حکومت کے کامیاب رابطے، پاکستان سفارتکاری کا مرکز بن گیا

ارشاد انصاری  بدھ 19 فروری 2020
خارجی سطح پر پاکستان اپنا کیس بھرپور انداز سے لڑا رہا ہے۔

خارجی سطح پر پاکستان اپنا کیس بھرپور انداز سے لڑا رہا ہے۔

 اسلام آباد: بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میںمستقبل کی فیصلہ سازی  اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اپنی جیو سٹرٹیجیکل پوزیشن کے باعث پاکستان اس وقت عالمی سفارتکاری کا محور بنا ہوا ہے، عالمی طاقت کے توازن کے تعین میں نئی صف بندی میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

ملائیشیا سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے ملائیشیا اور ترکی جیسے دوستوں کو وقتی طور پر مایوسی ضرور ہوئی تھی  اور اس کانفرنس کے بعد ملائشیا و ترکی کی  پاکستان کے ساتھ دوریوں کے تانے بانے بننے والے مہروں کو اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے دورہ ملایشیاء میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اگرچہ وزیراعظم عمران خان کے ملایشیا میں خطاب پر مختلف سیاسی و سفارتی حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی اور اسے سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ فاصلوں کے بڑھنے کا باعث بھی قرار دیا گیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ان ممالک کی حمایت سے ہاتھ دھونے کی بھی باتیں ہوئیں اور اسی قسم کی باتیں ملائشیا سمٹ میں عدم شرکت کے بعد کی جا رہی تھیں کہ فیٹف میں ترکی اور ملائشیا شائد اب پاکستان کی حمایت نہیں کریں گے اور اس کے بارے میں بھارتی لابی نے بھی خوب پراپیگنڈا کیا مگر وزیراعظم عمران خان کے حالیہ ملائیشیا کے دورے اور اب ترک صدر جناب طیب اردوان کی پاکستان آمد اور اہم شعبوں میں تعاون کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے تجدیدی عمل سے مایوسی کے تمام بادل چھٹ گئے ہیں۔

اس دورے میں ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ پاک ترک تعلقات دنیا کیلئے قابلِ رشک ہیں۔ ہم پاکستانیوں کیلئے یہی تقویت نہیں کہ ترک قیادت ہمارے بزرگوں کے کردار کی معترف ہے بلکہ وہ آج تاریخ کے ان سنہرے ابواب کی روشنی میں ہی اپنی اور اپنے برادر پاکستان کی سلامتی و دفاع کی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہوئے باہمی مشاورت و تعاون کو اولیت دے رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب طیب اردوان کے خطاب کی سطر سطر معنی خیز تھی اور یہ پاکستان، ترکی اور خطے کی مطلوب صورتحال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔

لگتا ہے کہ اردوان، مہاتیر اور عمران خان ایک جہانِ تازہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جس کا پیغام حقیقی امنِ عالم اور اس کا اہتمام بلاجھجک و ابہام ہے اور اردوان نے جس بھرپور انداز سے کشمیر بارے پاکستان کا مقدمہ لڑا ہے اور کشمیر سمیت دیگر معاملات میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا دنیا کو پیغام دیا ہے اس نے بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے اور بھارتی سرکار نے اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اس سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور پھر امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد  کے دورے نے بھارت کیلئے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ پاکستان امن و امان کے قیام کے اعتراف  میں ہے جس سے دنیا میں پاکستان کا ایک پرامن ملک کے طور پر حقیقی امیج ابھر کر سامنے آیا ہے اور یہ کمزور معدے کی حامل بھارتی سرکار کو ہضم نہیں ہوا اور عین ایسے وقت پر بلوچستان میں دہشگردی کی کاروائی کی گئی جب اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکہ نمائندہ خصوصی پاکستان میں موجود تھے اور اہم ملاقاتیں کر رہے تھے اور پاکستان کے پر امن امیج کو دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا اور حقیقت بھی یہی ہے جو کہ اب دنیا نے تسلیم کی جبکہ بھارت میں پاکستان سے کہیں زیادہ بدامنی اور حالات خراب ہیں مگر زبانی جمع خرچ اور لابنگ کے ذریعے میک اپ کرکے اپنا گھناونا چہرہ دنیا سے چھپا رکھا ہے جس کو اب پاکستان نے بے نقاب کیا ہے اور پہلی مرتبہ بھارت کو نہ صرف عالمی برادری کے سامنے  ناکامی کا سامن کرنا پڑا ہے بلکہ خود بھارت کے اندر مودی سرکار کو حالیہ انتخابات میں اسکی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے ۔

اب جب کہ افغانستان کا مسئلہ حل کے قریب ہے اور طالبان و امریکہ کے درمیان معاہدے پر دستتخط کی باتیں ہو رہی ہیں ایسے موقع پر بھارت اپنی روایتی شدت پسندانہ سوچ کے مطابق  خطے میں امن و استحکام کی ان کاوشوں کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بعض سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رواں ماہ متوقع دورہ انڈیا کے بعد واپسی پر پاکستان کے دورے کے امکانات  ہیں اور بھارت کسی طور یہ نہیں چاہتا کہ امریکی صدر پاکستان میں رکیں، اس لئے اسکی کوشش ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر سے یہ کھیل کھیلا جائے مگر پاکستانی عوام اور تمام سیاسی جماعتیں  اس معاملے میں اپنی مسلح افواج کے پیچھے کھڑی ہیں اور دشمن کے تمام عزائم پہلے بھی خاک میں ملائے ہیں اور اب بھی ناکام بنائے جائیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمی فیصلہ سازی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں اور اس کا اظہار پہلے بھی کئی بار کیا جا چکا ہے اور حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ اب مستقبل کی جو بھی فیصلہ سازی ہونے جا رہی ہے اس میں تمام عالمی رہنما پاکستان  کی یاترا کر رہے ہیں اور پاکستان میں عالمی رہنماوں کی آمد کسی اہم پیش رفت کی پیشگوئی کر رہی ہے۔ کچھ لوگ اس کو سفارتی کامیابی کہہ رہے ہیں کچھ نیا بلاک کی باتیں کر رہے ہیں، عالمی سطح پر بھی اس کو گہری نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

خارجی سطح پر پاکستان اپنا کیس بھرپور انداز سے لڑا رہا ہے اور ایک جانب آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرے اقتصادی جائزہ  کا عمل جاری ہے تو ادھر پیرس میں فیٹف کا اہم اجلاس جاری ہے جس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے مگر حافظ سعید کی سزا کے بعد اس معاملے میں بھی اہم پیشرفت ہوئی ہے اور اب پاکستان کا نام بلیک لسٹ ہونے کا تو بھارتی منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اب پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ کمپلائنس کرکے نام گرے لسٹ سے نکلوایا جائے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رواں ماہ بھارت کا دورہ نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے بھی نکل جاتا مگر اب لگ یہی رہا ہے کہ کچھ عرصے کیلئے پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا اور اب یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکی صدر اپنے دورہ  بھارت میں کیا لائن دیتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔