کورونا وائرس: ٹرمپ کے چین پر الزامات، عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی کا اعلان

ویب ڈیسک  ہفتہ 30 مئ 2020
ٹرمپ نے چین پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت سے تعلق توڑنے کا اعلان کردیا۔ (فوٹو: فائل)

ٹرمپ نے چین پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت سے تعلق توڑنے کا اعلان کردیا۔ (فوٹو: فائل)

واشنگٹن ڈی سی: گزشتہ روز میڈیا سے ایک مختصر گفتگو کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کورونا وائرس کی عالمی وبا کےلیے چین کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے چین کے دباؤ میں آکر کورونا وائرس کا عالمی پھیلاؤ روکنے کےلیے بروقت ہنگامی اقدامات سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ ٹرمپ گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی بار یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ امریکا عالمی ادارہ صحت سے علیحدہ ہوجائے گا، تاہم کل انہوں نے اس فیصلے کا حتمی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کو دی جانے والی امریکی فنڈنگ روکنے پر جو رقم بچے گی وہ صحت سے متعلق دوسرے اور زیادہ اہم امور پر خرچ کی جائے گی۔

ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ عالمی ادارہ صحت کو دنیا میں سب سے زیادہ فنڈنگ امریکا سے ملتی ہے لیکن یہ ادارہ امریکا کے بجائے چینی مفادات کا پاسدار بنا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیلانے کےلیے چین کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

امریکا میں طبی ماہرین کی تمام تنظیموں نے ٹرمپ کے اس اعلان پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا ہے۔ علاوہ ازیں، بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی کی صورت میں امریکا ان مشترکہ کوششوں سے کٹ جائے گا جو دنیا بھر میں مختلف امراض کے خلاف کی جارہی ہیں، اس طرح نہ صرف امریکی حکومت بلکہ امریکی ادویہ ساز اداروں کو بھی شدید مالی و تجارتی نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔

امریکی تجزیہ نگاروں نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو اس صورتِ حال کا سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

بتاتے چلیں کہ اس وقت امریکا میں کورونا وائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد، دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس وبا کا پھیلاؤ روکنے میں ناکامی اور عام امریکیوں کے مسائل سے شدید غفلت برتنے پر کڑی تنقید کا سامنا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل چین کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جبکہ قبل ازیں وہ امریکی میڈیا پر بھی ’’جھوٹی رپورٹنگ‘‘ کا الزام عائد کرچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔