تلاشِ حق (تیسرا اورآخری حصہ)

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 6 اپريل 2020

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لمحے توقف کے بعد یوں اِرشاد فرمایا کہ ’’ اْن کے اِس طرح اچانک غائب ہوجانے سے میں گھبرا گیا اور اْن کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، اِسی اثنا میں مجھے قبیلہ بنی کلب کا ایک قافلہ ملا ، میں نے اْن سے پادری کے بارے میں دریافت کیا تو قافلے میں شامل ایک آدمی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ اونٹ پر سوارکرلیا ، یہاں تک کہ وہ مجھے تہامہ لے آئے اور یہیں مجھے دھوکے سے فروخت کردیا۔ مجھے ایک انصاری خاتون نے خریدا اور اپنے باغ کی دیکھ بھال پر مقررکردیا، یہ وہی دن تھے جب میرے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، مجھے جیسے ہی سیدی کے بارے میں اطلاع ملی تو میں نے اپنے باغ سے چند سوکھی کھجوریں لیں اور اْن کوکسی شے پر رکھا اور ختمی مرتبت ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوگیا۔

میں نے اْن کی محفل میںکچھ روشن چہرے والوں کو پایا اور اْن میں سیدِ عالم کے انتہائی قریب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تشریف فرما دیکھا۔ میں نے وہ کھجوریں لاکر اپنے پیارے نبی کو پیش کر دیں، آپ نے استفسار فرمایا کہ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں سمجھ گیا اور عرض کیا کہ ’’حضور! یہ صدقہ ہے‘‘رحمت اللعالمین ﷺ نے یہ سماعت فرما کر وہاں موجود اصحاب کوحکم دیا کہ ’’ تم لوگ کھا لو! ‘‘…مگر… آپﷺ نے اْس میں سے ایک کھجورکو بھی نہ اْٹھایا، میں اِس دوران وہیں بیٹھا آپ کو تَکتا رہا اور آپ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو منورکرتا رہا ، پھر میں نے چندکھجوریں اْٹھائیں اور ادب سے چلاگیا۔ دوسرے دن میں دوبارہ زائر بن کر ساقی کوثرکے دربار میں حاضر ہو گیا ، آج بھی میرے پاس کھجوریں تھیں، میں نے کل کی طرح ، انتہائی احترام وعقیدت کے ساتھ کھجوریں نبی مکرم ﷺ کو پیش کیں،آج بھی آپ کے انتہائی قریب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما تھے۔

آپ نے مجھے دیکھا، تبسم فرمایا اور دریافت کیا کہ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آقا ! ہدیہ ہے‘‘سید العالمین نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی اور پھر وہ کھجوریں خود بھی تناول فرمائیں اور اپنے اصحاب کو بھی کھلائیں۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں اِس منظرکشی کے دوران نم ناک ہوگئیں مگر آپ نے گفتگوکے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ میں نے اْسی لمحے اپنے دل میں اِس نتیجے کو پختہ کرلیا تھا کہ یہ باتیں تو اْن ہی نشانیوں میں سے ہیں جو مجھے پادری نے بتائی تھیں، اب میری خواہش تھی کہ میں ’’مہرنبوت‘‘ بھی دیکھ لوں اور اِس کے لیے میں ادب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے آقا کی پشت ِ مبارک کی زیارت کے لیے پیچھے چلا، اللہ کے رسول ﷺ میرے اضطراب سے آشنا تھے، لہٰذا اْنہوں نے اپنے مبارک کاندھوں کے پاس خوشبوئے مصطفی سے رَچے بَسے پیراہن کو ڈھیلا کر دیا تاکہ اْن کا متجسس غلام بائیں کاندھے کے کونے کے پاس اْس مہر نبوت کو دیکھ لے کہ جِسے دیکھنے والے عمر بھر اپنی آنکھوں کے مقدر پر نازکرتے ہیں۔

میں نے اْسے دیکھا، قدموں پر ہی گھوما اوراپنے سیدی کے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا، پَلکیں بھیگیں، رْخسار تَر ہوئے اور میں نے کہا ’’اَشھَدْ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ ، وَاَنَّکَ رَسْولْ اللّٰہ‘‘حضور ﷺ نے بدستور شفتانِ مبارک پر مْسکان کے نصیب جگاتے ہوئے مجھ سے پوچھا ’’آپ کون ہیں؟‘‘میں نے کہا ’’غلام ہوں‘‘ اور ساتھ ہی ساتھ میں نے اپنا پورا قصہ سیدِ عالم کے گوش گذار کر دیا اور یہ بھی بتلادیا کہ پادری نے مجھ سے کیا کہا تھا۔آقا ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ’’تم کس کے غلام ہو؟‘‘، میں نے عرض کیا کہ ’’ ایک انصاری خاتون نے مجھے اپنے باغ میں مالی رکھا ہوا ہے اور میں اْن ہی کا غلام ہوں‘‘حضور نے سنا اور صرف اِتنا ارشاد فرمایا ’’ اے ابوبکر!‘‘جواباً اْنہوں نے ادب سے عرض کیا’’ لبیک یا رسول اللہ‘‘اوریوں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے خرید کر آزاد کر دیا۔

آزاد ہوکر میںہمیشہ کی غلامی کے لیے اپنے آقا کی بارگاہ میں حاضر ہوا ، سلام کیا اور عشق وعقیدت کے سہاروں کے ساتھ آپ کے سامنے سرجھکا کر بیٹھ گیا،چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے لفظوں کو احترام کی لڑی میں پِرویا اور عرض کیا ’’ یارسول اللہ! آپ نصاریٰ کے دین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ ‘‘آپ نے ارشاد فرمایا ’’ نہ اْن میں کوئی چیز ہے اور نہ اْن کے دین میں کوئی چیز ہے‘‘ یہ سنتے ہی وہم نے میرے دل کو گھیرلیا، میں اندر ہی اندر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ ’’ وہ عبادتیں اور وہ ریاضتیں جو میں نے دیکھیں، اور میں جس شخص کے ساتھ تھاکہ جس نے معذورکا ہاتھ پکڑا تو اللہ نے اْسے شفا عطا فرما دی۔

وہ سب کیا تھا؟کیا اْن میں اور اْن کے دین میں کوئی خیرکی بات نہیں؟‘‘ اِسی اْلجھاؤ کے ساتھ میں واپس لوٹ گیا لیکن میرے رب نے اپنے حبیب ﷺ کے قلبِ اطہر پر یہ آیت نازل فرمائی کہ ’’یہ اِس لیے کہ اِن میں عالِم اور درویش ہیں اور یہ تکبر نہیں کرتے‘‘ (المائدہ آیت82)جیسے ہی یہ آیت نازل ہوئی، میرے مصطفی ﷺ نے فرمایا ’’ اے سلمان!یہی وہ لوگ تھے کہ جن کے ساتھ آپ تھے، آپ کے صاحب (اْستاد ) اور دیگر ساتھی نصاریٰ نہیں بلکہ مسلمان تھے‘‘ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ! قسم ہے اْس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میرے اْستاد نے حکم دیا تھا کہ میں آپ کی اتباع کروں اور میں نے اْس سے پوچھا تھا کہ ’’ تب بھی اگر وہ مجھے آپ کے دین کو تَرک کرنے کا حکم دیں؟‘‘ تو اْس نے کہا تھا ’’ہاں تب بھی!‘‘اور بے شک حق اْسی میں ہے جس کا آپﷺ حکم فرمائیں گے۔‘‘

چادرِ مصطفی ﷺ میں اہلِ بیت کا اعزاز پانے والے اِس عظیم المرتبت صحابی کے سفرِ تلاشِ حق میں بے شک یقین نے رہنمائی کی ، استقامت نے بکھرنے نہ دیا ، پختگی حوصلہ بڑھاتی رہی اور اطمینانِ قلب نے سچا عاشقِ رسول بنادیا۔ اِس طویل قصے میں ایمان کے سارے حصے ہیں، سلمان ؓ نے بتا دیا کہ جو مدینے میں بِکتے ہیں سرکار اْن ہی کو مِلتے ہیں، اپنے سیدی کو پانے کے لیے نفس کی لذتوں کوکھونا پڑتا ہے، ہرکَس و ناکَس کو اْستاد کے درجے پر فائز نہیں کیا جاتا بلکہ سکھانے والے کا عمل، اْس کے ساتھ سفر اورکچھ دِنوں کی گذر بسر ہی یہ تعین کرتے ہیں کہ اِس کے احکامات کو تعمیل کے سنگھاسن پر بٹھایا جائے یا تعمیرکی کوئی دوسری راہ لی جائے۔

سلمانؓ نے سکھا دیا کہ جو وراثت کی حراست میں ہو وہ قطعاً حق نہیں، حق تو وہی ہے جسے تلاش کیا جائے، واہموں کے درمیان تَن دہی سے ڈھونڈا جائے، سوال خاموش ہوںمگر جواب واضح، جو پھوارکی طرح آہستگی سے متلاشی اور پیاسے کو تَرکرے اور تشکیک کے تمام آڑھے ٹیڑھے نشانات ہمیشہ کے لیے مٹادے۔ سلمانؓ نے سمجھا دیاکہ نبی کے قریب ترکل بھی ابوبکرؓ تھے اور آج بھی ابوبکرؓ ہیں،یہ وہ نایاب مطیع ہیں جومحبوب کے لبوں سے ’’ اے ابوبکر!‘‘ سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ محبوب کیا چاہتا ہے اور یہ اْس چاہت کی تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ نچھاورکرنے کو ہی ایمان سمجھتے ہیں اور سلمانؓ نے سجا دیا اسلام کے گلشن کو، خود سپردگی کے خوش نما پھول سے کہ جس کی مہک میں ایک عجیب قوتِ گویائی اور اعتقاد کی سب سے جدا کشش ہے اور جو اْمت سے مسلسل کہہ رہی ہے کہ ’’جب نبی کے ہوجاؤ تو اپنے فہم کو بھی اْن کا غلام بناؤ، اگرجسم کسی اور سمت اور عقل کسی اور رْخ پر ہو تواللہ جل مجدہ کو اپنے حبیب کے ایسے غلام اچھے نہیں لگتے، ناز تو اْسی تحقیق کو زیبا ہے جو غلام کو اْس کے آقا سے مِلا دے یا اْن کے قدموں تک پہنچا دے ، باقی تمام تحقیقیں، فکرکی بے وجہ ریاضتیں اور وسوسوں کے پہلوؤں سے جنم لینے والے نکتے وہ سرکش سراب ہیں جو پیاسے کو تَھکا کر مارڈالتے ہیں۔

یقین کے بعد بے چینی نہیں، اطمینان کے بعد اضطراب نہیں ، سکون کے بعد طلاطم نہیں اور منزل کے بعد سفر نہیں، جو اْنہیں پالے وہ اپنے اعتبارکا خیمہ قرآن وسنت کے ہرے بھرے باغ ہی میں لگا لے کہ یہ وہ باغ ہے جہاں کے پھول مرجھایا نہیں کرتے اور درخت اپنے ثمر یوں ہی گِرایا نہیں کرتے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔