تھر کا سحر

شبیر ابن عادل  اتوار 16 فروری 2020
دنیا کے نویں بڑے صحرا کے سفر کا قصہ۔ فوٹو: فائل

دنیا کے نویں بڑے صحرا کے سفر کا قصہ۔ فوٹو: فائل

اچانک فون کی آواز سے میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا، دوسری طرف میرحسین تھا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ بول اٹھا:
“ارے یار شبیر! جلدی سے پیکنگ کرلو۔ فوری”
“کیوں ؟ کیا دشمن ملک نے حملہ کردیا ہے یا کوئی زلزلہ آنے والا ہے؟”

“ارے نہیں یار! ایسا کچھ نہیں ہے، بات یہ ہے کہ ہمیں فوری تھرپارکر چلنا ہے۔” اس نے ہنس کر جواب دیا اور پھر کہا کہ “بات یہ ہے کہ پورے سندھ میں بارشیں ہوئی ہیں اور ایسے میں صحرائے تھر کی خوب صورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے ہمیں فوراً تھر چلنا ہے، میں نے مقصود سے کہہ دیا ہے، وہ بھی تیار ہورہا ہے۔”
“تو۔۔۔ تو کیا ابھی چلنا ہے؟؟” میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
“نہیں، ایک ماہ بعد۔ ارے بھائی، اس وقت صبح کے نو بجے ہیں، ہم لوگ بارہ بجے تک نکل چلیں گے۔”
“ٹھیک ہے، ابھی تیار ہوتا ہوں۔” اس نے مزید کچھ باتیں کیں اور فون بند کردیا۔ میں چھلانگ لگا کر بستر سے نکلا، ناشتہ کیا اور سامان پیک کرلیا، پیک کیا کرنا۔ میرا سفری سامان ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ہم تینوں دوستوں یعنی میرے علاوہ میرحسین اور

مقصود کو جنون کی حد تک سیاحت کا شوق ہے۔ میں تیار ہوکر ٹیلی ویژن پر تازہ ترین نیوز بلیٹن اور نیوزاپ ڈیٹ دیکھنے لگا۔ پورے سندھ میں دھواں دھار بارشوں نے تباہی مچا دی تھی۔ ایسے میں سفر بہت سنسنی خیز اور کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتا۔ میں صورت حال سے پریشان ہونے کے بجائے لطف اندوز ہورہا تھا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میرحسین اور مقصود آگئے، میں سامان لے کر فوراً باہر نکلا۔ ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اگرچہ ہم لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، لیکن جب بھی اس قسم کے سفر کے لیے نکلتے ہیں، خوشی سے دیوانے ہورہے ہوتے ہیں۔ میں نے کار میں اپنا سامان رکھتے ہوئے کہا کہ آؤ، چائے پی لو، پھر چلتے ہیں۔”نہیں یار ۔ سپر ہائی وے پر چوہدری کے ہوٹل پر چائے پییں گے۔ مزا آجائے گا، دیکھ تو سہی، موسم کتنا سہانا، بلکہ عاشقانہ ہے۔” مقصود نے جواب دیا۔
اچھا چلو، چلتے ہیں ، یہ کہہ کر میں پچھلی نشست پر بیٹھ گیا اور پھر مقصود کو مخاطب کرکے کہا کہ “موسم عاشقانہ لگ رہا ہے۔”، “ہوں، کیا بات ہے ؟ کہیں کوئی چکر وکر تو نہیں چلا لیا یا ایسے موسم میں کسی کو دل تو نہیں دے بیٹھے؟ ” مقصود نے برجستہ جواب دیا۔

“ارے ۔ ایسا کچھ نہیں ہے، تمہیں پتا ہے ناں کہ ہم تینوں بس سیاحت کو دل دے بیٹھے ہیں۔”
“ہاں یہ بات تو ہے، ہماری محبوبہ تو سیاحت ہے۔ دل چاہتا ہے کہ وقت تھم جائے اور ہم گھومتے ہی رہیں۔” میر حسین بولے۔
اس کے بعد گپ شپ جاری رہی۔
موسم واقعی بڑا سہانا تھا، اگست کا مہینہ تھا، گہرا ابر چھایا ہوا تھا اور ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ میر حسین نے اپنے سی ڈی پلیئر پر بارش کی مناسبت سے سہانے گیت لگا دیے۔ کچھ دیر ہم تینوں سُر میں سُر ملا کر گاتے بھی رہے۔

ٹول پلازہ کراس کرنے کے نصف گھنٹے بعد نوری آباد سے پہلے ایک ڈھابا ہوٹل تھا، جس کا نام تو کچھ اور تھا، مگر ہم لوگوں نے اس کا نام چوہدری کا ہوٹل رکھ دیا تھا۔ اس کی چائے بڑی مزے دار ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی گرما گرم دودھ پتی چائے اور مزے دار پراٹھے آگئے۔ اس دوران ہم لوگوں کی جملے بازیاں اور گپ شپ جاری رہی۔

چائے سے لطف اندوز ہوکر ہم چل پڑے۔ ہمارا سفر مزے دار گپ شپ کے ساتھ جاری رہا۔ جامشورو سے آگے ہم نے سٹرک کے کنارے کھڑے پھل والوں سے کینو اور امرود خریدے۔ امرود بہت مزے دار تھے۔

ہم نے حیدرآباد میں لنچ کیا، شہر کے اندر نہیں گئے، بلکہ قومی شاہراہ پر ایک ریستوراں میں لنچ کرلیا۔ شام تک ہم میرپورخاص سے آگے نکل چکے تھے۔ راستے میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سفر بہت پُرلطف تھا۔ میرپورخاص سے آگے بڑھے تو میر حسین نے بیلاڑو (قصبے ) پر گاڑی روک دی، تھادل کی ایک مشہور دکان پر۔ اس کے تھادل کا پورے سندھ میں جواب نہیں، اس کی خاص بات اس کے جگ کے برابر بڑے بڑے گلاس ہیں۔ بھلے سے میں گھر میں ایک چھوٹے سے گلاس میں پانی پیوں، مگر بیلاڑو کے دیوہیکل گلاس میں پتا نہیں چلتا کہ کب تھادل ختم ہوا۔ جب تک دوسرا گلا س نہیں پیو، دل نہیں بھرتا۔ تھادل سندھ کا مشہور زمانہ مشروب ہے۔

اس وقت تک شام کے دھندلے سائے رات کی تاریکی میں تبدیل ہوچکے تھے اور ہر منظر کو گہرے اندھیرے نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ آسمان پرستار ے چمکنے لگے تھے۔ شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں ستارے زیادہ چمکیلے ہوتے ہیں، کیوںکہ مطلع بہت صاف ہوتا ہے۔

ہم نے رات بیلاڑو کے قریب اسحٰق گبول کے اوطاق (زرعی اراضی میں سندھ کے وڈیروں کے خوب صورت بنگلے) میں گزاری۔ وہ ہمارے اسکول کے زمانے کے دوست غلام محمد گبول کے بھائی ہیں۔

اگلی صبح سویرے ناشتے سے فارغ ہوکر ہم لوگ نکل کھڑے ہوئے۔ اسحٰق گبول نے سندھ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اجرک کا تحفہ دیا اور کئی تحائف کے ساتھ رخصت کیا۔ وہاں سے ڈگری، نوکوٹ اور دیگر قصبوں سے گزرتے ہوئے ہم عظیم صحرائے تھر میں داخل ہوئے۔

بارش کی وجہ سے صحرا میں ہر طرف ہریالی پھیل گئی تھی اور گہرے ابر کی وجہ سے موسم بہت سہانا لگ رہا تھا۔ تھر ویسے تو عام صحراؤں کی طرح ریتیلا ہے، مگر بارشوں میں سرسبز وشاداب ہوجاتا ہے۔

صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے ۔ ملک کا یہ سب سے بڑا صحرا اپنے اندر قدرت کے کئی خوب صورت رنگ سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں کہیں اڑتی ریت نظر آتی ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت، کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں پہاڑ، جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کا ہے اور کہیں تاریخی مقامات، مندر و مساجد ہیں۔ حدِنگاہ تک صحرا اور اس میں ایسے انوکھے درخت، جو بہت پراسرار نظر آتے ہیں۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس اور سروں پر مٹکے اٹھائے تھری خواتین۔ غرض یہ کہ قدرت کے دل کش مناظر کا شاہ کار صحرا فطری حسن سے پوری طرح مزین ہے۔ یہ ملک کا وہ خطہ ہے جو نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ صحرائے تھر بنیادی طور پر ہندوؤں، مسلمانوں، اور سکھوں سے آباد ہے۔ پاکستانی حصے میں سندھی اور کولہی آباد ہیں، جب کہ بھارتی ریاست راجستھان کی تقریباً 40 فی صد آبادی صحرائے تھر میں رہتی ہے۔ لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت اور گلہ بانی ہے۔ تھر کا بڑا حصہ صحرا پر مبنی ہے، یہاں کوئلہ، گیس، مٹی اور گرینائیٹ جیسی معدنیات موجود ہیں۔ پاکستانی علاقے میں اس صحرا کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد ہے۔ علاقے میں غربت، بے روزگاری اور پس ماندگی بہت ہے، حکومتیں بدلتی رہیں، مگر تھر کی حالت نہیں بدلی۔

تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر سے استفادے کے بڑے بڑے پروجیکٹ بنائے گئے، جو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوئے، البتہ اس سے وابستہ ذمہ داران کروڑ پتی ضرور بن گئے۔

تھر کا موسم شدید ہوتا ہے، گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ، جب کہ جون جولائی میں یہ صحرا آگ اُگلتا ہے۔ تھر میں چوماسہ کافی مشہور ہے جو چار مہینے رہتا ہے، صحرا کی خنک ہوائیں موسم کو خوش گوار بنا دیتی ہیں اور ان مہینوں میں پڑنے والی برسات سے شادابی اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ برسات سے پہلے چلنے والی ہوائیں اس قدر تیز ہوتی ہیں کہ تناور درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتی ہیں۔

صحرائے تھر کراچی سے چار سو کلومیٹر سے دور واقع ہے۔ وہاں جانے کے دو راستے ہیں، ایک کراچی سے ٹھٹھہ اور بدین سے گزرتا ہوا جاتا ہے اور دوسرا کراچی سے حیدرآباد ، میرپورخاص اور نوکوٹ سے تھر پہنچتا ہے۔ اس کا ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی ہے۔ اگر آپ تھر جانا چاہتے ہیں تو بسوں پر بھی جاسکتے ہیں اور اگر استطاعت ہے تو اپنی جیپ پر بھی۔ اس کے علاوہ کراچی کی بہت سی ٹریول ایجنسیاں بھی سیاحوں کو تھر لے کر جاتی ہیں۔ تھر میں گھومنے پھرنے کے بہت سے مقامات ہیں اور کھانے بھی مزے دار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کی دست کاری بھی اپنی مثال آپ ہے۔

تھر میں آبادیاں طویل فاصلوں پر قائم ہیں۔ ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ تک کا فاصلہ کئی میل کی مسافت پر ہے۔ زیادہ تر گاؤں بھٹوں کے دامن میں، کہیں صحرائی درختوں کے جھرمٹ میں یا پھر کہیں ریگستانوں میں پائے جاتے ہیں۔

مٹھی کے اطراف کے علاقوں میں صحرا کا حسن پوری طرح جلوہ گر ہے، جب کہ نگرپارکر میں سرسبز زرعی زمین اور گرینائیٹ کے پہاڑ دل کو اپنی طر ف کھینچتے ہیں۔ نگرپارکر کے قریب پہاڑی پر ہندؤوں کے قدیم مندر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ تھر میں جگہ جگہ مور ا س ماحول کو مزید خوب صورت بنادیتے ہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز پروڈیوسر اور رپورٹر کی حیثیت سے میرا کئی دفعہ تھرپارکر جانا ہوا۔ اس کی داستانیں پھر کبھی بیان کروں گا، لیکن میر حسین اور مقصود نے پہلی دفعہ صحرائے تھر میں قدم رکھے تھے۔ وہ اطراف کے مناظر میں کھو کر رہ گئے تھے، میں نے کہا کہ کیا ہوا یارو! کہاں کھو گئے ؟ “کہیں نہیں یار، عجیب سرزمین ہے، ہم تو حیران ہیں کہ نہ یہاں سوات، مری یا گلگت بلتستان کی طرح برف پوش پہاڑ یا لمبے لمبے درخت ہیں اور نہ کچھ اور، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عجب پراسراریت ہے، اس پورے ماحول میں ایسا حسن ہے کہ ہماری تو بولتی بند ہوگئی ہے۔” میر حسین نے کہا۔

“ارے یار! وہ دیکھو، پانی کے گھڑے اٹھائے رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس تھری عورتیں، ان کو ہم نے مختلف ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ کتنی اچھی لگ رہی ہیں، انہوں نے ماحول کو بہت رنگین بنا دیا ہے۔”مقصود بولے جارہا تھا۔

میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ “ارے ارے، کہیں اس رنگینی میں کھو مت جانا، اپنا سفر چھوڑ کر کہیں یہیں آباد مت ہوجانا۔”

“ہا ہا ہا، ارے یار ایسی کوئی بات نہیں، میں اور یہ۔۔۔۔ ہاہاہا۔ میں تو اس ماحول میں کھو گیا ہوں۔”

راستے کے خوب صورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم مٹھی پہنچ گئے، وہاںپریس کلب جاکر اپنے دوست اور پاکستان ٹیلی ویژن کے تھرپارکر میں متعین رپورٹر نند لال سے ملے، جو پہلے سے ہمارا منتظر تھا۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں مٹھی کے پریس کلب میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

اس نے ہمارے قیام کا انتظام ایک خوب صورت سے ریسٹ ہاؤس میں کرایا۔ ہماری منزل نگرپارکر تھی، جو خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

نند لال نے بتایا کہ خاندان میں شادی کے باعث وہ ہمارے ساتھ نگرپارکر نہیں جاسکتا، لیکن اس نے ہماری ملاقات کرشن شرما سے کرادی، جن کا تعلق مشہور شخصیت اور سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کی سماجی تنظیم بانہہ بیلی سے ہے اور وہ بھی اسی دن نگرپارکر جارہے تھے۔ لنچ کے بعد ہم تقریباً ساڑھے تین بجے نگر پاکر روانہ ہوئے۔

کرشن شرما وجیہہ شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ بہت بااخلاق اور یارباش قسم کی شخصیت ہیں۔ ہم تینوں تھوڑی ہی دیر میں ان کے دوست بن گئے، خاص طور پر مقصود نے ان سے بہت ہنسی مذاق شروع کردیا۔ کرشن بہت اچھے گلوکار بھی ہیں، میڈیا پر تو نہیں، وہ نجی محفلوں میں گاتے اور خو ب گاتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے، ان کی گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رواں تھی۔

سفر شروع ہوا تو میری فرمائش پر انہوں نے گیت شروع کردیے، کشور کمار کے انداز میں وہ اتنی خوب صورتی سے گارہے تھے کہ ہم تینوں دوست جھوم اٹھے۔ ایک تو موسم سہانا اور دوسرے کرشن شرما کی مدھر آواز۔

مٹھی سے باہر صحرائی علاقہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود تھا۔ یوں لگتا تھا کہ کرشن کے گیتوں پر پورا ماحول رقص کررہا ہو۔ تھوڑی دیر بعد مقصود اور میرحسین نے بھی ان کے ساتھ مل کر گانا شروع کردیا۔ لیکن اپنی بے سری آواز پر شرمندہ ہوکر تھوڑی دیر بعد خود ہی خاموش ہوگئے۔

اسلام کوٹ میں چائے کا دور چلا، اسی دوران پروگرام بنا کہ کوئلے کے ذخائر بھی دیکھے جائیں۔ کرشن فوراً تیار ہوگئے۔ چناںچہ ہم “تھارے جو تڑ” کے علاتے میں پہنچے، وہاں موجود پروجیکٹ انجینئرز نے ہمیں منصوبے کے بارے میں بتایا۔ جب شام

کے سائے گہرے ہونے لگے تو ہم اس علاقے سے روانہ ہوئے۔

ہم رات آٹھ بجے نگرپارکر پہنچے جو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ وہاں کرشن شرما ہمیں بانہہ بیلی کے ریسٹ ہائوس لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ تنظیم کا دفتر تھوڑے فاصلے پر ہے جب کہ یہ ریسٹ ہائوس ہے۔ ریسٹ ہائوس ایک بڑے رقبے پر تھا مگر اس کی عمارت Hut اسٹائل میں تھی۔ وہاں ہمارے لیے کھانا پکایا جارہا تھا۔

مقصود ڈرائیونگ سے تھک گیا تھا، اس لیے آرام کرنے لگا، لیکن میرحسین نے کہا کہ آئیں باہر واک کریں تھوڑی سی بھوک مٹائیں۔ ہم نے باہر مٹھائی کی دکان سے دال سیو لیے اور واک کرتے ہوئے کھاتے رہے۔ نگرپارکر میں ہندئووں کی اکثریت ہے۔

وہاں جگہ جگہ پرانے انڈین گانے بج رہے تھے، یوں لگا کہ جیسے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں ہوں۔ واک سے فارغ ہوکر ہم ریسٹ ہائوس پہنچے اور ٹی وی دیکھنے لگے۔ وہاں کیبل لگا تھا اور ہمارے علاوہ چار پانچ افراد اور تھے۔ وہ کوئی انڈین فلم

دیکھ رہے تھے۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پروین شاکر مرحومہ کے شعری مجموعے کا مطالعہ شروع کردیا، اس کے بعد کھانا لگایا گیا اور ہم نے ان کے سادہ سے کھانے کو مزے لے لے کر کھایا، کیوںکہ اس میں خلوص کی چاشنی تھی۔ کھانے

سے فارغ ہوکر کچھ دیر گپ شپ اور پھر کل کے لیے پلاننگ ہوئی۔ اس کے بعد ہم سونے کے لیے لیٹے، ایک کمرے میں پانچ چھ چارپائیوں پر بستر لگائے گئے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی ہم نیند کی وادیوں میں تھے۔

اگلی صبح سورج نکلنے سے بہت پہلے میں اپنی عادت کے مطابق بیدار ہوگیا، کیوںکہ میں سحر خیز ہوں۔ اپنے معمولات اور مزے دار ناشتے سے فارغ ہوئے۔ ہم نے اپنی کار وہیں چھوڑ دی اور کرشن شرما کے مشورے پر ان کی ہائی ایس وین میں روانہ ہوئے۔ چند منٹ بعد ہی ہماری ہائی ایس وین کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں تھی۔

اُس علاقے میں قدرتی حسن بکھر ا پڑا تھا۔ پتھریلے پہاڑ جن میں جگہ جگہ گرینائیٹ کی چٹانیں بھی ہیں۔ یہ وہی گرینائیٹ ہے جس کے پتھر سے تیار ہونے والے ٹائلز شہروں کی عمارتوں کو حسن بخشتے ہیں۔ اُس پہاڑی سلسلے میں ایک جگہ ہماری وین رک گئی آگے گاڑی کے جانے کا راستہ نہ تھا۔ ہم لوگ گاڑی کو معہ ڈرائیور چھوڑ کر پیدل آگے بڑھے۔ راستہ ہموار تھا البتہ دو یا تین مقامات پر چڑھائی تھی۔ ڈیڑھ دو کلومیٹر چلنے کے بعد ہم ساردھرو پہنچ گئے، جہاں ہندئووں کے مندر اور مقدس تالاب تھا۔ میر حسین مندر میں جانے کے بجائے اس کے اوپر پہاڑی پر چلے گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہاں صدیوں پرانے درخت تھے اور منظر بہت اچھا تھا، اس سحرانگیز فطری ماحول نے ہمیں جکڑ لیا تھا۔ ہمیں اندازہ نہیں ہوسکا کہ کب مقصود اور کرشن بھی وہاں آگئے۔

وہاں سے اتر کر ہم کرشن کے پیچھے ایک تنگ راستے پر چلتے ہوئے ایک دروازے سے گزرے، جس سے نکلنے کے بعد پتھریلی چٹانوں میں ہندئووں کا مقدس تالاب تھا۔ وہاں بلندی پر ایک چٹان پر چند مور بیٹھے تھے جو ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ گئے۔ اس کے بعد ہم مندر میں آئے۔ جہاں مندر کے سامنے پجاری کی رہائش کے کمرے اور بہت بڑا کچن اور وسیع دالان تھا۔ وہاں بہت آرا م سے بیٹھ گئے۔ انہوں نے ہمیں چائے کے لیے روکا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ دو پجاری اور ان کے چار خدمت گار! اِن لوگوں کی گزر بسر کیسے ہوتی ہوگی؟ ایک پجاری نے بتایا کہ یہاں سال میں دو مذہبی تہوار ہوتے ہیں جن میں شرکت کے لیے پاکستان کے علاوہ بھارت سے سے سیکڑوں ہندو یاتری آتے ہیں۔ یعنی آنے والے مندروں میں چڑھاوے بھی چڑھاتے ہوں گے، جن سے اِن لوگوں کی نہ صرف یہ کہ گزر بسر ہوتی ہے، بلکہ مندروں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔

وہاں سے فارغ ہوکر اپنی وین تک چلے۔ وین پر بیٹھنے جاہی رہے تھے کہ ایک دس گیارہ سال کا لڑکا ملا جس نے کہا کہ میں صرف چھ منٹ کے اندر سامنے والی پہاڑی پر چڑھ کر واپس آسکتا ہوں۔ میرے ہاں کہنے پر وہ واقعی کسی بندر کی طرح بھاگتا اور چھلانگیں مارتا ہوا پہاڑی پر گیا اوپر جاکر ہاتھ ہلایا اور پھر بھاگتا ہوا واپس آگیا اور وہ بھی چھ منٹ کے اندر۔ پھر مجھ سے پیسے مانگنے لگا میں نے اس کوسو روپے دیے اور اس کی آنکھوں میں خوشی کی ایسی چمک دیکھی جو مجھے اب بھی یاد ہے۔

تیسرے پہر نگرپارکر کے ریسٹ ہائوس میں، جہاں ہم مقیم تھے، کھانا کھاکر کاسبو روانہ ہوئے۔ بھارت کی سرحد سے ملحق اُس قصبے میں سیکڑوں مور پائے جاتے ہیں۔ ہماری راہ نمائی کے لیے ڈاکٹر شنکر لال ساتھ تھے۔ ان کی رہائش گاہ بھی کاسبو میں ہے۔

کاسبو پہنچے تو عجیب منظر دیکھا کہ سارے گھر چونرے کی صورت میں ہیں۔ چونرا تھر کے خاص قسم کے جھونپڑے کو کہتے ہیں۔ یہ 10 سے 12 فٹ کے دائرے میں گندم کے بھوسے میں ٹاٹ یا روئی ملے مٹی کے گارے سے گول دیوار نما شکل میں تیار کیا جاتا ہے، گول دیوار کے اوپر لکڑیوں سے فریم بنایا جاتا ہے، اور پھر فریم کے اوپر صحرائی گھاس کی چھتری نما چھت بنا کر آہنی تار یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔

کاسبو سے باہر نکلنے کے بعد ایک اور گائوں کے قریب مندر میں گئے، جس کے احاطے میں موروں کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ڈاکٹر شنکر لال ہمیں قریب ہی واقع ایک اور مندر میں لے گئے جہاں پجاری نے بتایا کہ شام کو یہاں سیکڑوں مور آتے ہیں۔ شام ہورہی تھی اور ہم نے دیکھا کہ اس مندر کے احاطے میں درجنوں مور ہیں۔ اسی دوران پجاری نے ہمارے لیے چائے کا انتظام کردیا۔ اُس احاطے میں جہاں ایک طرف مور رقص کررہے تھے چائے پینے میں بہت ہی مزا آیا۔ اسی دوران مقامی لوک گلوکار یوسف مل گیا جس نے ضد کرکے مندر کے احاطے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے پاس ہارمونیم اور طبلہ بھی تھا اور اس کے دو ساتھی بھی۔ اُن کی وجہ سے پورے ماحول میں جان پڑگئی۔

جب ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ ہم کاسبو میں آئے تو ڈاکٹر شنکر لال اپنے گھر لے گئے اور چونرے (تھر کے روایتی جھونپڑے) کے باہر کرسیاں بچھا کر ہمیں بٹھایا اور جلدی جلدی چائے کا انتظام کیا۔ چائے سے فارغ ہوکر ہم باہر نکلے تو سورج غروب ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہر طرف اندھیرے کا راج ہوگیا اور کچھ فاصلے پر ایک طویل لائن میں لائٹس روشن ہوگئیں۔ ہمارے ڈرائیور نے بتایا کہ یہ انڈین بارڈر ہے جسے دیکھ کر بہت عجیب سا احساس ہوا۔ اندھیرا ہونے کے بعد نگرپارکر میں اپنے ریسٹ ہائوس پہنچے۔ سارا دن کام اور سفر کرکر کے تھک گئے تھے، کھانے کا انتظار کیا اور کھانے کے بعد ہی سوگئے۔

اگلے روز سورج طلوع ہونے سے بہت پہلے میری آنکھ کھل گئی۔ ناشتے کے بعد ہم نے دکھی دل کے ساتھ نگرپارکر کے خوب صورت علاقے کو الوداع کہا ۔ ہم واپس مٹھی جارہے تھے ۔

“یار اتنے خوب صورت علاقے کراچی کے قریب ہیں اور پھر بھی لوگ تفریح مری اور سوات کا طویل سفر کرتے ہیں۔”مقصود بولا

“صاف بات ہے، سرکار کی توجہ اس طرف نہیں، ورنہ اگر ان سیاحتی مقامات پر کام کیا جائے تو کراچی کیا، پورے ملک اور بیرون ملک سے سیاح بھی ان علاقوں میں آئیں۔ ” میر حسین نے جواب دیا۔ کرشن نے بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور تجزیہ پیش

کیا۔

راستے میں نگرپارکر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر بوڈیسر کی تاریخی مسجد تھی جس کی ہم نے زیارت کی۔ وہاں سے ہم گوڑی گائوں گئے اور سیکڑوں سال پرانے گوڑی کا مندر دیکھا۔ وہاں سے ہم لوک داستانوں کے مشہور کردار ماروی کے گائوں گئے۔ میرحسین نے کنوئیں میں اپنا سر ڈال دیا۔ “اے بھائی، کیا ماروی کو تلاش کررہے ہو؟ وہ ملنے والی نہیں، یار۔” مقصود نے فقرہ چست کیا، میر نے حسب عادت کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ کنویں سے سر نکال کر مسکرا کر ہمیں دیکھنے لگا۔ ہمارے میزبان کرشن شرما ہماری راہ نمائی کررہے تھے۔

پھر ہم اسلام کوٹ روانہ ہوئے، جہاں پہنچتے پہنچتے دوپہر بھی ڈھل چلی تھی اور پیٹ میں واقعی چوہے دوڑ رہے تھے۔ لیکن وہاں ڈھنگ کا کوئی ہوٹل نہ تھا۔ مقصود میاں اور کرشن کا خیال تھا کہ ہم کھانے کے بجائے کچھ ہلکی پھلکی چیزیں کھاکر چائے پی لیں۔ چناںچہ ہم نے یہی کیا۔

اس کے بعد ہمارا رخ مٹھی کی جانب تھا، راستے میں سوائے کرشن کے چند مدھر نغموں کے ہم سب چپ چاپ بیٹھے رہے۔

مٹھی پہنچ کر ہم پریس کلب گئے جہاں نندلال ہمارا منتظر تھا۔ اس نے کہا کہ ہماری رہائش کا انتظام سرکٹ ہائوس کے بجائے ڈیزرٹ ریسٹ ہائوس میں ہوا ہے۔ وہ ہمیں ریسٹ ہائوس لایا، جو مٹھی کے مین بازار کے درمیان ہی واقع ہے۔ اچھا خاصا صاف ستھرا ریسٹ ہائوس تھا اور ا س کے کمرے بھی اچھے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی ہم گہری نیند سو گئے۔

اگلی صبح ایک بہت عمدہ ریستوراں “ڈان “کے نام سے بن گیا ہے جو ماضی میں نہ تھا، وہاں ناشتہ کیا، بہت مزے دار ناشتہ تھا۔ اس کے بعد ہم نے مٹھی کے روایتی بازار کی سیر کی اور وہاں سے ملبوسات، دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ شہد بھی خریدا۔ پھر کرشن شرما سے الوداعی ملاقات کرنے بانہہ بیلی کے دفتر گئے۔ انہوں نے زبردستی چائے پلائی۔ بارہ بجے مٹھی سے نکلے اور متبادل راستے سے سفر کرتے ہوئے بدین پہنچے، جہاں اپنے عزیز دوست ملک الیاس کو فون کیا، جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بدین سے گزر رہا ہوں تو وہ بضد ہوگئے کہ لنچ کے بغیر یہاں سے چلے گئے تو زندگی بھر تمہاری منحوس صورت نہیں دیکھوں گا تو میری ہنسی نکل گئی۔

میرے کہنے پر میر نے گاڑی کا رخ ملک الیاس کے پیٹرول پمپ کی طرف کردیا، جہاں اس نے پیٹرول پمپ کے آفس کے اوپر دو آرام دہ کمرے بنارکھے تھے۔ وہاں ہم تازہ دم ہوئے

اور لنچ کیا۔ اس وقت چکن کڑاہی اور میٹھے پانی کی فرائی مچھلی اتنی مزے دار لگی کہ بیان نہیں کرسکتے۔

بدین سے روانہ ہوئے تو راستے میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی، مقصود تو کار کے عقبی حصے میں جاکر سوگیا۔ میر حسین ڈرائیونگ کرتا رہا اور میں اس سے گپ شپ۔ ہم کراچی پہنچے تو رات کے نو بج چکے تھے۔ میں نے اس یادگار سفر کی فوٹوز اور ویڈیوز بنائی تھیں۔ بعد میں ایڈٹ کرکے یوٹیوب پر اپنے چینل پر اپ لوڈ کردیں۔ زندگی میں سفر تو بہت کیے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، لیکن صحرائے تھر کا وہ سفر اب بھی یاد کرتا ہوں تو اس کے سحرانگیز مناظر بہت لطف دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔