کشتِ جاں اور میت رے

نسیم انجم  اتوار 26 جنوری 2020
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بہت عرصے سے میں کچھ کتابوں پر لکھنے کی خواہش مند ہوں لیکن تنگی وقت آڑے آجاتی ہے اور ایسا موقع بھی میسر نہیں آتا ہے کہ کتابوں کی قطار اور ڈھیر سے اپنے مطلب کی کتاب یا کتابیں تلاش کرسکوں ساتھ میں حالات زمانہ کی تبدیلی کچھ اور لکھنے پر اکساتی ہے، انسان معاشرتی حقائق سے منہ نہیں موڑ سکتا ہے بہرحال ادب اپنی جگہ ہے۔ یہ ادب ہی تو ہے جو زمانوں کو رقم کرکے تاریخ کے صفحات پر محفوظ کردیتا ہے اور ماضی میں درج ہونے والے اوراق گزرے وقتوں اور واقعات کا پتہ دیتے ہیں۔

اس چھوٹی سی تمہید کے بعد میں ڈاکٹر تنویر انور خان کے افسانوں اور ناولوں پر بات کروں گی ، اس کے ساتھ ہی شہری مجموعہ ’’کشتِ جاں‘‘ بھی میری توجہ لکھنے پر مبذول کرا رہا ہے، کشتِ جاں کی شاعرہ ثریا حیا صاحبہ ہیں ، ان کی کتاب کی تقریب حال ہی میں پریس کلب میں ہوچکی ہے۔ مقررین نے دل کھول کر ان کے شعروسخن پر داد دی۔ زیب اذکار حسین، محمود شام اور دوسرے ناقدین نے ان کے شعری محاسن کو سراہا۔

ڈاکٹر تنویر خان کی کتابیں بھی قارئین کی توجہ اپنی طرف مائل کر رہی ہیں۔ تنویر انور خان پانچ کتابوں کی مصنفہ ہیں، تین افسانوی مجموعے زنجیریں، پرچھائیں اور عکس، پانی کا بلبلہ اور ناولٹ کے اعتبار سے دو کتابیں شایع ہوئیں۔ ایک کا عنوان ہے ’’ وہ کاغذ کی کشتی ‘‘ اور دوسری کتاب میں ناولٹ کے ساتھ افسانے بھی شامل ہیں عنوان ہے ’’میت رے‘‘۔ ڈاکٹر تنویر عرصہ دراز سے بہترین افسانے تخلیق کر رہی ہیں اور داد وصول کر رہی ہیں۔

ادب کے قدآور ناقدین نے ان کی تحریروں پر اپنی رائے کا اظہار اس انداز میں کیا ہے کہ مصنفہ مزید لکھنے پر مائل ہوئیں اور تھوڑے ہی عرصے میں شبیر احمد انصاری کی کاوشوں کی بدولت ان کی کتابیں اپنی تخلیقی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوگئیں۔ ڈاکٹر تنویر انور کا اسلوب بیان، سادہ اور دلکش ہے تحریر میں بلا کی روانی ہے کسی بھی جگہ ابہام یا الجھن قاری کو پریشان نہیں کرتا ہے ان کی تحریروں کا خمیر سچائی سے اٹھا ہے۔ انھوں نے معاشرتی زبوں حالی کو لفظوں کا پیکر عطا کیا ہے اور اپنی تحریروں کے خد و خال کو اس طرح ابھارا ہے کہ یہ افسانے آئینے کے روپ میں سامنے آگئے ہیں جس میں ہر شخص اپنی تصویر، اپنا کردار دیکھ سکتا ہے۔

ڈاکٹر تنویر کو اللہ نے تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور پھر ڈاکٹر جیسے پیشے سے منسلک رہی ہیں بے شمار لوگوں سے ملاقاتیں رہیں اس طرح ان کے تجربات و مشاہدات میں اضافہ ہوا۔ ان کے ناولٹ ہوں یا افسانے قاری کے لیے سحر انگیز ہوگئے ہیں۔ وہ کردار نگاری اور منظر نگاری کے فن میں مہارت رکھتی ہیں ، ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’پانی کا بلبلہ‘‘ کا پہلا افسانہ ’’اڑتا پنچھی‘‘ سے چند سطور …کیا خوب عکاسی کی ہے۔

’’میں نے گیٹ کھول کر دیکھا، سانولی سلونی پرکشش چہرے والی عورت، عنابی پھول دار ڈھیلے ڈھالے کپڑے، لمبی سی قمیض، بھربھر ہاتھ موٹی موٹی سرخ ہری کانچ کی چوڑیاں، ناک میں چوڑی سی کیل اور بلاق تھا ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں میں موٹی موٹی انگوٹھیاں جن میں فیروزی، سرخ اور سبز نگینے تھے، گلے میں لمبا سا چاندی کا ہار تھا اورکانوں میں چاندی کے بڑے بڑے بالے، اس کی بڑی بڑی کاجل بھری غزالی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں‘‘ ۔

افسانوں کی ہی طرح ان کے ناول بھی بنت کے اعتبار سے دیرپا اثر رکھتے ہیں، پڑھنے والا پڑھتا چلا جاتا ہے، دلچسپی برقرار رہتی اور تجسس کی فضا بے چین رکھتی ہے، انھوں نے کرداروں کو ان کے ماحول کی زبان عطا کی ہے اسی لیے کردار اور مناظر متحرک ہوگئے ہیں ’’شگون کے پھول‘‘ میں دس افسانے شامل ہیں اور یہ سب افسانے سماجی تلخ و شیریں حالات و واقعات سے مرصع ہیں۔ ڈاکٹر تنویر کا اسلوب بیاں سادہ اور سچا ہے۔ حقیقت نگاری عیاں ہے کرداروں کا انتخاب انھوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول سے کیا ہے وہ جہاں بھی رہیں انھوں نے غور و فکر کے چراغ روشن کیے اور صفحہ قرطاس پر تخلیق کے خوش رنگ پھول بکھیرے۔ میں انھیں خلوص دل کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

اب بات کرتے ہیں شعری مجموعہ ’’کشتِ جاں‘‘ پر۔ اس کی تخلیق کار محترمہ ثریا حیا ہیں کسی بھی تخلیق کے عمل میں خون جگر کرنا پڑتا ہے تب کہیں شاہکار تحریروں کا ظہور ہوتا ہے۔ شاعرہ نے بھی زمانے کے سرد و گرم دیکھے ہیں، مسافتوں کی تھکن کو محسوس کیا ہے اور اپنے جذبات واحساسات کو شاعری کے پیراہن میں ڈھالا ہے۔ ثریا حیا کی شاعری کا آہنگ بلند ہے اور افکار میں حالات زمانہ کی گونج سنائی دیتی ہے اور یہی سچائی ان کا وصف ہے۔ انھیں شعر و ادب ورثے میں ملا ہے۔ ان کے والد صاحب محمد کامل دہلوی کا علم و ادب سے گہرا تعلق تھا۔

ثریا حیا کے ننھیال میں سید ولی اشرف (اشرف صبوحی) اور اخلاق احمد دہلوی جیسے نامور اہل قلم ہوئے۔ ثریا حیا کا تعلیمی سلسلہ بھی قابل تعریف ہے۔ انھوں نے جامعہ کراچی سے سیاست میں ایم اے کیا اور لکھنے کا ذوق طالب علمی کے ہی زمانے سے پیدا ہو گیا تھا اور تخلیقی جوہر اپنی بہار دکھانے لگا تھا۔ اور یہ سفر جاری و ساری رہا۔ ’’من آنم کہ من دانم‘‘ اپنے اس مضمون میں ثریا نے اپنی ادبی زندگی کے بارے میں روشنی ڈالی ہے اور ان شخصیات کا ذکر کیا ہے جن سے مل کر انھیں حوصلہ ملا اور انھی حضرات کی ہمت افزائی نے ثریا کو شعر کہنے کی طرف مائل کیا۔ بقول شاعرہ انھوں نے سلطانہ مہر سے بہت کچھ سیکھا۔

محسن بھوپالی کے مخلصانہ مشوروں نے انھیں آگے بڑھنے کے گُر سکھائے اور آج وہ ایک بہترین شاعرہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ وہ ایک قادرالکلام شاعرہ ہیں ان کی شاعری کی خصوصیت، سادگی، پرکاری اور سہل متمنع ہے۔ عشق اللہ اور عشق حبیبؐ کی محبت سے سرشار ہیں ۔ نمونے کے طور پر چند اشعار:

سرکار دو جہاں سے محبت کی بات ہے

میرے نبیؐ سے یہ میری نسبت کی بات ہے

عاجز ہے یہ زباں کہ مدحت کی بات ہے

نعت کا مطلع ہے:

جہاں تلک بھی میری فکر کی رسائی ہے

مدح سرکار لکھوں‘ دل یہ تمنائی ہے

بزم تخیل میں جو روشنی در آئی ہے

نوک خامہ نے اسی سے تو جلا پائی ہے

قلم کار دوسروں کی نسبت زیادہ حساس ہوتا ہے۔ معاشرتی کرب اور ناانصافی کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور پھر یہی کرب اس کی تحریروں میں در آتا ہے۔ قاری کو بھی اسی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے چین و سکھ کے چراغوں کی لو دھیمی ہو جاتی ہے اور ہر طرف حزن و یاس کی پرچھائیاں رقصاں نظر آتی ہیں۔ ایسے ہی سانحات اور سماجی ناانصافی کا اظہار انھوں نے اس طرح کیا ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’نماز جنازہ‘‘

خستہ تن ساتھیو! حق نگر دوستو، دشتِ امکاں کے شعلہ نفس شاعرو! کوچہ کوچہ چلو اور دیکھو، میرے شہر میں خون کتنا ہے ارزاں ہوا۔

ان کی غزلیات بھی تغزل کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔لکھتی ہیں:

مرے شوق تشنگی کو اذنِ معتبر دو

کہیں پاؤں تھک نہ جائیں انھیں دعوت سفر دو

مرا دل ہے ایک کوزہ تیری چاہتیں سمندر

جو انھیں سمیت پائے کوئی ایسا کوزہ گر دو

میری دعا ہے کہ ان کے علم و فن میں اللہ مزید وسعت اور بلندی عطا فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔