اٹارنی جنرل اور وزیرقانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر

ویب ڈیسک  بدھ 19 فروری 2020
اٹارنی جنرل کے الزام سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ججز کی جاسوسی کا عمل اب بھی جاری ہے، پاکستان بار کونسل کا مؤقف۔ فوٹو:فائل

اٹارنی جنرل کے الزام سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ججز کی جاسوسی کا عمل اب بھی جاری ہے، پاکستان بار کونسل کا مؤقف۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: پاکستان بار کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے دوران  اٹارنی جنرل بیرسٹر انور منصور کے مبینہ متنازع بیان پر پاکستان بار کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ججز پر لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے الزام سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ججز کی جاسوسی کا عمل اب بھی جاری ہے، اٹارنی جنرل نے جان بوجھ کرکھلی عدالت میں یہ بات کہی، اور اگر اس بیان میں صداقت ہوتی تو اٹارنی جنرل 133 دن تک خاموش نہ بیٹھتے، اٹارنی جنرل کا بیان سپریم کورٹ کو دباوٴ میں لانے، دھمکانے اوربلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: اٹارنی جنرل مواد پیش کریں یا معافی مانگیں، سپریم کورٹ

درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے جب یہ بات کہی تو اس وقت وزیر قانون فروغ نسیم بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، لیکن وزیر قانون نے نہ اٹارنی جنرل کو روکا اورنہ ہی مداخلت کی، اٹارنی جنرل نے اپنے ری جوائنڈر میں سپریم کورٹ کے ایک جج کو لاحق ذہنی بیماریوں کا بھی ذکرکیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ  وہ مرضی کے مطابق فیصلہ نہ آنے پر ججز کی تضحیک کرتے ہیں۔

درخواست میں استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل انور منصور، وزیر قانون فروغ نسیم، اور معاون خصوصی احتساب  شہزاد اکبر سمیت وفاقی حکومت کے کئی نمائندے جسٹس وقار احمد سیٹھ پر بھی گھناوٴنے الزامات لگا چکے ہیں، جسٹس وقار سیٹھ کے لیے ذہنی مریض اور نااہل ہونے جیسے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے گئے، عدالت سے درخواست ہے کہ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے اور وفاقی حکومت کے ان لوگوں کے خلاف بھی توہین عدالت کی کاروائی کی جائے جنہوں نے اٹارنی جنرل کو یہ بات کہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔