پوشاک؛ کل سے آج تک، لباس تاریخ کے مختلف ادوار میں

روخان یوسف زئی  اتوار 12 جنوری 2020
لباس زیب و زینت اور شان و شوکت کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ فوٹو: فائل

لباس زیب و زینت اور شان و شوکت کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ فوٹو: فائل

وہ کپڑا جو جسم کو چھپاتا ہے اس کو لباس، پوشاک یا پیراہن کہا جاتا ہے۔ لباس کا بنیادی مقصد جسم کے قابل ستر حصوں کی پردہ پوشی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لباس انسان کو موسمی اثرات سے بھی بچاتا ہے۔

لباس زیب و زینت اور شان و شوکت کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ انسان کا ایک ایسا ساتھی ہے جو پیدائش سے لے کر ساری عمر انسان کے ساتھ رہتا ہے۔

زمانہ قدیم میں جب انسان غاروں میں رہتا تھا پہلے پہل تو اس کو لباس کا احساس نہیں تھا لیکن بعد میں شعور پیدا ہو ا تو وہ گھاس پھوس پتوں یا جنگلی جانوروں کے کھالوں سے اپنے جسم کو ڈھانپنے لگا۔ انسان جب ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا تو اس نے اپنے مذہب، معاشرے ملک اور موسمی حالات کے مطابق رنگ برنگے مختلف تراش خراش کے کپڑے پہننا شروع کیے جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔

ہر ملک اور معاشرے میں مخصوص لباس پہننے کا رواج ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ دنیا میں بعض قومیں برہنگی کو مذہبی رسم کا درجہ دیتی رہی ہیں۔ اسلام اس دنیا میں آیا تو اللہ تعالیٰ نے لباس کے متعلق احکامات نازل فرمائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’اے آدم ہم نے تمھارے لیے لباس پیدا کیا جو تمھارے قابل ستر بدن کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس اس سے بڑھ کر ہے یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔‘‘

اسلام میں لباس کا کوئی خاص مقرر معیار یا ڈیزائن نہیں مسلمان کوئی بھی لباس اپنی مرضی سے پہن سکتا ہے چاہے اس لباس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ مسلمان جو بھی لباس پہنے وہ صاف ستھرا ہو ‘ تنگ نہ ہو اس کے پہننے سے جسم کی بناؤٹیں ظاہر نہ ہونے پائیں اور اس کے پہننے سے جنسی اشتعال جس سے قرآن مجید نے دور رہنے کی تلقین کی ہے پیدا نہ ہونے پائے اسلام میں حیا‘ حجاب اور پردے کے تصورات اس پر مبنی ہیں لباس ایسا نہ ہو جس سے فخر اور تکبر ظاہر ہوتا ہو اسلام کے مساواتی روح کے مطابق لباس کا وہ معیار پسندیدہ سمجھا گیا ہے جو عام آدمی پہن سکتا ہے ۔

عہد رسالت ﷺ میں عرب میں مرد عمامہ ‘ عبا ‘ جلباب ‘ قمیض وغیرہ پہنتے تھے اور خواتین عام طور خمور یعنی اوڑھنیاں استعمال کرتی تھیں مرد یمن کی چادریں اور صدف کے جبے بھی پہنتے تھے اور ریشم کا لباس بھی لوگ استعمال کرتے تھے اسلام عرب میں پھیلا تو اور تبدیلیوں کے ساتھ لباس میں تبدیلیاں ظاہر ہونے لگیں مرد اور خواتین اب ایسے لباس پہنے لگے جس سے مکمل ستر پوشی ہوتی تھی لوگوں کی زندگی میں لباس کے ساتھ ساتھ سلیقہ و رکھ رکھاؤ پیدا ہوا حضورﷺ کا لباس بھی بہت سادہ ہوتا تھا۔ آپ ﷺ کے روزمرہ کا لباس چادر قمیص اور تہبند تھا عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا تھا اور عمامے کے نیچے سر سے لگی ہوئی ٹوپی ہوتی تھی۔

اس کے علاوہ آپؐ کو یمن کی دھاری دار چادریں پسند تھیں۔ لیکن بعض اوقات آپ ؐ نے شامی عبا بھی استعمال کی ہے۔ آپؐ کو سفید رنگ کے کپڑے مرغوب تھے۔ صحابہ کرامؓؓ بھی آپ ؐ کی پیروی کرتے ہوئے یہی لباس استعمال کرتے۔ بعد میں عام مسلمانوں نے بھی یہی لباس پہننا شروع کیا۔

اسلامی حکومت کے ابتدائی دور میں پارچہ جات اور لباس گذشتہ قطبی اور ایرانی طرز کے بنتے رہے مگر رفتہ رفتہ ایک خالص طرز معرض وجود میں آیا اور ان تمام ملکوں میں پھیل گیا جو عربوں کے زیرنگیں تھے۔ عہد بنوعباس میں اسلامی فتوحات کے بعد لوگوں کے لباس کی تراش خراش پر بھی اس کا اثر ہوا اور ریشم کے کپڑوں کا استعمال عام ہونے لگا۔ امراء اور اکابرین نقش و نگار والی ریشم کی چادریں اوڑھنے لگے وہ گھڑسواری کے دوران تنگ موہری کے پاجامے پہنتے تھے۔ البتہ وہ گھروں میں ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے۔ اس زمانے میں تنگ قبا کا بھی رواج تھا۔ عام لوگ سفید رنگ کے جبے اور دھاری دار پاجامے پہنتے تھے۔ دفتروں میں کام کرنے والے کلرک، عہدے دار اور ناظم بڑے بڑے سفید اور نیلے عمامے سر پر پہننے لگے۔ عام لوگ سرخ رنگ کے نوک دار جوتے استعمال کرتے اور حکم راں طبقہ پرتکلف، رنگین اور معطر لباس پہننے کا عادی ہوگیا تھا۔

641 ہجری میں عربوں نے مصر فتح کیا تو اس وقت مصر میں پارچہ بافی اور لباس بنانے کے بے شمار کارخانے تھے جہاں نفیس کپڑے اور لباس تیار کیے جاتے تھے جو دوسرے صوبوں شام اور عراق بھی بھیجے جاتے تھے۔ مصر کے ایک شہر تنیس میں پانچ ہزار کپڑے بنانے کی کھڈیاں تھیں جن پر انواع و اقسام کے کپڑے تیار ہوتے۔ ایک قسم کا سوتی کپڑا قعب خاص کر عمامے کے لیے استعمال ہوتا تھا جو خاص قسم کا کپڑا تھا جو صرف خلیفہ ہی پہنتے تھے۔

ایک اور خاص قسم کا کپڑا بوقلمون بھی بنتا تھا جس کا رنگ تبدیل ہوتا رہتا یہ گھوڑوں کے زینوں یا پالکیوں کو ڈھانپنے کے لیے پردے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مصر کے شہر تنیس میں جو کارخانے تھے وہ خاص طور پر حاکم مصر اور اس کے خاندان کے لیے کپڑے تیار کرتے یہ کپڑے نہ تو بازار میں فروخت ہو سکتے تھے اور نہ ہی کسی کو تحفے کے دور پر دیے جاسکتے تھے۔ البتہ یہاں خانہ کعبہ کا غلاف خا ص طور پر تیار ہوتا۔ مصر کے دو شہر وابق اور رمیاظ سوتی، ریشمی اور خوب صورت کپڑے تیار کرنے میں مشہور تھے۔ بعض ریشمی کپڑے خالص ریشم سے تیار ہوتے اور ان پر زردوزی کا کام ہوتا۔

بنوعباس کے دور میں عوام موٹے کپڑے کی چادریں قمیض اور تہبند پہنا کرتے تھے۔ کمر کے گرد کمر بند یا پٹکہ ہوتا تھا اور شانوں پر چادر ڈالی جاتی تھی۔ غریب لوگ کالے رنگ کے کمبل استعمال کرتے تھے جو عام طور پر بھیڑوں کے اون یا اونٹ کے بالوں سے تیار کیے جاتے تھے۔ امیر گھرانوں کی عورتوں کے سروں پر ایک تاج نما ٹوپی ہوتی تھی جس پر ہیرے موتی اور جواہرات جڑے ہوتے۔ ٹوپی کے زیریں حصہ کا گھیرا سنہری ہوتا جو جواہرات سے مزین ہوتا۔ اونچے گھرانوں اور امیروں کے گھروں کی نوکرانیاں اور کنیزیں گلابی رنگ کی قمیص اور پاجامے پہنتیں اور اسی رنگ کے دوپٹے اوڑھتیں۔ گانے اور ناچنے والیاں کم و بیش اسی قسم کے لباس استعمال کرتیں۔

خلیفہ ہارون الرشید کھلے جبے، منقش عمامے اور منقش تہبند پہنا کرتے۔ امیر کبیر رئیس اور شرفاء ڈھیلا ڈھالا پاجامہ قمیص اور اس کے اوپر قبا، عبا، جُبہ پہنا کرتے تھے۔ سر پر عمامہ ہوتا۔ بعض لوگ ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ امراء اور اہل ثروت موزے جرابیں پیروں میں ڈالتے۔ یہ موزے یا جرابیں باریک ریشم یا پشم کے بنے ہوتے۔ چمڑے کے موزوں کا بھی رواج تھا۔ عباسی خلفاء کے عہد میں سرکاری لباس سیاہ تھا۔ اس لیے دربار میں آنے کے لیے سیاہ لباس ضروری تھا۔ دوپٹے اور لوگوں کی پگڑیاں زیادہ تر جالی دار ہوتی تھیں جو سیاہ اون اور سیاہ سوتی کے ریشوں سے تیار کی جاتیں۔ اس پر بیل بوٹوں اور درختوں کی تصویریں بھی ہوتیں۔ بعض لباس پر عبارتیں بھی لکھی ہوتیں۔ عباسی دور میں شاہی کارخانوں میں جو سوتی کپڑے تیار ہوتے۔

ان کی آرائش ریشم سے ہوتی تھی اور اس پر مختلف قسم کی کشیدہ کاری ہوتی جو بھی لباس خلیفہ وقت کیلئے بنائے جاتے اس پر ان کے نام بھی ہوتے تھے۔ ان کپڑوں پر ہندسے ، اشکال خط کوفی میں عبارتیں، کھجور کے درخت وغیرہ مختلف رنگوں کے ریشمی دھاگوں سے بنائے جاتے۔ اندلس اسپین کو عربوں نے فتح کیا تو وہ اپنے ساتھ اپنا ہنر اور فنون بھی یورپ لے آئے اور وہاں خوب صورت پارچہ جات بنانے لگے۔ اس طرح پارچہ جات، رسیا، اتبیلا، غرناطہ میں بھی تیار ہوتے شاہی پارچہ جات کا زیادہ تر رنگ سرخ اور نیلا ہوتا تھا۔ نیلے رنگ کے علاوہ سبز اور ہلکے بادامی رنگ کے پارچہ جات بھی تیار ہوتے جن کی زیادہ تر زمین سنہری ہوتی تھی۔

اس پر شکاری تصاویر، شش پہلو ستارے، مربع اشکال اور آڑھی ترچھی لکیریں بھی ہوتیں۔ اندلس میں عرب کاری گر جو کپڑے بناتے تھے وہ عمدگی، نفاست اور پاکیزگی میں دوسری اقوام کے تیار شدہ کپڑوں سے بازی لے گئے تھے۔ ایران کے شہر نیشاپور میں کپڑے بنانے کے بے شمار کارخانے تھے جہاں عمدہ سے عمدہ پارچہ جات تیار ہوتے تھے اور یہ پارچہ جات عرب ممالک اور دیگر مالک بھیجے جاتے۔ اہل اسلام کے ایرانی ریشمی پارچہ جات میں قدیم ساسانی طرز کی پیروی کی گئی تھی۔ ان پارچہ جات پر جانوروں اور پرندوں کی زاویہ دار تصویریں ہوتی تھیں جن میں زیادہ تر گھوڑوں اور موروں کی تصویریں ہوتی تھیں۔ بعض پارچہ جات پر لیلٰی مجنون کی داستان عشق کے مناظر بھی ہوتے تھے۔

مسلمانوں نے جب ایران پر قبضہ کیا تو اس وقت مسلمان تہبند اور عبا پہنتے تھے۔ ایران میں بھی بغداد کے عباسی دربار کے زیراثر پاجامہ، قباء اور عمامے پہننے کا رواج ہوا۔ علماء عام طور سے جُبہ پہنتے تھے جس سے ان کی علمی حیثیت کا اندازہ کیا جاتا۔ مصر کے فاطمی عہد میں کپڑوں پر بیل بوٹوں، جانوروں، پرندوں کی تصویریں بنانے کا جو رواج تھا وہ ایوبی دور میں بھی جاری رہا، مگر اس کے رواج میں کمی آگئی۔ اب کپڑوں پر سادہ چھپائی اور کشیدہ کاری ہوتی تھی لیکن اس کے ساتھ رنگین سوزن کاری کے پارچہ جات بھی تیار ہوتے اور ان پر درختوں، پرندوں اور جانوروں کی تصویر یں بھی ہوتیں اور عام طور بیل بوٹے اور گلاب کے چھوٹے چھوٹے پھولوں کی آرائش ہوتی تھی جس کا رنگ سرخ ‘ نیلا یا بادامی ہوتا تھا۔

مصر اور شام کے سلاطین زربفت کے کپڑے استعمال کرتے ان کپڑوں میں خوب صورتی بڑھانے کے لیے چمڑے کے ٹکڑے بھی لگائے جاتے۔ اکثر ایسے کپڑوں پر طوطوں کی تصویریں اور چینی طرز کے اژدہے کی تصویریں بھی ہوتی تھیں جو پہلے پہل تو چین یا وسطی ایشیا سے درآمد کیے جاتے رہے لیکن بعد میں اس قسم کے کپڑے مصر میں بھی بننے لگے۔ ترکی زربفت کے کپڑوں کے لیے مشہور تھا اور یہاں جو پارچہ جات تیار ہوتے وہ مشرقی فن کے بہترین نمونے تھے۔

کپڑوں کے رنگ زیادہ شوخ نہیں ہوتے تھے لیکن رنگ نہایت پختہ اور کپڑے اعلٰی معیار کے ہوتے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ترک خواتین باقاعدہ انگریزی لباس پہننے لگی تھیں، کیوںکہ مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کے بعد قدیم وضع کا لباس پہننا ممنوع قرار دیا تھا۔ ترکی ٹوپی کی جگہ یورپی ہیٹ نے لے لی اور عام لوگ بھی کوٹ پتلون اور ٹائی پہننے لگے لیکن دیہات میں پرانی وضع کی خواتین باہر نکلتے وقت ڈھیلا ڈھالا ریشمی گاؤں پہنتی تھیں جو گردن سے پاؤں تک ہوتا تھا اور اس پر بٹن ہوتے تھے۔ چہرہ ایک رومال سے ڈھکا ہوتا اور دونوں آنکھیں کھلی رہتی تھیں۔

مسلمان برصغیر میں آئے تو اس وقت ہندو عوام نیم عریانی میں زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ اَن سِلی چادریں، ساڑھی اور دھوتی سے بدن ڈھانپتے تھے۔ ابتدا میں جو عرب ہندوستانی لباس استعمال کرتے تھے تو تہبند اور عبائیں پہنتے تھے لیکن ایران اور توران سے آنے والے زائرین وہ لباس پہنتے تھے جسے ہم مشرقی پاجامہ کہتے ہیں۔ اس وقت ہلکی شلواروں کا بھی رواج تھا۔ مختلف کارخانوں میں ان کپڑوں کی وضع قطع اور تراش و خراش میں تبدیلی ہوتی رہی۔ امراء درباریوں میں تاتاری اور مخمل کی زردوزی قبا پہنتے تھے جس پر سفید پٹی بنی ہوتی تھی سردیوں میں حسب حیثیت گرم کپڑے‘ کمبل یا شالیں اوڑھی جاتیں۔

ابتدائی دور کے مسلمان امراء، وزراء اور سلاطین کے عمامے بڑے ہوتے تھے لیکن مغلیہ عہد میں پگڑیاں روزبروز چھوٹی ہونے لگیں۔ پگڑی کے نیچے باریک کپڑے کی ٹوپی ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ پگڑی کے بجائے کمرخی، چوگوشیہ، پنج گوشیہ، نہایت نفیس اور کامدار ٹوپیاں ایجاد ہوئیں۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے زمانے سے قبل دو پَلی ٹوپی کا رواج ہوا جو عام لباس کا لازمہ بن گیا۔ انگریزوں کے عہد میں سرسید احمد خان کے زیر اثر ترکی ٹوپی نے قبولیت عام حاصل کی اور سارے برصغیر کے تعلیم یافتہ مسلمان اسے استعمال کرنے لگے۔

بیسویں صدی کے دوسر ے اور تیسرے عشرے میں پنجاب اور خیبرپختون خوا میں پشاوری، مشہدی اور بہزادی لنگیوں کا رواج ہوا تحریک پاکستان میں جناح اچکن، قمیص اور شلوار والا لباس قومی لباس بن گیا۔ ایک طبقے میں رام پوری وضع کی ٹوپی بھی پہنی جاتی تھی۔ علمائے دین اور صوفیاء ابھی تک لمبے کرتے، پاجامے، اچکن یا عمامے میں نظر آتے ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کے آنے سے پہلے یہاں دھوتی کا عام رواج تھا۔ لوگ ان سلے کپڑے پہنتے اور زیادہ تر لوگوں میں جوتے پہننے کا رواج نہیں تھا۔ مسلمان جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ جوتے بھی لائے۔ بعض مذہبی لوگ سُنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے تہبند بھی باندھتے تھے۔

مسلمانوں کا پہلا اور اصلی پاجامہ اُٹنگا پاجامہ تھا جو شرعی پاجامہ کہلا تا تھا جو تنگ موہری کا ہوتا تھا۔ بعد میں موہری پھیلتی اور نیچے ہوتی گئی۔ دہلی کے مسلمانوں کے آخری عہد تک کابل اور قندہار میں دو قسم کے پاجامے مروج تھے۔ کابل والوں کا پاجامہ نیچے موہری کے پاس سے تنگ اور اوپر گھیر کے پاس سے بہت ڈھیلا ہوتا اور ایک ایک پاجامے پر تقریباً ایک تھان کپڑا لگ جاتا تھا۔ 1857 ء کے بعد سے لکھنؤ میں گُھٹنے کا رواج ہوا۔

برصغیر پاک و ہند میں غیرمسلم عورتوں کا عام لباس ایک ان سلی چادر ہوتی تھی جو آدھی کمر سے لپیٹ کر باندھ لی جاتی اور آدھی کندھے یا سر پر اوڑھ لی جاتی۔ مسلمان جب برصغیر آئے تو ان کی خواتین کرتے اور پاجامے استعمال کرتی تھیں ایران اور ترکستان سے مسلم خواتین ڈھیلے پائنچوں کے پاجامے اور کرتے پہنے ہوئے آئیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ پاجامے تنگ موہری کے ہوگئے۔ یہ پاجامے کتان‘ اطلس ، گلہدن اور سوسی کے ہوتے تھے۔ زنانہ لباس میں ملکہ نور جہاں نے نہایت عمدہ جہتیں اور اختراعیں کیں۔ مغل شہزادیاں نیمہ اور پشواز پہنتیں تھیں۔

ان کے علاوہ زربفت، فرنگی، گجراتی، کلشی، ہروی، طاس، گجراتی، دارائی، دیہائے فرنگی، دیہالے یزدی اطلس، ختائی، خز، مطبق کے ریشمی کپڑے بھی پہنے جاتے تھے ڈھاکہ کے ململ کے بنے ہوئے لباس عمدگی اور نفاست میں بے مثال تھے۔ لکھنؤ میں مسلمان بیگمات تنگ موہری کا کھینچا ہوا پاجامہ، سینے پر چھوٹی اور تنگ آستینوں کی انگیا اور کرتے پہنتیں۔ 1857 ء کے زمانے میں آدھی آستینوں کے تنگ شلوکوں کا رواج عام ہوگیا اور انگریزوں کے عہد سے قبل بھی کرتے پہننے جانے لگے خواتین عام طور سے سردیوں میں شالیں اوڑھا کرتی تھیں۔ پنجاب بالخصوص مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی معاشرت اہل دہلی سے متاثر رہی ہے۔ عام مسلمان عورتیں کرتا، دوپٹہ اور گھاگھرا یا لہنگا پہنا کرتیں۔ بالائی طبقے کی خواتین چوڑی دار پاجامہ، لمبا کرتا اور دوپٹہ استعمال کرتی تھیں۔

گرمیوں میں بالائی لباس، نفیس ململ، چکن تن زیب کا ہوتا جب کہ سردیوں میں مخمل، بانات اور پشمینے کے مختلف اقسام کے کپڑے اور کشمیری چادریں مرغوب خاطر تھیں۔ بعض گھرانوں میں لہنگے، ساڑھیاں اور غرارے بھی پہنے جاتے تھے۔ مسلمان عورتیں برقعہ بھی اوڑھتی تھیں جو عام طور سے سفید کپڑے کا بنا ہوتا تھا۔ بعد میں سیاہ کریب کا ترکی برقعہ رواج پا گیا۔ ساڑھی برصغیر میں زمانہ قدیم سے استعمال ہورہی ہے جو اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں استعمال ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ساڑھی پہننے کا رواج پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ امیر و غریب سب خواتین اپنی استطاعت کے مطابق ساڑھی پہنتی ہیں۔ ہندوستان میں خواتین ساڑھیاں پہن کر مزدوری بھی کرتی ہیں۔ پاکستان میں کسی تقریب یا شادی بیاہ وغیرہ ہی میں خواتین ساڑھیاں پہنتی ہیں۔

برصغیر کے بٹوارے سے پہلے اور کچھ سالوں بعد تک یہاں کے لباس میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مرد اور خواتین اپنے اپنے رواج اپنے علاقوں اور یہاں کے موسم کے مطابق لباس استعمال کرتے تھے۔ ہندوستان میں خواتین کا لباس حسب معمول ساڑھی ہوتا تھا لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں میں خواتین زیادہ تر شلوار قمیص ہی استعمال کرتی تھیں۔ کہیں پر یہ شلوار قمیص بھاری بھر کم ہوتا اور اس پر کافی کپڑا خرچ ہوتا لیکن بعض علاقوں میں خواتین ہلکے پھلکے شلوار قمیص استعمال کرتی تھیں جو اب بھی جاری ہے شلوار قمیص اور دوپٹے کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف صوبوں میں مقامی مختلف اقسام کے لباس کے ساتھ کرتا، غرارہ اور ساڑھی وغیرہ استعمال ہوتی رہی جو اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کے لباس شلوار قمیص ہی رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قمیص یا کرتا اور تہبند کا استعمال رہا۔ چادر شلوار قمیص اور کرتا تہبند کے ساتھ بھی عام استعمال ہوتا ہے شلوار قمیص کہیں پر ہلکے کہیں پر بھاری اور اس کی تراش خراش علاقے کی رسم و رواج، موسم کے مطابق بنتے برصغیر میں انگریزوں کے دور میں ان کے زیراثر سرکاری افسران کوٹ پتلون ٹائی یا سوٹ یا پتلون پہنتے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا اور کوٹ پتلون کا پہننا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

بڑے بڑے ہوٹلوں میں شلوار قمیض کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں تھی بعد میں حکومت پاکستان نے خود ہی سرکاری ملازمین پر کوٹ پتلون، بوٹ شرٹ پہننے کی پابندی ختم کردی اور ان کو شلوار قمیض، واسکٹ، کوٹ یا شیروانی پہننے کی اجازت دیدی آہستہ آہستہ پاکستان میں کوٹ پتلون پہننے کا رواج ختم ہونے لگا اور چھوٹے بڑے تمام آفیسر شلوار قمیص واسکٹ پہننے نظر آنے لگے اور شلوار قمیص ایک عوامی لباس کا درجہ حاصل کرنے لگا۔ پاکستان بھر کے مختلف علاقوں میں رسم و رواج اور موسمی حالات کے مطابق کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ مردوں کے لباس میں جو عام طور سے شلوار قمیص ہی ہوتا ہے ملکی کپڑا استعمال ہوتا ہے لیکن خواتین ملبوسات کی تیاری میں استطاعت کے مطابق کبھی کبھار غیرملکی کپڑا بھی استعمال ہوتا ہے۔

اونچی سوسائٹی کی بعض خواتین اب جینز بھی استعمال کرنے لگی ہیں اور دوپٹے کا رواج بھی اب کم ہونے لگا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چترال کے کیلاش کی خواتین کا لباس یا سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خوا اور پنجاب کے دوردراز دیہات کی خواتین اور قبائلی علاقوں میں لباس اب بھی کچھ نہ کچھ روایتی ہے اور خواتین یہ لباس اب بھی پہنتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔