یہاں تحریر کسی تبدیلی کا باعث کیوں نہیں بنتی؟

ظفر سجاد  اتوار 12 جنوری 2020
پاکستانی ادیب کو اپنی ذات کے محور سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے

پاکستانی ادیب کو اپنی ذات کے محور سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے

پاکستان بننے کے بعد جہاں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی واضح سمِت کا تعین نہ کیا جا سکا ، وہاں پاکستانی ادب کی سمِت کا بھی تعین نہیں ہو سکا، مختلف ادَوار میں ’’ ادب برائے مقصد‘ ’’ادب برائے زندگی‘ ’’ ترقی پسند ادب ‘ ’’ رجعت پسند ادب اور ادب برائے تہذیب ‘‘ کی بحث جاری رہی، قہوہ خانوں، چائے خانوں اور ادبی محافل میں بھی ہمیشہ اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا کہ پاکستانی ادب کی کوئی خاص سمِت متعین کیوں نہیں ہو سکی؟

نامور ادیبوں نے بھی دبے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ پاکستانی ادب جمود کا شکار ہے، اس کا الزام ایک دوسرے پر لگایا گیا۔ یہاں کی شاعری کا محور محبوب، اسکی زلفیں اور محبوب کی بے وفائی رہا، تقریباً ہر شاعر محبوب کی توقعات پر پورا اُترنے کی بجائے اس بات پر مصُر رہا کہ محبوب اس کی ساری توقعات، خواہشات اور تمناؤں پر پورا اُترے، شاعر نے اپنے آپ کو ایک ایسا دیوتا خیال کیا کہ جس کے گرِد ’’ ناریاں‘‘ رقص کرتے ہوئے ’’ بھجن‘‘ گائیں، اسکی آرتی اُتاریں، ان ’’ناریوں ‘‘ کی عقیدت و محبت یک طرفہ ہو، یہ ناریاں شاعر سے کسی بھی صِلے یا بدلے کی اُمید نہ رکھیں، نہ ہی شاعر کی بے اعتنائی یا بے رُ خی کا گِلہ کریں، نہ ہی اسکے روّیے کی شکایت کریں، اگر صنِف نازک نے غزل پر طبع آزمائی کی تو یہ ساری اُمیدیں انھوں نے اپنے محبوب سے وابستہ رکھیں۔

فیض احمد فیض ‘ میراجی ‘ ن م راشد سمیت بہت کم شعراء نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے عام انسانوں کی بات کی، عام انسانوں کے جذبات اور محسوسات کو اہمیت دینے پر زور دیا۔ لیکن انھوں نے بھی اپنی شاعری میں پاکستانی آئیڈیا لوجی کو اپنی تحریر کا مرکز خیال نہیں بنایا، فکری انحطاط کے دورَ میں یہ بات بھی بہت بڑی سمجھی گئی کہ انفرادی روّیوں کی بجائے اجتماعی روّیوں کی بات کی جائے ’’ ہجر اور وصال ‘‘ کی لذتوں کے علاوہ دوسرے پہلوؤں پر بھی توجہ دی جائے دوسرے دکھوں کو بھی محسوس کیا جائے۔ پھر بھی فیض احمد فیض کی مخصوص فکرو سوچ نے ہر دور کی نوجوان نسل کے ذہنوں کو بہت حد تک متاثر کیا۔

کچھ نامور ادیبوں نے شہری اور دیہاتی زندگی کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا، یہاں بھی روّیوں کو تو زیر بحث لایا گیا مگر عوام میں پائی جانے والی عام برائیوں کو زیر بحث لانے اور انھیں سُدھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ عرصہ دراز سے اس امّر کی خاص ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستانی ادب کی خاص سمت متعین ہو ۔ اسلامی نظریاتی، فلاحی ریاست کا تصور تحریر کی بنیاد ہونا چاہیے۔ اس کے بعد زندگی کے روزمرہ کے عام مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔ جیسا کہ پاکستان میں اس بات کا تواتر سے ذکر کیا جا رہا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح گِرتی جا رہی ہے، آئندہ سالوں میں پاکستان پانی کے بحران سے دوچار ہونے والا ہے مگر اس کے باوجود پانی کا ضیاع پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔

پورا نلکا چلا کر شیو کی جاتی ہے تقریباً دس پندرہ منٹ صاف پانی ضائع ہوتا رہتا ہے، گھروں میں خواتین نلکا کھلا چھوڑ کر کپڑے اور برتن دھوتی ہیں، نہاتے ہوئے بھی پانی ضائع کیا جاتا ہے، پانی کی قلت کے باوجود ہر طریقے سے پانی ضائع ہوتا رہتا ہے، اس معاملے میں حکومت کی طرف سے پانی ضائع نہ کرنے کے اشتہارات شائع کروانے کا بھی کوئی فائدہ اس لئے نہیں ہوتا کہ عوام کی بے حِسی میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کسی بھی شاعر، ادیب نے پانی ضائع کرنا انسانیت کے خلاف جّرم قرار نہیں دیا، کسی نے اپنے افسانوں، کہانیوں اور شاعری میں اسے ایک اخلاقی جّرم نہیں کہا، اس قسم کے درجن مسائل موجود ہیں۔

بے ترتیب و بے ہنگم قومی زندگی،’’ دائروں‘‘ میں مقید لوگ کہ ہر فرد ایک خاص دائرے میں مقید ہے، کوئی چھوٹے دائرے میںکوئی بڑے دائرے میں، کوئی تیز چل رہا ہے کوئی آ ہستہ، سب کا سفر ایک ہی جگہ، ایک ہی دائرے میں، کوئی بھی آگے بڑھ ہی نہیں رہا مگر سب اس گمان میں مبتلا کہ وہ تیزی سے ’’ سفر ‘‘ کر رہے ہیں ۔

بے ہنگم اور بے تر تیب عمارتیں،’’ چور اُچکے چودہری اور غنڈی رن پردھان‘‘ ،’’ مستعار سائنسی ترقی ‘‘ جنگلات کی کمی، بڑھتی ہوئی خواہشات ، ’’ ادھار کی آسودگی ‘‘ درجنوں قومی اور اجتماعی مسائل ایسے ہیں کہ جنہیں تحریر میں لانا اور اس کا حل تلاش کرنا ضروری تھا اور ہے، مگر ان معاملات کو حِس لطیف کے اصولوں سے متضاد قرار دیا گیا ہے۔

سڑکوں پر جا بجا گڑھے پڑے ہوتے ہیں ان گڑھوں کو شہری خود بھی پُر کر سکتے ہیں مگر یہ کا م صرف حکومت پر چھوڑ دیا گیا ہے، دِلوں کو توڑنا، احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچانا ایک ایسا ’’ انسانی المیہ‘‘ قرار دیا گیا ہے کہ اسے تحریر کے دائرے میں لانا ہی ادب کہلاتا ہے مگر چھوٹی چھوٹی لاپرواہیوں اور غفلت کی وجہ سے جو نقصانات ہوتے ہیں، انسانی جا نیں ضائع ہونے سے ان کے لواحقین پرکیا گزرتی ہے اسے ادب کا حصہ نہیں بنایا گیا کہ حادثات، نقصانات، قتل و غارت، ظلم واستحصال اور سیاست کو جمالیاتی حِس کی ضِد قرار دیا گیا ہے۔ صرف عشق کے معاملات اور واردات قلبی کو تحریر کے احاطے میں لانا ہی ذوق ِلطیف کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد ’’ ترقی پسند مصنفین‘‘ نے ایک تحریک بھی قائم کی جس میں نامور قلمکار ، ادیب اور شاعر شامل ہوئے مگر ان میں زیادہ تر سوشلِزم اورکیمونزم سے متاثر تھے وہ دین کو استحصال کا ذریعہ گردانتے تھے، ان ادیبوں اور شعراء میں کئی ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اسلام کا بڑی گہرائی اور عمیق نظروں سے جائزہ لیا تھا مگر انھیں بھی انسانیت کی بقاء سوشلِزم اور کیمونزم میں ہی نظر آئی ۔ ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے نئے لکھنے والوں کو بھی متاثر کیا، اگرچہ ترقی پسندی کی یہ تحریک ایک مخصوص وقت کے بعد کمزور پڑتی گئی مگر اس کا کچھ نہ کچھ اثر و نفوذ قائم رہا شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ اس تحریک میں فنی لحاظ سے قدآور شخصیا ت شامل تھیں ۔

یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ پاکستانی ادب کی ’’ لائن آف ڈائرکشن ‘‘ (سمت) وہ نہیں ہے جو یہاں کے مخصوص حالات، ثقافت، روایات اور روّیوں کی وجہ سے ہونی چاہیے تھی، ان ادیبوں کی تحریر اپنا مقام یا جگہ نہیں بنا پائی کہ جنہوں نے مذاہب، روایات ، ثقافت، انسانی و سماجی روّیوں، قومی اور اجتماعی حالات و واقعات میں سے ایک پہلو سے بھی صرف نظر کیا، کیونکہ ایک پہلو کو چھوڑنے سے قاری شدت سے تشنگی محسوس کرتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اچھی اور متاثر کُن تحریر انسانی روّیوں اور سماج میںایک انقلاب برپا کر دیتی ہے ، جو تحریر صرف چند ذہنوں کو متاثر کرے اور اُن میں محصوص سوچ و فکر پیدا کرے اسکی افادیت قائم نہیں رہتی مگر جو تحریر انفرادی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے اجتماعی سوچ فکر کے قالب میں ڈھال دے، اُسے جاندار تحریر قرار دیا جاتا ہے، یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں اخلاقی اقدار کے پروان چڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ وہاں کا لٹریچر ہے،کہا جاتا ہے کہ انگلش لٹر یچر بہت جاندار ہے۔

پڑھے لِکھے معاشرے میں ہیادب تبدیلی لاتا ہے

پاکستانی ادب کی سمت کا تعین نہ ہونے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، اس سوال کا جوب دیتے ہوئے نئی نسل کی نوجوان شاعرہ مہ جبین ملک نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگلش لٹر یچر ( انگریزی ادب) ہر لحاظ سے مالا مال ہے، انگریزی ادب جمود کا شکار نہیں ہے، زندگی کے پہلو پر انگریزی ادب میں متاثر کُن انداز میں لِکھا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایم اے انگلش کرنے کے بعد انگریزی لٹریچر پر خاص تحقیق کی، میں اب بھی بطور انگلش ٹیچر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہوں ایک بات بطور خاص محسوس کی کہ اُسی معاشرے میں ادبی سفر جاری رہتا ہے کہ جہاں تعلیم و تحقیق پر توجہ دی گئی ہو، پڑھے لِکھے معاشرے میں صحت مند معیاری اور مقصدی ادب تخلیق ہوتا ہے، پڑھے لِکھے معاشرے میں لوگوں کے ذہین بھی کُھلے ہوتے ہیں۔

ان کی سوچ و فکر تنگ نہیں ہوتی ،وہ ہر نئی سوچ اور جدت کو فوراً قبول کرتے ہیں، وہ لوگ ادب تخلیق کرتے ہوئے لوگوں کی ذاتی پسند یا نا پسند کا خیال نہیں رکھتے، وہ ایک خاص فکر و سوچ کو تحریر کا محور بناتے ہیں، ادیب کو جو ٹھیک لگتا ہے وہ اس کا اظہار کرتا ہے، تحریر کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے میں بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے مگر اس کے لئے معاشرے کا تعلیم یا فتہ اور باشعور ہونا بہت ضروری ہے۔ مہ جبین ملک نے کہا ! کہ یہاں میں خود بھی لِکھنے میں آزادی محسوس نہیں کرتی۔ لکھتے ہوئے لاتعداد زنجیریں سامنے آتی ہیں جب سوچ و فکر کو ہی روانی حاصل نہیں ہوگی، ’’ اظہار میں جا بجا رکاوٹیں سامنے آئیں گی تو اچھا ادب کیسے تخلیق ہوگا؟ ہمارا معاشرہ تنگ نظری کا شکار ہے اگر عورت انسانی فِطرت اور انسانی جذبوں کے متعلق لکھتی ہے توہمارے معاشرے میں اُسے ’’بے حیا‘‘ بے شرم اور ہوس پرست کا نام دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی شاعر ادیب سماج اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے غلط روّیوں کو سامنے لاتا ہے تو اس پر بِنا سوچے سمجھے کُفر کے دعویٰ کر دئیے جاتے ہیں اُسے سماج کا دشمن قرار دیا جاتا ہے، اگر ادب ڈر کر تخلیق کیا جائے گا تو اس کی خاص سمِت متعین نہیں ہو سکے گی، ادب کے ذریعے تبدیلی کا خواب نہیں دیکھا جا سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ ادب سے تبدیلی صرف وہاں آسکتی ہے کہ جہاں با شعور معاشرہ موجود ہو۔ اَن پڑھ یا نیم خواندہ بندے کو ادب کی سمجھ کیا آئے گی کہ ’’ مرد نادان پہ کلام نرم و نازک بے اثر ‘‘ مہ جبین ملک نے کہا کہ ادب میں صرف فنی معراج کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی، فکر و سوچ کا پُختہ ہونا اور انسانی فِطرت کا مکمل مطالعہ ہونا بھی بہت ضروری ہے، انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بعض سینئر قلمکار اور اساتذہ اپنے فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں مگر وہ اپنی تحریروں میں اپنے آپ کو ہی کائنات ادب کا محور گردانتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل کی بیزاری میں اضافہ ہو رہاہے ، ایک اچھا قلمکار جب تک اپنی ذات کی نفی کر کے صرف افراد ، معاشرے اور قوم کی بات نہیں کرے گا لوگ اس کی تحریر کو کبھی بھی اہمیت نہیں دیں گے۔ پاکستانی اُردو ادب اور انگلش ادب میں یہ نکتہ بنیادی فرق ہے۔

انھوں کہا کہ کسی بھی معاشرے میں فِکری انقلاب ہی زمینی انقلاب لاتا ہے۔ فکرو سوچ کو تبدیل کرنے میں اُستاد اور ادیب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، قلمکار پر بہت بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اُستاد قلمکار کو مادہ پرست نہیں ہونا چاہیے، مادہ پرستی انسان کو اپنے مقصد سے بہت دُور لے جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں افراد اُستاد اور ادیب کے کردار کا بہت غور سے جائزہ لیتے ہیں اگر وہ اس کے عمل اور سوچ میں تضاد نہیں پاتے تو ان کے ذہن کی’’ فریکونسی ‘‘ اسکے خیالات کی ’’ لہریں ‘‘ قبول کرنا شروع کر دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی تحریر اور کالموں میں اُن شخصیات کا بطور خاص ذکر کیا ہے کہ جنکے ’’ قول و فعل ‘‘ میں تضاد نہیں تھا اور وہ بڑی حد تک افراد کی سوچ پر اثر انداز ہوئے۔

 لَوٹ جاتی ہے نظر اِدھر بھی

صدراتی ایوارڈ یا فتہ عالمی سیاح اور مصنف مقصود احمد چغتائی نے اظہار ِخیال کرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار وہ ہوتا ہے کہ جِسے اللہ تعالیٰ نے خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے، فن کی باریکیوں کو سمجھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس میں خصوصی علِم و شعور دیا ہوتا ہے۔ ہر دور میں ادیب و شاعر ہی معاشرے میں اثر انداز ہوا ہے، ادیب فکری انقلاب لاتا ہے، میں نے لاتعد اد ممالک کی سیاحت کی، وہاں کے افرادکو مِلا، ہر ملک کے نظم ونسق اور لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کی، ترقی یافتہ ممالک میں ، میں نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ وہاں کے لوگ اپنے ملک کو ہی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں وہ اپنے ملک کو ایسا گھر سمجھتے ہیں جہاں امن و سکون اور انصاف ہو، انکی تحریروں سے قومیت جھلکتی ہے مگر ہمارے یہاں اس بات کا فقدان ہے، میں نے یہ بھی دیکھا کہ سفر نامے لِکھنے والے ان ممالک کی تعریف مبالغہ آرائی کی حد تک کرتے ہیں، حالانکہ سفر ناموںمیں اپنے ملک کی اچھائیوں ، اخلاقی اقدار ، روایات اور رسم ورواج اور اُن ممالک میں موجود برائیوں کا موازانہ کرنا چاہیے۔

سفر نامہ لکھنے والے کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس بات کو اُجاگر کرے کہ اُن ترقی یافتہ ممالک میں ہر چیز میں خصوصی پن جھلکتا ہے وہاں کی محبتوں میں پائیداری نہیں ہے۔ نظام مستحکم نہیں ہے، لوگوں کے اخلاق بناوٹی ہیں ، وہاں کی ریاستیں جب تک اپنے عوام کو ’’ ڈلیور‘‘ کر رہی ہیں انکی حُب الوطنی مکمل طور پر قائم ہے، مگر وہاں انفرادی سوچ ہے ، ہر شخص صرف اپنے لئے جدوجہد کر رہا ہے یا زندگی گذار رہا ہے جبکہ یہاں مشترکہ خاندانی نظام اور اخلاقی روایات بہت مضبوط ہیں، جب سیاح اپنی تحریروں میں ترقی یافتہ ممالک کے مصنوعی سیاحتی مقامات کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ملک کے قدرتی حُسن، قدرتی مقامات، موسموں، رسم و رواج اور لو گوں کی محبتوں کا ذکر اس انداز میں کریں کہ لوگ اپنے ملک پر فخر کریں، وہاں کی جدت اور سائنسی ترقی اپنی جگہ مگر ہمارے وطن کی اپنی ہی زندگی اپنا ہی حُسن ہے جنہیں تحریروں میں لانا اشد ضروری ہے، وہاں کی رعنائیاں اپنی جگہ مگر کیا کیجئے کہ’’ لوَٹ جاتی ہے نظر اِدھر بھی‘‘۔

قدآور ادبی شخصیات کو بند دروازے کھول دینے چاہئیں

نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر شہزاد تابش کے دوشعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جبکہ چار مجموعے زیر طبع ہیں، انھوں نے اظہار خیال کرتے ہو ئے کہا کہ پاکستان میں یہ بات شدِت سے محسوس کی جاتی ہے کہ یہاں ہر میدان میں اجارہ داروں نے صرف اپنی اجارہ داریوں کو مضبوط کرنے میں دلچسپی لی ہے، نئے آنے والوں کیلئے دروازے کھلے نہیں چھوڑے وہ صرف انہی کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں جن سے وہ کسی قسم کا خوف و خطرہ محسوس نہیں کرتے، سیاسی میدان میں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے، بیوروکریسی اور سرکاری ملازمتوں کے معاملے میں بھی یہی روّیہ اُجاگر ہوتا ہے۔

فکرو سُخن کے معاملے میں تو یہ بات بہت ہی شدت سے محسوس کی جاتی ہے، سینئرز ہمیشہ اُستاد اور اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں، اُن پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نئے ٹیلنٹ، نئی فکر و سوچ کیلئے دروازے کُھلے رکھیں، باصلاحیت اور جدید سوچ کے حامل افراد کی مناسب تربیت اور راہنمائی کریں مگر یہاں بالکل ہی اُلٹ ہے جِسے بھی قسمت سے کوئی اہم مقام مِل گیا ہے وہ ’’ چمٹ ‘‘ کر بیٹھ گیا ہے، ہر بدلتے لمحے کے ساتھ سوچ و فکر میں تبدیلی آ رہی ہے، نوجوان نسل کے ادیبوں اور شاعروں کو بدلتے وقت کے تقاضوں کا احساس شدت سے ہے وہ اپنی تحریروں کے ذریعے نئے مسا ئل نئی ضروریات اور اخلاقی اقدارکی سر بلندی کے معاملات کو سامنے لانا چاہتے ہیں مگر قدآور ادبی شخصیات ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انھیں دل برداشتہ کر دیتی ہیں ان کی رہنمائی کرنے کی بجائے نوجوان نسل کی سوچ و فکر کو ہی غلط قرار دیا جاتا ہے۔

اس وقت نوجوان نسل کو سیکھنے کیلئے قدآور ادبی و فنی شخصیات کی راہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب سینئرادیب اور شاعر ’’ برگد کے وہ درخت ‘‘ نہیں رہے جن کی چھاؤں سے ہزاروں لوگ مستفید ہوئے تھے، شہزاد تابش نے کہا کہ ادیب اور شاعر ہوتا ہی وہ ہے جو متضاد انسانی روّیوں اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتا ہے مگر بعض اوقات وہ اپنی بات کو زیادہ موثر انداز میں نہیں کہہ پاتا اگر سینئر ان کی راہنمائی کریں گے تو فکر وسوچ کے نئے سَوتے کھل جائیں گے، انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جب تک جذبہ، تجربہ اور نئی سوچ ہم آہنگ نہیں ہونگے، فکری جمود طاری رہے گا ۔ اب فکروسوچ کا سفر جاری ہونا چاہیے مگر اس کی زیادہ ذمہ داری قدآور ادبی شخصیات پر عائد ہوتی ہے وہ نوجوان لکھاریوں کی کس طرح راہنمائی کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔