء کے علاوہ زمین پر پانی کی وافر مقدار میں موجودگی سے متعلق بھی نئی معلومات حاصل ہونے کی امید ہے۔

واضح رہے کہ زمینی سطح پر پانی کی وافر موجودگی آج تک ایک معما ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج سے 5 ارب سال قبل سے لے کر 4 ارب سال تک، جب ہمارے نظامِ شمسی میں موجود سیارے تشکیل پا رہے تھے، تو اس وقت یہاں ہر طرف سے شہابیوں کی بوچھاڑ ہورہی تھی۔

ان میں سے ہر ایک شہابیے میں پانی کی اچھی خاصی مقدار تھی جو کروڑوں سال کے عرصے میں نہ صرف زمین کی سطح پر سمندروں کی شکل میں جمع ہوگئی بلکہ سیارہ زمین کی انتہائی مناسب قوتِ ثقل کی وجہ سے زمینی سطح پر ہمیشہ کےلیے مستحکم ہوگئی۔

البتہ، یہ خیال صرف ایک مفروضہ ہے جسے ثابت کرنے کےلیے ہمیں ایسے شہابیوں اور ان میں موجود پانی یا برف دریافت کرنے کی اشد ضرورت ہے جو آج سے 5 تا 4 ارب سال قدیم ہوں۔

1990ء میں الجزائر کے صحرا سے شہابِ ثاقب کا ایک ٹکڑا ملا جسے ایکفر 094 (Acfer 094) کا نام دیا گیا۔ محتاط تاریخ نگاری سے معلوم ہوا کہ یہ شہابی ٹکڑا 4 ارب 60 کروڑ سال قدیم ہے۔ اس پر تقریباً پچیس سال تک مختلف پہلوؤں سے تحقیق جاری ہے کیونکہ اس شہابی ٹکڑے کا تعلق اسی زمانے سے ہے جب نظامِ شمسی کے تمام سیارے اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل پر تھے۔

حال ہی میں ایکفر 094 میں باریک مساموں (پورز) کا جائزہ لینے کے بعد چینی اور جاپانی ماہرین کی مشترکہ تحقیقی ٹیم نے کہا ہے کہ یہ مسام اس پورے شہابی پتھر میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ ان میں خالی جگہیں خاص اسی انداز کی ہیں جیسے ان کے اندر برف کی قلمیں موجود رہی ہوں۔

اگرچہ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ ایکفر 094 ہماری زمین پر کب گرا تھا لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ یہ 4.6 ارب سال قدیم ہے۔ حالیہ تحقیق سے مزید یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ایکفر 094 کسی دور دراز خلائی مقام سے ہمارے نظامِ شمسی تک پہنچا اور شاید لمبے عرصے تک خلاء میں آوارہ گردی کرنے کے بعد، بالآخر ہماری زمین سے آ ٹکرایا۔

اگر زمین پر پانی کی وافر موجودگی میں یہاں برسنے والے ان گنت شہابِ ثاقب (شہابیوں) کا واقعی کوئی کردار رہا ہے تو پھر اس کی تصدیق ان دوسرے چٹانی پتھروں اور قدیم شہابیوں سے بھی ہونی چاہیے جو آج تک ہمارے نظامِ شمسی کے مختلف گوشوں میں سورج کے گرد چکراتے پھر رہے ہیں۔

فی الحال تو ایکفر 094 میں ’برفانی رکازات‘ (آئس فوسلز) کی دریافت سے زمین پر پانی کی وافر موجودگی سے متعلق مفروضات کو تقویت پہنچی ہے، البتہ اس ضمن میں مزید ثبوتوں کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔