کورونا اوربے روزگاری

زمرد نقوی  پير 6 اپريل 2020
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیو یلپمنٹ کے ابتدائی تخمینے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایک کروڑ بیس لاکھ سے دو کروڑ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں، یہ تخمینہ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مختلف وزارتوں ، ڈویژنز اور عالمی عطیات کنندگان کی مدد سے لگایا ہے اور اس تخمینے میں جی ڈی پی شرح نمو کے حوالے ہونے والا خسارہ شامل نہیں ۔ ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ ہم نے تیزی سے بدلتی صورت حال کا تخمینہ لگانے کی اپنی کوشش کی ہے ، ابتدائی تخمینے کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اپریل سے جون کے درمیان پینتالیس ارب روپے خسارے کا تخمینہ ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تخمینہ پی آئی اے، پاکستان ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کو ہونے والے خسارے کی بنیاد پر لگایا ہے جب کہ اسٹاک مارکیٹ میں اب تک بارہ سو ارب سے 250ارب روپے تک کا خسارہ ہو چکا ہے ، ٹیکس آمدنی کے حوالے سے عہد ے دار کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کو آمد نی کے حوالے سے اپریل جون کے درمیان چھ سو ارب کا خسارہ ہو سکتا ہے ۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ ایف بی آر نے نظر ثانی شدہ ہدف باون کھرب روپے رکھا ہے یا 48کھرب۔ جب کہ ایک ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ایف بی آر رواں مالی سال کے اختتام تک زیادہ سے زیادہ چالیس کھرب روپے کے ٹیکس جمع کر سکتا ہے ۔ تجارت کے حوالے سے پلاننگ کمیشن کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمدات میں تیزی سے ساٹھ فیصد کمی ہو ئی ہے ، جب کہ برآمدات میں بھی دس فیصد تک کمی ہو سکتی ہے ۔ ملا زمتوں کے حوالے سے عہدے دار کا کہنا تھا کہ ایک کروڑ بیس لا کھ افراد بے روز گار ہو سکتے ہیں ۔ جو کہ عمومی ملازمتوں کا بیس فیصد ہے ۔

واضح رہے کہ یہ صرف ابتدا ئی اعدادو شمار ہیں جو وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں یعنی یہ کم بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ بھی ۔ مزید تفصیلات کے مطابق زرعی شعبے سے ایک کروڑ سے ایک کرو ڑ بیس لا کھ افرادبے روز گار ہو سکتے ہیں ۔ جب کہ بے روز گار ی سے سب سے زیادہ پنجاب متاثر ہو گا ۔ جب کہ سندھ میں اکتالیس لاکھ ،کے پی کے میں بیس لا کھ اور بلوچستان میں دس لا کھ افراد بے روز گار ہو سکتے ہیں ۔ تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنجاب کے بعد سندھ میں 33لاکھ اکتالیس ہزار افراد بے روز گار ہو ں گے ۔

جب کہ سب سے زیادہ متاثر افراد وہ ہو ں گے جو یو میہ اجر ت والے ہیں ۔ہما رے معاشرے کا کمزور ترین حصہ یہی ہے جس کا پوری قوم نے مل کر خیال رکھنا ہے ۔یہ طبقہ پہلے ہی خوراک کی کمی کا شکار ہے ۔ کو رونا کا آسان نشانہ یہی لو گ بنیں گے ۔کو رونا وائر س سے پیدا ہو نے والی ہو لناک صورت حال نے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں کو تبا ہ کن طور پر متاثر کیا ہے ، امریکا میں اس معاشی بحران نے 66لاکھ لوگوں کو بے روز گار کر دیا ہے اور سب کچھ پچھلے دو ہفتوں میں ہوا ہے جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے ۔ اس وبا کے سامنے امریکا جیسی طاقت بھی ایکسپوز ہو گئی ہے ۔

حال یہ ہے کہ وہاں ماسک تک دستیاب نہیں ۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ وائرس تو ہماری افواج سے بھی زیادہ طاقتور نکلا اور یہ کہہ کر امریکیوں کو ہلا دیا کہ آنے والے دو ہفتوں میں یہ وائر س دو لا کھ تک امریکیوں کو ہلاک کر سکتا ہے ۔ پاکستان میں بھی ایسے لو گ پا ئے گئے ہیں جن میں بظاہر اس وائر س کی کو ئی علا مت نہیں تھی ، یعنی وائر س صرف خطر ناک ہی نہیں بلا کا دھو کے باز بھی ہے ، امریکا میں فر وری میں یہی سو چا جا رہا تھا کہ کو رونا سے کچھ نہیں ہو گا ۔ لیکن آج دنیا میں سب سے زیادہ کیسز امریکا میں ہیں ۔ نیویارک میں ایک دن میں پند رہ ہزار لو گوں کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں ۔پاکستان میںاس وائر س کی ٹیسٹنگ کی رفتار بہت کم ہے ۔جب ٹیسٹ ہما رے ہا ں زیادہ تعداد میں کیے جا ئیں گے تب ہی پتہ چلے گا کہ مر ض کتنا پھیل چکا ہے ۔ شروع میں کورونا کا پھیلا ؤ سست ہو تا ہے جس کے نتیجے میں امریکی صدر سمیت فرانس کے سر براہ تک دھو کہ میں آگئے ۔ صرف ایک دو ما ہ میں یہ چھلا وے کی طر ح لا کھو ں کی آ بادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ وائرس نوجوانوں کو متاثر نہیں کر تا مزید یہ کہ کورونا گر میوں میں نہیں پھیلے گا ۔ سنگا پو ر میں کا فی گر می تھی جب کورونا نے اسے لپیٹ میں لیا ۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آسڑیلیا، برازیل اورامریکا کی کچھ ریاستوں میں گر می کے باوجود یہ وائر س تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ بچا ؤ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایسی جگہ جا نے سے ہر ممکن گریز کیا جائے جہاں ہجوم ہو کیو ں کہ ایسی جگہوں پر یہ وائر س تیزی سے پھیلتا ہے ۔ سب سے محفوظ جگہ گھر ہے ۔دردناک موت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کہ بلاوجہ گھر وں سے نہ نکلا جا ئے ایک تجزیہ نگار نے اسی وائرس کا دل چسپ تجزیہ کیا ہے کہ یہ وائرس صاف ستھرے ماحول میں پر وان چڑ ھتا ہے ۔

دلیل اس کی یہ ہے کہ امریکا اٹلی اسپین فرانس میں ایک دن میں ہزا روں ہلا کتیں ہوتی ہیں وہا ں بر صغیر میں روزانہ صرف دس بارہ ہلا کتیں ہو تی ہیں ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس خطے کی ما حولیات میں گندگی کی غلاظت کی وجہ سے وائرس جرا ثیم کا تنا سب بہت زیادہ ہے جس کو شکست دے کر ہمارا مدافعتی نظام مضبوط اور توانا ہے ۔ اس کے بر عکس انتہا ئی صاف ستھری فضا میں رہنے والے گو روں کے اندرونی دفاعی نظام کو جراثیم سے لڑ نے کا کو ئی تجربہ نہیں ہو تا ۔ اس کمزوری کی وجہ سے وہ بڑی تعداد میں کو رونا وائرس کا شکار بن جاتے ہیں۔ جو بات ہمارے مشاہدے میں روزانہ آتی ہے کوڑا چننے والے اور کوڑے سے اٹھائی غذائی اشیاء کھانے والے ہماری نسبت کم ہی بیمار پڑ تے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔