بڑے خطرے میں ہے حسن گلستان ہم نہ کہتے تھے

شاہد سردار  اتوار 26 جنوری 2020

انسان نے اپنی تہذیب اور معاشرے کے آغاز سے بھی پہلے انفرادی طور پر حسن کی تعظیم سیکھ لی تھی اور حسن کی نسائیت کے ساتھ ذہنی طور پر مربوط کر دیا تھا۔ وہ ہر رنگ میں اس کی پرستش کرتا رہا۔ اس نے عناصر فطرت سے ’’ دیویاں‘‘ تخلیق کیں۔ جب انسانی معاشرہ قائم ہوا تو ہر طرز معاشرت نے اپنی ضرورت کے تحت اسے الگ الگ نام دے دیے۔

یونان کے سمندروں سے جھاگ میں ملبوس نکلنے والا پیکر ’’ ایفرو ڈائٹی‘‘ اور روم کے معبدوں میں اپنی منجمد بلوریں آنکھوں سے دیکھنے والا مجسم ’’ وینس‘‘ ہر حالت میں عورت ہی کا روپ تھا۔ جب تہذیب کی لو اور تیز ہوئی، جب انسان کا شعور اور پختہ ہوا تو سوچنے کے مروجہ انداز بھی بدل گئے۔ پہلے دیوی عورت ہوا کرتی تھی ، اب عورت دیوی بن گئی۔

انسان نے اپنی ذات کا سفر طے جو کرلیا تھا۔ پھر عورت اور جذبے کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ قلوپطرہ کی ناک ذرا اور لمبی ہوتی تو آج شاید انسانی تاریخ مختلف ہوتی۔ ایک عورت ہیلن کے لیے ایک ہزار جہاز ٹرائے پر حملہ آور ہوئے اور یونان کی داستان بدل گئی۔ ایک عورت سلومی نے اپنے محبوب سے اپنے ناپسندیدہ شخص کا سر مانگا اور پوری سلطنت کا نام و نشان مٹا دیا۔ یوں تو ہیلن، قلوپطرہ اور سلومی تاریخ کے تین مختلف ادوار ہیں مگر ایک قدر تینوں میں مشترک تھی کہ وہ تینوں صرف عورتیں ہی نہیں بہت ہی خوبصورت عورتیں تھیں۔

برصغیر پاک وہند کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ فلم جیسے موثر ذریعہ ابلاغ و تفریح کے ہر زمانے میں فلم کی ہیروئن کے لیے خوبصورت ہونا شرط اولین قرار دیا جاتا رہا ہے۔ کشیدہ قامت یا متناسب جسم، بے عیب چہرہ چاہے بیضوی یا فروزاں ہو، ستواں ناک، پنکھڑیوں جیسے گلابی ہونٹ، سرخ و سفید رخسار، چمکتی مسکراتی ہوئی کشادہ آنکھیں، بڑی پیشانی، گھنی زلفیں، رسیلی آواز اور گدرایا بدن، رکھنے والی ذات کو فلم کی ہیروئن بننے سے کبھی کوئی روک نہیں پایا۔

برسہا برس تک فلم کا رخ کرنیوالیوںکے لیے بھی خوبصورت ہونا لازمی شرط قرار پایا۔ کوئی ایسی لڑکی فلمی دنیا سے رابطہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی جو دلکشی میں یکتا اور صاحب جمال نہ ہو مگر پھر رفتہ رفتہ تکنیک اور میک اپ اور دوائیں اور انجکشن خوبصورتی میں معاونت کرنے لگے اور آج تک یہ روایت یا ہتھیار خوبصورتی کے حوالے سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خوبصورتی دیکھنے والی آنکھوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔

بعض کے نزدیک صورت سے زیادہ سیرت اصل خوبی کہلاتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت ذات اور حسن و جمال لازم و ملزوم ہیں۔ عورت کی جسمانی رعنائی اور دلکشی ہی دنیا کے بازار میں اس کا مقام متعین کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونچے مقام اور ارفع ایوانوں میں آپ کو اکثریت خوبصورت عورتوں ہی کی نظر آئے گی۔ حد تو یہ کہ اداروں، کمپنی، فیکٹری، اسپتالوں اور اسکولوں کے ریسپشن تک میں خوبصورت چہرے یا خد و خال کی مالک براجمان ملتی ہے۔ شوبز انڈسٹری تو ویسے بھی ابتدا ہی سے چمک دمک اور گلیمر کی دنیا ہے یہاں سدا سے خوبصورتی کا دور دورہ اور دلکشی کی حکمرانی رہی ہے۔

ہالی وڈ کی ہیروئنوں نے ساری دنیا کو شروع ہی سے اپنا دیوانہ بنا دیا۔ ایسی بھی اداکارائیں لیکن تھیں جنھیں اداکاری نہیں آتی تھی مگر صرف اپنے حسن وجمال کے بل بوتے پر انھوں نے ساری دنیا کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا۔ الزبتھ ٹیلر ان ہی میں سے ایک ہیروئن تھی جو سالہا سال تک اداکاری میں ناپختگی کے باوجود اسکرین کے ذریعے لاکھوں دلوں پر راج کرتی رہی۔

تاریخ انسانی اٹھا کر دیکھ لیں خوبصورت یا دلکش عورتوں کی خاطر طویل جنگیں لڑی گئیں۔ ایسی دیدہ زیب عورتیں بے شمار بادشاہوں کے عروج و زوال کا سبب بنیں ، بڑے بڑے بادشاہوں کو اپنے اشاروں پر نچایا اور بڑے بڑے جابر حکمرانوں کو اپنے حسن کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا۔ دیومالائی کہانیوں سے لے کر تاریخ عالم ایسی عورتوں کے تذکروں سے بھی پُر ہے جنھوں نے مختلف اوقات میں دنیا بھر سے اپنے حسن و ذہانت کا خراج وصول کیا۔ کیسی کیسی ہستیوں نے اپنے وجود کی چاندنی سے دنیا کے اسٹیج کو جگمگایا اور فنا ہوجانے کے باجود کتابوں، کہانیوں اور لوگوں کے دلوں میں باقی رہ گئیں۔ بلاشبہ حسن ایک ایسی صفت ہے جو قدرت کا بہت بڑا اور قابل دید عطیہ ہے اور اگر کسی ایک جگہ پر یہ پورے طمطراق کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے تو وہ صنف نازک کا وجود ہی ہے۔

ذرا سوچیے تو کہ اگر قدرت کا یہ حسین و دلکش عطیہ نہ ہوتا تو دنیا کتنی بے مزہ اور بے لطف جگہ ہوتی۔ رنگینی اور لطافت سے خالی، حسن و رعنائی سے محروم ، نزاکت اور نفاست سے کوسوں دور۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کا دل بہلانے کے لیے جہاں دلکش اور حسین مناظر پیدا کیے ہیں ، وہیں عورت ذات کو بھی جنم دیا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی عورت ذات اپنے حسن کا جادو جگاتی چلی آئی ہے۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں تین چیزیں فساد اور جھگڑے کا سبب بنتی ہیں اور تینوں کا آغاز اردو کے حرف ’’ز‘‘ سے ہوتا ہے۔ یعنی زر ، زن اور زمین۔ زر اور زمین کو تو ایک ہی چیز سمجھ لیجیے کہ زمین بھی زر و جواہر اگلتی ہے اور زر بالآخر زمین کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کو دنیاوی اور مادی آسائشوں اور عیش و آرام فراہم کرتی ہیں۔ تو پھر ’’ زن ‘‘ کا اس درمیان ذکرکیوں آگیا؟ تو جناب اس لیے کہ اسے انسان نے ہمیشہ اپنا قیمتی سرمایہ تصور کیا ہے۔

محض جذباتی پن اور محسوسات ہی کے اعتبار سے نہیں مادی لحاظ سے بھی عورت ذات، مادی دولت اور فوائد کے حصول کا ذریعہ رہی ہے۔ یہ نہ صرف بنی نوع انسان کو گھر بار، بچے، خاندان اور سکون سے رہنے کا سامان فراہم کرتی ہے بلکہ اس کے لیے مالی فوائد کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اپنی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے پیش نظر عورت کا بھاؤ ہمیشہ بہت اونچا رہا ہے۔ یہ کنیزوں اور خدمت گاروں کے طور پر خریدی اور فروخت کی جاتی رہی ہے۔

لیکن ان مادی فائدوں کے علاوہ اس کا ایک نمایاں حسن اس کی لطافت اور قدرتی لذت بھی ہے۔ یہ وہ لذت ہے جس کا جواب کوئی اور چیز پیدا نہیں کرسکی۔ جب انسانوں کو عورت کی اس صفت کا ادراک و احساس ہوا تو انھوں نے اسے بھی کاروبار کی جنس بنا دیا۔ خدمت گزاری کے علاوہ بھی اس کے حسن و جمال و لطافتوں کی بلند قیمت لگنی شروع ہوگئی۔ اس کی خاطر جھگڑے فساد ہوئے، جنگیں ہوئیں، قتل و غارت ہوا۔

آج اکیسویں صدی ہے، جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے اور اسی وجہ سے نقش و نگار کیا جسم کے نشیب و فراز بھی چند لاکھ کی مار ہیں۔ کوئی بھی درمیانہ سا کاسمیٹک سرجن چند لاکھ روپے کے عوض کسی شیداں کو کترینہ کیف اور میدان کو مارلن منرو بنا سکتا ہے۔ کالی رنگت بھی گوری چمڑی کا روپ دھار لیتی ہے لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی دولت اور مہارت مل کر بھی کسی کا کردار تبدیل نہیں کرسکتے، اس کے لیے خود ہی جان مارنا پڑتی ہے۔

فطری حسن کے بارے میں یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اسے کسی آرائش کی ضرورت نہیں ہوتی اور حسن کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر کسی کی زبان سے خراج تحسین حاصل کرنے کا متمنی ہوتا ہے، خوبصورتی کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ خوبصورتی پر عام طور پر شرمانے کی نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ خوبصورتی میں خلوص ہونا ناممکن ہے جب کہ بدصورتی ہمیشہ پرخلوص ہوتی ہے۔

یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ چہرے کا حسن مرد کو مغرور بنا دیتا ہے۔ مرد کا حسن اس کے اعمال، اس کی باتوں، اس کی محنت اور اس کی تعریف میں ہوتا ہے۔ اگر مرد کی باتوں میں زہر گھل جائے تو حسین سے حسین مرد بھی مکروہ لگنے لگتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔