جادو کی ’’جادوگری‘‘

شایان تمثیل  ہفتہ 4 جنوری 2020
دیگر عقائد و نظریات کی طرح جادو بھی ہمیشہ ہی سے فکری انتہاپسندی کا شکار رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دیگر عقائد و نظریات کی طرح جادو بھی ہمیشہ ہی سے فکری انتہاپسندی کا شکار رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اکیسویں صدی، ایک ایسا دور جہاں سائنس کے کرشموں اور ٹیکنالوجی کی بھرمار نے انسانی ذہن کو ورطۂ حیرت میں ڈالا ہوا ہے، روز کسی نہ کسی نئی جہت میں پیش رفت کی جاتی ہے اور اسرار و تحیر کے نئے در کھلتے چلے جاتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی، جہاں انسان ترقی کے بام عروج پر موجود ہے، عہد جاہلیت کی کچھ فرسودہ چیزیں اور روایتیں صدیوں سے آج تک انسانی ذہن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ ان ہی فرسودہ روایتوں میں سے ایک علم ’’جادو‘‘ بھی ہے۔

جادو کا شمار دنیا کے قدیم ترین علوم میں ہوتا ہے۔ ایک مکمل علم کی مانند اس کی بھی باقاعدہ ایک تھیوری ہے، ایک نظریہ و عمل ہے اور باقاعدہ ایک اطلاقی میدان ہے۔

جب ہم لفظ جادو کا استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عجیب و غریب تصورات ابھرنے لگتے ہیں مثلاً مردوں کی ہڈیاں، کریہہ شکلیں، مضحکہ خیز لباس اور ہندوانہ قسم کا ماحول وغیرہ۔ لیکن کیا حقیقتاً جادو سے متعلق یہ نظریات درست ہیں؟ بالکل نہیں، بلکہ یہ سب کچھ لغو روایات اور توہم پرستی کی وجہ سے ہے۔ روایتی داستانوں میں جادو اور ان تصورات کو کچھ ایسا خلط ملط کردیا گیا کہ اب جادو کے ساتھ یہ سب تصورات ذہن میں اجاگر ہونا لازمی امر ہے۔

ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے دیگر عقائد و نظریات کی طرح ’’جادو‘‘ بھی ہمیشہ ہی سے فکری انتہاپسندی کا شکار رہا ہے۔ بعض تو اسے سرے سے مانتے ہی نہیں اور جادو کو لغو، وہم یا فرسودہ ذہنوں کی پیداوار قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو فطری طور پر ہونے والی معمولی اقسام کی بیماریوں کو بھی اپنے کسی دشمن کی جانب سے برے جادو کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ بعض لوگ محبت، نفرت، دوستی جیسے جذبات کی شدت کو بھی ’’جادو‘‘ کی جادوگری سمجھتے ہیں۔ کاروبار میں مندی ہو یا شادی میں رکاوٹ، خانگی مسائل ہوں یا ذہنی الجھنیں، توہم پرست لوگ اسے کالا جادو گردانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر عامل بابا، بنگالی بابا اور مستانی مائی جیسے لوگوں کی چاندی ہونے لگتی ہے۔ کالے بکرے، کالی مرغیاں، سونے کے پتر پر لکھے جانے والے تعویز اور ہدیہ و نذرانہ کے نام پر ہزاروں روپے ہماری اسی ذہنی فرسودگی کی بھینٹ چڑھنے لگتے ہیں۔ کم تعلیم یافتہ اور جاہل طبقہ تو ایک طرف، نہایت افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ان فرسودہ روایات کے اسیر نظر آتے ہیں۔

جادو ٹونہ کرنے والے یہ اشتہاری عامل، روحوں سے بات کرنے والی مستانی مائی اور ایسے ہی مختلف عرفیت اختیار کرنے والے چالاک و عیار لوگ اپنی سحر انگیز اور گھاگ باتوں سے اچھے بھلے سادہ لوگوں کو اپنے جال میں جکڑ لیتے ہیں، اور وہ عہد جاہلیت کے لوگوں کی طرح اندھے اعتقاد کے ہاتھوں مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اگر حسن اتفاق سے ان عاملوں کی کوئی بات درست ہوجائے تو ان کی چاندی ہوجاتی ہے۔ اس بات کا چرچا ہوتا ہے اور وہ لوگ بھی جو ان خرافات سے دور تھے، ان کی جانب متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ یوں معتقدین کا یہ دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔

موضوع گفتگو اگر جادو ہے تو پھر مذاہب اور الہامی کتب کا مطالعہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ہمارا مذہب گو کہ سحر کے وجود کا انکاری نہیں ہے مگر اس کے نزدیک یہ کوئی پسندیدہ امر بھی نہیں ہے۔ اس لیے جادو اور سحر کی رو میں کئی احادیث بھی موجود ہیں۔ ہمارے مذہب میں جادو کی ممانعت ہے، لیکن اس کے باوجود توہم پرست اور انتہاپسند لوگ جادو کے پھیر میں کچھ اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ اس جال سے نکلنا ان کےلیے ناممکن ہوجاتا ہے۔

آج کے پُرفتن دور میں جہاں بے چینی و بے سکونی کو فروغ ملا ہے، بے روزگاری کی بہتات ہے، خلوص کی فضا نایاب ہے، ہر شخص دولت کی فراوانی چاہتا ہے۔ ایسے میں لوگ کسی ایسے ’’شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی منزل مراد جلد سے جلد پاسکیں۔ جادو، سحر، تعویز گنڈے وغیرہ بھی ایسے ہی ’’شارٹ کٹ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ شادی بیاہ کے بعد جادو کا چکر ہمارے خانگی معاملات میں بھی بڑے زور و شور سے چلنے لگتا ہے۔ بیٹے کا بیوی کی جانب فطری میلان یا شوہر کا ماں کی دیکھ بھال کرنا تک جادو کے زمرے میں آتا ہے اور یوں ساس یا بہو ان اثرات کو کم کرنے کےلیے تعویز گنڈوں کا سہارا لینا شروع کردیتی ہیں۔ بے روزگار نوجوان اور محبت کے مارے اپنی منزل مقصود پانے کےلیے ایسے ہی نام نہاد آستانوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں جہاں چہرے پر بزرگی و شرافت کی نقاب لگائے کریہہ النفس شیطان معصوم اذہان کو غلط راہ پر لگا کر اپنی دکان چمکانے لگتے ہیں۔

جادو کی جادو گری کا شکار کوئی ایک مخصوص طبقہ نہیں بلکہ ہر سطح و طبقے کے لوگ اس کے اسیر ہیں، چاہے کچے محلے ہوں یا عالیشان بنگلوں کے رہائشی، جاہل ہوں یا تعلیم یافتہ، فرسودہ روایتوں کے اسیر نہ صرف اپنی دنیا بلکہ عاقبت بھی خراب کرتے ہوئے ان منفی روایتوں کی اندھی تقلید میں مصروف بہ عمل ہیں۔

زیر نظرِ تحریر پڑھتے ہوئے یہ بات لازماً ذہن میں رہے کہ جادو سے مراد ’’منفی طرزِ فکر‘‘ ہے اور کسی بھی قسم کا منفی رویہ بجائے خود ایک غلط اقدام ہے۔ جادو بے شک ایک علم ہے لیکن ایک منفی علم، جس کا استعمال نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بطورِ مسلمان ہمیں نہ صرف معاشرے میں موجود ان منفی علوم سے دور رہنا چاہیے بلکہ ایسے تمام منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اس کے جال میں پھنسے لوگوں کو بچانے اور سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔