قوم کے ساتھ مذاق نہ کریں

عبدالقادر حسن  بدھ 6 مئ 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اقتدار کی غلام گردشوں میں نت نئی سازشیں اور فیصلے پروان چڑھتے ہیں جو ہماری قومی زندگی پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور جن کی وجہ سے ملک میں سیاسی نظام ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہتا ہے، ان سازشوں اور فیصلوں میں کون شامل ہوتا ہے ،کس کے مشورے عملی شکل میں ڈھلتے ہیں اور کون ان فیصلوں سے مستفید ہوتا ہے آج کے جدید ابلاغی دور میں یہ باتیں اب ڈھکی چھپی نہیں رہیں اور جیسے ہی کوئی سازش پروان چڑھتی ہے اس کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے۔

ان سازشوں کے کچھ شریک کار تو خود ہی اس صورت میں اقرار کر لیتے ہیں جب ان سازشوں کے نتیجہ میں ان کی دال نہیں گلتی یعنی یہ سازشیں ان کے منصوبوں اور ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہتی ہیں اور وہ اقتدار کی غلام گردشوں کاحصہ بننے سے رہ جاتے ہیں، وہی غلام گردشیں جن کا حصہ بننے کے لیے سازشوں کے جال بچھائے جاتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ اقتدار اعلیٰ کے حصول کے لیے اپنے ہی ملک اور عوام کے خلاف سازشوں کے جال بنتے ہیں، ان کا یہ فعل مکڑی کا ایک ایسا جالا نظرآتا ہے جو وہ بڑی محنت اور وقت لگا کر بنتے رہتے ہیں لیکن اچانک درمیان میں کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ یہ جالا اپنی کمزوری کے باعث ٹوٹ جاتا ہے اور اس میں گزرنے والوں کے لیے بغیر کسی رکاوٹ اور الجھن کے راستہ صاف ہو جاتا ہے اور وہ ان کی سازشوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ہماری سیاست ایسے ہی مکڑی کے جالوں کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے، کوئی مکڑی کا جالا بن کر دوسرے کے لیے راستہ بند کر دیتا ہے اور کوئی اس جالے کو توڑ کر اپنا راستہ ہموار کر لیتا ہے ۔ سیاسی استحکام کی اگر بات کی جائے تو وہ ہمیں کبھی نصیب نہیں ہوا جس کا بھی داؤ چل گیااور وہ پسند آگیا تو اقتدار کی مسند پر براجمان ہو گیا ۔ جمہوری قوتوںنے ہمیشہ غیر جمہوری طاقتوں کے پروردہ رہ کر اقتدار اعلیٰ حاصل کیا کسی کی ڈیل اچھی ہو گئی تو اس کی مدت مکمل ہو گئی اور اگر کوئی ڈیل سے منحرف ہو گیا تو اس کو سزا مل گئی۔ لیکن ان مفاداتی سمجھوتوں نے ملک پر گہرے اثرات مرتب کیے، پالیسیوں کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا جس کی وجہ سے ہم ترقی کی طرف قدم بڑھاتے بڑھاتے الٹے پاؤں چلنا شروع ہو گئے۔

یہ باتیں تو اب ایک مدت سے زبان زد عام ہیں کہ جو بھی حکمران آیا کسی اندرونی یا بیرونی ڈیل کے نتیجہ میں ہی آیاجس کی وجہ سے ملک کی داخلی سیاست اور جمہوریت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے اور ان مبینہ سمجھوتوں کے محرکات اور اعتبار کے حوالے سے جو اعتراضات وارد ہوتے رہے وہ اپنی جگہ قائم رہے ہیں اور اگر خالص سیاسی اور جمہوری نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن ان سیاسی سمجھوتوں کی وجہ سے ملک کی داخلی سیاست میں محاذ آرائی بہت بڑھ گئی ۔

حکومتوں نے اپنے سیاسی مخالفین کی احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان تلخی کے وہ باب لکھے گئے جن کی مثالیں نہیں ملتی، ان کا نقصان پاکستان کو ہوا اور ایک مفہوم میں آج تک پہنچ رہا ہے ۔اسی طرح اگر آج کی بات کی جائے تو اپوزیشن کی بڑی جماعت نواز لیگ اور حکومت کے درمیان تلخی اور کشیدگی اگر برقرار رہتی ہے تو اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ پھر انھی سازشوں کی صورت میں نکلے گا کہ اقتدار اعلیٰ کے حصول کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر سازشیں شروع ہو جائیں گی جو حکومت کے عدم استحکام کا باعث بنیں گی اور حکومت کی توجہ انتظامی امور سے ہٹ جائے گی اور وہ اپنی طاقت ان سازشوں کو کچلنے میں صرف کرنے پر مجبور کر دی جائے گی ۔اس وقت ملک کی معاشی حالت کسی سیاسی دھچکے کی متحمل نہیں ہو سکتی اس لیے سیاسی شخصیات اور مقتدر قوتوں کے درمیان افہام و تفہیم اور خوش اسلوبی سے معاملات آگے بڑھنا وقت کی ضرورت ہے ۔

سیاست دانوں کی ان محلاتی سازشوں کا اصل شکار عوام بنتے ہیں کیونکہ اقتدار کے حصول کے لیے پروان چڑھائی جانے والی سازشوں کے مضراثرات بالآخر عوام تک پہنچتے ہیں جو ان سیاستدانوں سے پہلے ہی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ ان کی حکومتیں دیکھ چکے ہیں اور انھی کی بری حکومتوں سے شہ پا کر غیر جمہوری حکمران ہمارا مقدر بنتے رہے ہیں۔

اس وقت جو سیاسی پارٹیاں سابقہ حکمران ہونے کی وجہ سے بڑی سیاسی جماعتیں ہونے کی دعویدار ہیں یہ وہی ہیں جن کو ایک نہیں تین تین بار حکومت میں آنے کا موقع ملا ہے مگر انھوں نے یہ موقع گنوا دیے اور ان کی مبینہ کرپشن کے قصے داستانیں بن کر لوگوں کی زبانوں پر ہیں جب یہ سننے میں آتا ہے کہ یہ کرپٹ سیاستدان پس پردہ ملاقاتوں اور پیغام رسانی کے ذریعے سے قوم کو ایک بار پھر خونخوار نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو لوگ ان سے ڈرکر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جمہوریت کا  راگ الاپنے اور عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے دعویدار کس طرح سازشیں کر کے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر ان پر مسلط ہونے کی کوششیں کرتے ہیں جن میں اکثر اوقات وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سازشی عناصر اپنے آقاؤں کو حکومت اور ملکی حالات کی ایسی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہ بوکھلا کر ان پر اعتبار کر لیتے ہیں اور یہیں سے ان کی ایک بار پھر کامیابی کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔عوام تو ان سے اپیل ہی کر سکتے ہیں کہ وہ قوم کے ساتھ مزید مذاق نہ کریںاور اپنے سازشی کھیل بند کر دیں جس کو دیکھ دیکھ کرپاکستانیوں کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔