کورونا وائرس، خواتین کےلیے ایک امتحان

راضیہ سید  پير 6 اپريل 2020
اپنے گھروں میں رہنے والی ماؤں بہنوں اور اپنی بیگمات کا بھی خیال رکھیے۔ وہ بھی انسان ہیں، انہیں بھی آرام اور ذہنی سکون کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپنے گھروں میں رہنے والی ماؤں بہنوں اور اپنی بیگمات کا بھی خیال رکھیے۔ وہ بھی انسان ہیں، انہیں بھی آرام اور ذہنی سکون کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’ارے بیگم تم فارغ ہی تو ہو، آج آلو کے پراٹھے ہی بنا دو… کپڑے دھونے والی آئی نہیں، ظاہر ہے کہ اب تو خود ہی دھونا ہوں گے تمہیں، میری تو آج طبعیت ٹھیک نہیں کہ تمھارا ہاتھ ہی بٹا دیتا۔‘‘

’’ماما پلیز گڑیا نے میرے ٹیب کی سیٹنگ ہلا دی ہے۔ بابا مانی کو منع کریں میری نوٹ بک خراب کر رہا ہے۔‘‘

کورونا کے بعد یہ صورت حال اب کسی ایک گھر کی نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ گھروں پر محدود رہنے اور فراغت نے جہاں کورونا کے پھیلاؤ میں کمی کرنے میں مدد دی ہے، وہیں دوسری جانب خواتین خانہ کےلیے گھریلو کام اور ذہنی اذیت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ بچوں کے اسکول اور شوہر حضرات کے دفاتر جانے کے بعد یہ خواتین دوگھڑی تو سکون کا سانس لیتی تھیں لیکن اب ناشتے، کھانے اور چائے کا کوئی وقت ہی متعین نہیں۔

بچے ہیں تو وہ اسکول نہیں جا رہے اور ایک طویل مدت تک انہیں تعطیلات دے دی گئی ہیں۔ ان بچوں کی کوئی روٹین نہیں کیوں کہ انہیں کوئی ہوم ورک نہیں مل سکا، اس لیے کبھی پتنگیں اڑ رہی ہیں تو کہیں بہن بھائیوں کے ساتھ جھگڑے ہو رہے ہیں۔

والدین بچوں کے تعلیمی مستقبل کی غیر یقینی صورتحال کے حوالے سے پریشان ہیں، بچوں کی فیسوں کے بارے میں کئی مائیں یوں بھی متفکر ہیں کہ شاید چند دن اسکول کھل جائیں اور فیسیں لے کر پھر بند کر دیئے جائیں۔

شوہر حضرات بھی گھر پر ہی ہیں اور وہ خواتین جو معمول کے مطابق اپنے بجٹ کے حساب سے ایک ہانڈی پکاتی تھیں، اب انہیں فرمائشی کھانے بنانے پڑ رہے ہیں۔ گھر پر رہ کر میاں بیوی کے درمیان جن باتوں پر لڑائی نہیں بھی ہوتی تھی، وہ بھی معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ بچوں کی مار کٹائی، ڈانٹ ڈپٹ اور بحث و تکرار معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔

شوہر حضرات نہ دفتر جاسکتے ہیں نہ گھر سے باہر جا کر دوستوں سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں گھر پر مدعو کرسکتے ہیں۔

خواتین کا حال اس سے بھی برا ہے۔ وہ بھی کہیں نہیں جا سکتیں، سہیلیوں سے فون پر بات بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے ہاں بھی یہی منظر ہے اور لمبی بات پر شوہر سے سننا بھی پڑ جاتی ہے۔

باہر ہُو کا عالم ہے۔ اور تو اور شوہر حضرات کو سودا یا راشن کےلیے باہر بھیجنا پڑے تو ان سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہم اتنا چل کر تھک گئے ہیں، قریب کی دکانیں نہیں کھلی ہوئیں اور ہم نہیں جا سکتے، اتنا پیدل نہیں چل سکتے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ کورونا کی وجہ سے نوکر تو ہیں نہیں جو سودا سلف لاسکیں؛ اور ہم سب اتنی تن آسان قوم ہیں جو ذرا سا پیدل چلنے پر بھی ہانپنے لگتے ہیں۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ میں ان خواتین کی بات کر رہی ہوں جو متوسط طبقے کی ہیں کیونکہ زیادہ نقصان انہی کا ہوا ہے۔ پوش گھرانوں کی خواتین اتنا متاثر نہیں ہوئیں کیونکہ وہ اور ان کے بچے تو پہلے بھی 12 بجے تک سوئے رہتے تھے۔ ہاں البتہ ان کی سوشل لائف پر ضرور اثر ہوا ہے کہ کٹی پارٹیز نہیں ہوسکتیں یا کلب میں ہونے والی تقریبات میں شرکت نہیں ہوسکتی۔

ایک عام عورت تو ابھی ڈرائنگ روم کی صفائی کرکے ہٹی تو بچوں نے باتھ روم گندا کر دیا، واش روم کو دیکھا تو بچے باورچی خانے میں تاکا جانکھی کرنے لگے۔ بچے ہیں تو وہ سینیٹائزر کو مذاق سمجھ کر بار بار لگاتے ہیں اور جگہ جگہ پر ماسک بکھرے ہوئے اور ٹشوز کا انبار لگا ہوتا ہے۔ چھوٹے بچے ہیں تو ان کے پیمپرز بدلنے کا دھیان، ساس سسر کےلیے پرہیزی کھانے…

آخر ایک گھریلو خاتون کیا کچھ کرے اور کب تک کرے؟ بہت سے گھروں میں خواتین کا کوئی ہاتھ نہیں بٹایا جاتا۔ سارا دن وہ خدمت کے اصول پر کاربند رہتی ہے اور اس خدمت کے سفر میں اپنے آپ کو بھول جاتی ہے۔

سب خواتین ایسی بھی نہیں جو محلے میں روز چکر لگاتی ہیں اور گھریلو سیاست کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر کو ایک ترتیب سے رکھنے کی قائل ہیں لیکن کورونا میں سب اہل خانہ کے گھروں پر رہنے کی وجہ سے نہ گھر بہتر حالت میں ہے نہ وہ خود پر دھیان دے رہی ہیں۔

آپ مانیں نہ مانیں، ہم لوگ گھروں میں بیٹھ کر عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ غذا کھا رہے ہیں اور فرمائشی مرغن غذائیں، جیسے کہ کوئی تہوار ہو، کیونکہ جب آپ فارغ ہیں اور کوئی تعمیری کام نہیں کر رہے تو آپ کا دماغ صرف کھانے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ کوئی ورزش نہیں، کوئی جسمانی سرگرمی نہیں۔ وزن ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔

دوسری طرف اچھے خاصے متمول گھرانے کافی راشن ہونے کی باوجود ایسے راشن اکٹھا کر رہے ہیں کہ ناقابل بیان۔

ٹھیک ہے کہ کئی گھرانوں میں عبادات ہو رہی ہیں، لوگ تلاوت قرآن پاک بھی کر رہے ہیں، نمازیں بھی باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

ہمارے گھرانوں کی اکثریت ٹی وی کے پاس سے نہیں ہٹ رہی، سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے، خواتین کی زندگی بچوں اور بڑوں، دونوں نے اتنے دنوں میں عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔

آج صرف اتنا کہنا ہے کہ اپنے گھروں میں رہنے والی ماؤں بہنوں اور اپنی بیگمات کا بھی خیال رکھیے۔ وہ بھی انسان ہیں، انہیں بھی آرام اور ذہنی سکون کی اشد ضرورت ہے۔ خدارا خواتین کو اس ذہنی کورونا سے نجات دے دیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔