آٹے کے بحران سے نمٹنے کا مستقل حل

عبدالرحمان منگریو  اتوار 26 جنوری 2020

ملک میں اس وقت آٹے کا شدید بحران ہے ۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران آٹا سرکاری قیمت 46 روپے سے بڑھ کر 70روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ یہ بحران ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے بھی سنگین ہوگیا۔

بہرحال جو بھی ہے گذشتہ ایک برس کے دوران مہنگائی میں شدید اضافے سے عوام پہلے ہی پریشان ہیں ۔ وزیر اعظم خود مہنگائی کا شکوہ کرتے اور تنخواہ سے گذارہ نہ ہونے کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔ جب کہ غریب کو تو 3وقت کی روٹی پہلے ہی میسر نہیں ہو پا رہی ، ایسے میں زندہ رہنے کے لیے انسانی ضرورت کی بنیادی چیز آٹے کی قلت اور قیمتوں میں گردن توڑ اضافے نے تو غریب کو خود کشی کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ ابھی رواں ہفتے ہی کراچی میں ایک باپ نے غربت اور بھوک سے تنگ آکر اپنے دو معصوم بچوں کو زہر دیکر خود بھی زہر کھاکر موت کو گلے لگالیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم میں اضافہ اور ڈپریشن یعنی نفسیاتی بیماریوں میں بھی شدت آئی ہے کیونکہ بھوک ایسی چیز ہے جو اچھے اور برے ، جائز اور ناجائز کی تمیز مٹا دیتی ہے ۔ ایسے میں معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے اور ملک تعمیر کے بجائے تخریب و انتشار کی ڈگر پر چل پڑتا ہے ۔ پی ٹی آئی سرکار کا جو مدینہ کی ریاست والا وعدہ ہے وہ تو دیوانے کا خواب بنتا جارہا ہے ۔کیا 22سال کی عمران خان کی محنت کو حکمرانی کے یہ 22ماہ برباد کرنے کی وجہ بنیں گے ؟

اگر حکومت کا جواب ناں میں ہے تو پھر حکومت کو اس معاملے کو اولیتی بنیادوں پر دیکھتے ہوئے مسئلے کے فوری حل کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے ، چاہے اس کے لیے گندم درآمد کرنی پڑے یا پھر ملکی گوداموں میں پڑی ساری گندم ہی کیوں نہ نکالنی پڑے ۔

وزیر اعظم ملک کو جس طرز کی ریاست بنانے کے داعی ہیں ، اُس میں یوسف علیہ السلام کی زندگی کی داستان کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے پردادا جناب ہاشم اور دادا عبدالمطلب کی داستان اور سب سے بڑی بات نبی ِ کائنات ﷺ کی اپنی حیات مبارکہ میں بھی صلح ِ حدیبیہ کے بعد آنے والے قحط کے واقعات اور اُن سے نبرد آزما ہونے کے طریقے اور اس دوران اُن کے رویے عمران خان کو رہنمائی کے بہترین مواقع فراہم کریں گے ۔

بس ضرورت صرف صبر ، برداشت ، استقلال اور جذبہ ٔ نیک نیتی سے بھرپور صالح عمل کی ہے کیونکہ اس وقت جو گندم کی قلت اور قیمتوں میں بھیانک اضافہ ہوا ہے یہ کوئی آسمانی آفت کے نتیجے میں نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی انتظامی غفلتوں کا نتیجہ ہے کیونکہ گذشتہ برس گندم کی فصل اس قدر کامیاب اور شاندار تھی کہ گندم ذخیرہ کی گنجائش سے بھی زیادہ تھی ۔ پھر اس سال کھڑی فصل بھی شاندار ہے جو صرف 2ماہ میں تیار ہوکر مارکیٹ میں آجائے گی ۔ صرف تب تک صورتحال کو کنٹرول کرنا ہے ۔ اور اس کے لیے پاسکو کے گوداموں میں بھی گندم موجود ہے پھر اگر ضرورت پڑے تو اُسے فوری برآمد کیا جاسکتا ہے ۔

گندم کے موجودہ بحران اورملکی صورتحال پر آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظردنیا میں گندم کی صورتحال پر ڈالتے ہیں ۔ دنیا میں گندم کی کُل پیداوار اقوام ِ متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق 730ملین ٹن ہے ۔ جب کہ مختلف ممالک میں گندم کی پیداوار کو بھارتی ادیب اور ایڈیٹر اوشیمایاسین نے اس ترتیب کے ساتھ Top Tenممالک کی فہرست تیار کی ہے ۔ چین دنیا میں گندم کی 134.3ملین ٹن  پیداوار سے پہلے نمبر پر ہے ، دوسرے نمبر پر بھارت 98.5ملین ٹن ، تیسرے نمبر پر روس 85.9ملین ٹن ، چوتھے نمبر پر امریکا 47.3ملین ٹن ، پانچویں نمبر پر فرانس 36.9ملین ٹن ، چھٹے نمبر پر آسٹریلیا 31.8 ملین ٹن ، ساتویں نمبر پر کینیڈا30ملین ٹن ، آٹھویں نمبر پر پاکستان 26.6ملین ٹن ، نویں نمبر پر یوکرین 26.20 ملین ٹن جب کہ دسویں نمبر پر جرمنی ہے جہاں 24.4ملین ٹن پیداوار ہوتی ہے ۔

مسئلے کو درست سمت میں دیکھ کر حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کی ہماری روایت بن چکی ہے ۔آٹے کے موجودہ بحران کی صورتحال پر سندھ حکومت اور وفاقی حکومت بھی اسی روایت پر عمل پیرا ہوکر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں پوری ہیں ۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے کوٹہ سے کم گندم پاسکو سے اُٹھائی ، اس لیے سندھ میں آٹے کا بحران ہے ۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اور دیگر صوبے تو حکومت ِ سندھ کے ماتحت نہیں، پھر وہاں کیوں آٹے کی قلت اور قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں ؟

جب کہ سندھ حکومت کا وفاقی حکومت کو بحران کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ انھوں نے 4لاکھ میٹرک ٹن گندم افغانستان کو مفت دی اور 640لاکھ میٹرک ٹن گندم سستے داموں دیگر ممالک کو فروخت کی ، اس لیے ملک میں آٹے کی قلت اور قیمتیں بڑھی ہیں ۔ اس سلسلے میں حکومت ِ سندھ نے مطالبہ بھی کیا ہے کہ گندم ، آٹے اور چینی کی ملک سے باہر فروخت پر پابندی لگائی جائے ۔ آٹے و گندم کے موجودہ بحران کو تمام  سیاستدان اور حکومت اپنے اپنے مفادات کی عینک سے دیکھ رہے ہیں ۔ عوام کی تکلیف کا کسی کو کوئی احساس نظر نہیں آتا۔

آٹے کے فی کلو گرام پر 25روپے کی لوٹ کھسوٹ کے بعد بھی آٹے کی صنعت سے جُڑے تاجر ، فلور ملز مالکان، دکانداروں اور محکمہ خوراک کے عملداروں کے خلاف نہ کوئی آواز سنائی دے رہی اور نہ ہی کوئی مانیٹرنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہر بحران کی وجہ دراصل انتظامی بحران ہی ہوتا ہے ۔

اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اپنی صفوں اور بیوروکریسی میں موجود ایسی بدانتظامی کی وجوہات کو سمجھے اور اُس کا تدارک کرے ، جو کبھی گیس کے بحران کا باعث ہوتی ہیں تو کبھی ٹماٹر تو کبھی آٹے اور چینی کی قلت و مہنگی ہونے کی وجہ بنتی ہیں ۔ 2009سے مسلسل پاکستان کے گندم میں خود کفیل ہونے کے شادیانے بجائے جاتے رہے ہیں ۔ گندم دوسرے ممالک کو سستے داموں بیچی بھی جاتی رہی ہے تو پڑوسی ملک کو مذہبی بھائی چارے کا جذبہ بتاکر مفت بھی دی جاتی رہی ہے۔ اگر یہ سب باتیں درست ہیں تو پھر آٹے کا یہ سنگین بحران کیوں اور کیسے ہوگیا ؟

دیکھا جائے تو موجودہ بحران کی اہم وجوہات یہ نظر آتی ہیں ۔ گندم کی فصل اترتے وقت گندم کی سرکاری خریداری میں بدعنوانی۔ باردانہ کی کمی اور فراہمی میں اقربا پروری کا رجحان۔ کسان سے بروقت گندم نہ خریدنا۔ گوداموں میں پہلے سے موجود گندم کی بجا طور پر انسپیکشن نہ کرنا۔ پرانی گندم کو وقت پر نکال کر مارکیٹ میں سپلائی نہ کرنا۔ گوداموں میں گندم کے اسٹاک ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرکے بوریوں میں مٹی بھر کر رکھنا اور اتنی گندم چوری چھپے مارکیٹ میں بیچنا یا پھر بیرون ِ ملک اسمگل کرنا ۔ گندم کا بڑی مقدار میں خراب ہونا یا خراب دکھاکر ضایع کرنے جیسی بدعنوانی ۔

ملک میں بڑی تعداد میں غیر قانونی آبادی کا موجود ہونا اور ان کا ریکارڈ نہ بنانا، اُن کی وجہ سے مارکیٹ پر پڑنے والا بوجھ بھی اشیاء کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔نئی گندم کو بروقت ذخیرہ نہ کرنے کی لاپرواہی اور حفظان صحت کے اُصولوں کے مطابق ذخیرہ نہ کرنا ۔سندھ حکومت کے گوداموں میں گندم کھلے میدان میں ترپال لگاکر بھی ذخیرہ کی جاتی ہے جو اکثر و بیشتر ہر سال خراب ہوجاتی ہے ۔ گندم کی خرید و فروخت میں ملکی سطح پر مارکیٹ مسابقت کے ماحول کی عدم موجودگی ۔

گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے مقامی سطح پر سائنسی بنیادوں پر نئی ریسرچ کی کمی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی کمی کے ساتھ ساتھ زرعی سائنس سے کاشتکاروں کی عدم آگاہی۔ زراعت اور اس سے وابستہ اُمور خصوصاً پالیسیوں میں کسان و کاشتکار اور دیہی آبادی اولیت نہ ہونا ۔ بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ ۔ فلور ملز اور ہول سیلرز کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور مارکیٹ Imbalance   کی صورتحال پیدا کرنا وغیرہ ایسی وجوہات ہیں جو ملک میں نہ صرف گندم یا آٹے کے بحران کا باعث ہیں بلکہ تمام اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور ملک میں مہنگائی کے اسباب ہیں ۔

وزیر اعظم نے بحران کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے ، جو گندم کے موجودہ ذخائر اور مستقبل کے لیے سفارشات بھی ترتیب دے گی ۔ یہ کمیٹی تاحال قائم نہیں ہوسکی ہے ۔ لیکن جب یہ قائم ہوجائے تو اُسے تمام اُمور کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ سچائی لوگوں تک آسکے اور آیندہ کے لیے لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جاسکے ۔ کہتے ہیں کہ غیرجانبدار تحقیقات وہ ہوتی ہے جو اپنے گھر سے شروع کی جائے تو وفاقی حکومت کو بھی تحقیقات اپنے گھر سے شروع کرکے مثال قائم کرنی چاہیے ۔

سب سے پہلے تحقیقات اس پر ہونی چاہیے کہ گذشتہ اکتوبر میں 6لاکھ ٹن گندم بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے اور اب 3لاکھ ٹن گندم دیگر ممالک سے کیوں امپورٹ کی گئی کیونکہ ان اُمور  پر تجزیہ کاروں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکومتی صفوں سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں ، جن میںوفاقی وزیر علی زیدی کی تنقیدی آواز قابل معنی ہے ۔ اس لیے جو 640لاکھ ٹن گندم سرپلس دکھا کر ایکسپورٹ کی گئی ، اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کیسے سرپلس دکھائی گئی اور کس نے دکھائی ۔ اس کے تمام ذمے داران کے خلاف کارروائی ہی آیندہ ایسے Mishapsروکنے میں معاون ہوسکتی ہے ۔ کے پی کے میں8لاکھ ٹن گندم پولٹری فیڈ کمپنیوں کو دینے کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے ۔

ملک میں رعایتی نرخوں پر آٹے کی فراہمی کے لیے ہونے والے عارضی انتظامات بھی نتائج دینے سے قاصر رہے ہیں۔ جس کی وجہ موبائل دوکانوں کے مقررہ وقت ، جگہ اور دستیابی کی درست آگاہی نہ ہونا ہے ۔

جہاں تک بات ہے سندھ میں آٹے کے بحران کی تو صوبہ سندھ میں گندم کی طلب 45لاکھ ٹن کے مطابق پیداوار بھی 45لاکھ ٹن ہوتی ہے ۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر یہاں کیوں اور کیسے آٹے کا بحران برپا ہوگیا ہے ۔ رپورٹس ہیں کہ سندھ کی اوپن مارکیٹ سے 2لاکھ ٹن گندم پنجاب منتقل ہوئی ، جس وجہ سے سندھ کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے پاسکو سے گندم خریدنی پڑرہی ہے ۔یعنی یہاں بھی بدانتظامی ہی اس بحران کی اصل وجہ نظر آتی ہے ۔

اس لیے حکومت ِ سندھ کو چاہیے کہ ایک طرف وہ صوبہ میں گندم کی پیداوار بڑھانے کی پالیسی اور ضروری اقدامات کرے تو دوسری طرف گندم کو درست طریقے سے ذخیرہ کرنے کا انتظام کرے ، جب کہ ذخیرہ کرنے کی اپنی گنجائش میں بھی اضافہ کرے ۔اس مد میں فلور ملز مالکان کے تعاون سے پبلک پرائیوٹ اسٹریٹجی کے تحت نجی طور  پر ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کرے ۔ جب کہ گندم کی نقل و حرکت پر بین الصوبائی پابندی پرعلمدرآمد کو یقینی بنائے ۔

بہتر حکمرانی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے خود وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے بھی تسلیم کیا ہے اور انھوں نے فوری حل یہ نکالا ہے کہ 440وفاقی اداروں میں سے 98 ادارے ابتدائی طور پر صوبوں کو منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جب کہ مستقل حل کے لیے اس پر مزید پیش رفت کرنی ہوگی ۔ دوسری طرف گندم کے ایشو پر وزراء اور یہاں تک کہ صدر ِ مملکت کی جانب سے عجیب عجیب رائے دینا بھی حکومت کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنی ہے ۔

متعلقہ وزیر ِ خوراک کے سوائے دیگر وزراء کو اس حساس ایشو پر بات کرنے سے اجتناب حکومت کے مسائل میں کمی لاسکتا ہے ۔اوروفاقی حکومت کو اس بحران سے متعلق کابینہ میں بحث کے بعد کوئی پالیسی بیان دینے کے لیے فوکل پرسن مقرر کرنا چاہیے اور اسی کے توسط سے اُمور کو آگے بڑھانا چاہیے ورنہ یونہی ہوتا رہے گا کہ آج ایک بات تو کل دوسری بات۔ جیسے وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 40لاکھ ٹن گندم موجود ہے ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بحران کیوں اور کیسے پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کی عدالتی تحقیقات کرائی جانی چاہیے ۔ کیونکہ آٹے کے بحران پر سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشنز بھی زیر سماعت ہیں۔

اس سے پہلے کہ اس معاملے پر عدالت یا کسی ادارے کی جانب سے کوئی فیصلہ آئے حکومت کو چاہیے کہ وہ خود اس معاملے پر پیش قدمی کرے ۔ ویسے بھی ملک میں اشیائے خورد ونوش سمیت دیگر چیزوں کی دستیابی اور اس کی رسد و طلب کا جائزہ حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے ۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ پیشگی جائزہ لے کر تخمینہ شدہ مقدار میں اشیاء کی فراہمی کے طریقہ کار پر عمل کو یقینی بنایا جائے ۔ کیونکہ یہ ایسا ایشو ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی بے بس ہوجاتی ہیں ۔ جس کی ایک مثال امریکا کی ہے۔

امریکا میں اگست 2018کے دوران گندم کی قیمت میں 3فیصد اضافہ ہوا تو وہاں عوام میں کھلبلی مچ گئی اور دنیا کے طاقتور ترین حکمرانوں کو جلد ہی پلاننگ کرکے عوام کے غصے کو کم کرنا پڑا اور ساتھ ہی اضافے کو واپس لینا پڑا ۔ اس لیے اگر حکومت نے 3لاکھ ٹن گندم باہر سے منگانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اگر گندم امپورٹ کرنی ہے تو اُسے ایک دو ہفتوں کے دوران ہی منگاکر مارکیٹ میں سپلائی کیا جائے کیونکہ جس کے آنے میں کم از کم ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگے گا اور اس وقت زیریں سندھ کی گندم تیار ہوچکی ہوگی تو امپورٹ کی ہوئی گندم عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں دے سکے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔