فکسرزکو کیا پھانسی پر چڑھا دینا چاہیے؟

سلیم خالق  پير 6 اپريل 2020

گذشتہ دنوں ایک جذباتی یوٹیوب ویڈیومیں جاوید میانداد کا یہ مطالبہ سنا، میں نے سوچا اگر اس بات پر عمل ہو جائے تو کئی’’ہیروز‘‘ کا کیا بنے گا، سابق عظیم اسٹار نے باتیں تو زبردست کیں جن پر تالیاں بجانے کا دل چاہا مگران کی اہمیت کیا ہے، کون ایسا کرے گا؟ میانداد ماضی میں پی سی بی کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے اس  وقت ان کی تنخواہ 5 لاکھ روپے ماہانہ تھی جو آج کل کے حساب سے بہت بڑی رقم ہے، نیوزی لینڈ میں ایک دن سابق چیئرمین اعجاز بٹ نے مجھے چائے پر بلایا، وہ خلاف توقع اچھے موڈ میں تھے تو میں نے پوچھ لیا کہ ’’آپ تو بڑے اصولوں کی باتیں کرتے ہیں تو جاوید میانداد صاحب کو کاغذی ڈی جی بناتے ہوئے کیوں نہیں سوچا‘‘، میں سمجھا تھا کہ وہ اس سوال پر آگ بگولہ ہو جائیں گے مگر خلاف توقع انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’بڑے عہدوں پر رہتے ہوئے بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو آپ پسند نہیں کرتے‘‘ گو کہ انھوں نے خود نہیں بتایا مگر میں جانتا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری سے دوستی نے میانداد کو یہ پوسٹ دلائی تھی۔

آج یہ سب مجھے اس لیے یاد آ گیا کہ اگر بطور ڈی جی وہ اس وقت فکسرز کو پھانسی پر چڑھانے کی تجویز دیتے تو شاید ان کے دوست مان لیتے، تب بات کی اہمیت بھی تھی مگر اس وقت کچھ ایسا نہیںکہا، پھر کوچنگ کے دور میں بھی  کئی ایسے واقعات ہوئے جنھیں لکھا تو بعض ’’ہیروز‘‘ ناراض ہو جائیں گے، تب بھی جاوید بھائی نے کچھ نہ کہا، چلیں اب بھی وہ اتنا بتا دیں کہ شارجہ میں ایک میچ سے قبل کیوں کھلاڑیوں سے حلف اٹھانے کی نوبت پیش آ گئی تھی، کس نے اس وقت بیٹ اٹھا لیا تھا، مگر میں جانتا ہوں وہ یہ سب کچھ نہیں کہیں گے، بات کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب آپ کے پاس کوئی پوسٹ ہو، ابھی تو بس یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ کر میرے جیسے جذباتی لوگ تالیاں بجا کر یہی کہیں گے واہ کیا صاف گو انسان ہے زبردست، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں بھی اس بات کے حق میں ہوں کہ فکسرز کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے، پھانسی تو خیر بہت دور کی بات ہے، البتہ تاحیات پابندی ضرور لگنی چاہیے۔

بدقسمتی سے ابھی قوانین ہی ایسے ہیں جس کی وجہ سے کچھ عرصے کی پابندی مکمل کر کے  کھلاڑی واپس آ جاتے ہیں، جسے بچانا ہو اس پر رپورٹ نہ کرنے کا چارج لگتا ہے جس سے وہ چند ماہ میں ہی دوبارہ ایکشن میں ہوتا ہے، ایک بار اس دلدل میں گرنے والا دوبارہ نکل نہیں سکتا، نجانے ایسے کھلاڑی کیسے بعد میں خود کومحفوظ رکھ پاتے ہوں گے، مسئلے کا حل  یہی ہے کہ آئی سی سی اور پی سی بی دونوں ایسے قوانین بنائیں جس میں بچنے کی کوئی گنجائش نہ ہو، ابھی تو کھلاڑی فکسنگ کر کے واپس آ جاتے ہیں اور سٹے باز انھیں مثال بنا کر نئے پلیئرز کے سامنے پیش کرتے ہوں گے کہ دیکھو اس نے خوب پیسے بنائے، معافی مانگی، تھوڑی سزا کاٹی پھر واپس آ گیا تم بھی ایسا ہی کرو، دیکھتے ہیں اس مسئلے سے کیسے نمٹا جاتا ہے ورنہ یہی کچھ ہوتا رہے گا جو اب ہو رہا ہے، عمر اکمل کے بارے میں بھی کہا گیا کہ ’’رنگے ہاتھوں پکڑا گیا کئی ٹھوس ثبوت ہیں‘‘ مگر پھر کیس رپورٹ نہ کرنے کا بنا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انھیں بچانے والے ایکشن میں آ چکے اور اب چند ماہ کی پابندی ہی لگے گی جس کا لاک ڈاؤن کے دوران ہی خاتمہ ہو جائے گا، پھر عمر اکمل ورلڈکپ میں ایکشن میں ہوں گے۔

یہی وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے متواتر ہمارے ملک میں ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں، پھر جب بورڈ حکام ’’زیروٹالیرنس‘‘ کی باتیں کرتے ہیں تو ان پر ہنسی آتی ہے،آپ ان کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پی ایس ایل کی لائیو اسٹریمنگ کا ایک غیرملکی جوئے کی کمپنی سے معاہدہ ہوگیا جس کا انھیں پتا ہی نہیں چلا، یہ بہت بڑا کیس ہے، ابھی تو حکومتی شخصیات کورونا سے جنگ میں مصروف ہیں، جب حالات نارمل ہوں گے تو ضرور اس کا نوٹس لیا جائے گا کہ آخر ایسا ہوا کیسے؟ پی سی بی کو کیوں اس کا علم نہیںتھا؟ موجودہ سی او او سلمان نصیر پہلے قانونی معاملات دیکھتے ہیں، وہ برطانیہ سے تعلیم یافتہ شخصیت ہیں کیسے انھوں نے یہ پہلو نظر انداز کردیا؟ کیا میڈیا پارٹنرسے معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ  وہ کسی جوئے کی کمپنی کو اسٹریمنگ رائٹس نہیں بیچے گی؟ اگر ہاں تو پھر اس نے ایسا کیوں کیا؟ اور اگر نہیں تو کیوں بورڈ نے یہ شق نہیں رکھی، یہ بیحد پیچیدہ معاملہ ہے۔

کئی سابق ٹیسٹ کرکٹرزنے غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے، بورڈ کو یقینی طور پر ایسا کرنا پڑے گا، خاموشی اختیار کر کے اس سے بچ نہیں سکتے۔ آخر میں کچھ محمد حفیظ کا ذکر کر لوں، انھوں نے عامر کی واپسی کے وقت بھی اپنی ’’اصول پسندی ‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹا تھا بعد میں جھپیاں ڈالتے بھی نظر آئے، اب شرجیل خان کے معاملے پر بھی وہ ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں، اگر مصباح نے انھیں مزید مواقع دیے تو اوپنر کے ساتھ بھی کھیلتے دکھائی دیں گے، ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘، اب پھر پی سی بی نے ان کا ’’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘‘ کردیا ، پھر سب اصول پسندی بھول جائیں گے، بات اسٹینڈ لینے کی ہے، اس کے لیے لوگ اپنے کیریئر بھی قربان کر دیتے ہیں، راشد لطیف جیسے کرکٹرز اسی ملک کے ہیں جنھوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور بڑا نقصان بھی اٹھایا، خیر دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے فی الحال تو کورونا کی تباہ کاریوں کے سبب سب کچھ جمود کا شکار ہے،امید ہے کہ جلد ہی عالمی وبا کے خاتمے سے دنیا پہلے جیسی ہو جائے گی، فی الحال تو بس اچھے وقت کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔