روٹی شوٹی

منصور ریاض  منگل 7 جولائی 2020
چوہدری برادران کا وزیراعظم کی دعوت طعام ٹھکرانا سرخ نہیں تو زرد سگنل ضرور ہے۔ (فوٹو: فائل)

چوہدری برادران کا وزیراعظم کی دعوت طعام ٹھکرانا سرخ نہیں تو زرد سگنل ضرور ہے۔ (فوٹو: فائل)

سیاست کا طفلِ مکتب بھی یہ ادراک رکھتا ہے کہ گجرات کے چوہدریوں کا یوں دعوتِ طعام ٹھکرا دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ مخصوص خاندانی کلچر، وضع داری اور ملن و شکایت کےلیے یہاں ’روٹی شوٹی‘ کی خاص اہمیت ہے، جس میں شکوے شکایتیں اگر رفع نہ بھی ہوں تو کھانے میں شریک ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ دل و دماغ کے دروازے کھڑکیاں سب چوپٹ کھلے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ برعکس ہوجائے، جیسے مسلم لیگ ق بمعنی گجرات کے چوہدریوں نے وزیراعظم کے پری بجٹ عشائیے میں شرکت نہ کرکے کیا، تو اظہار و ملن کا معاملہ شدید مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ چوہدریوں نے توقع اور اپنی سیاسی روایات کے عین مطابق مخصوص کھڑکی کھلی رکھی اور بجٹ منظور کروانے میں حکومت کی حمایت میں ووٹ ڈالے کہ مسلم لیگ ق بطور اتحادی جماعت اب تک موجود ہے۔

بجٹ کو تو خیر منظور ہونا ہی تھا، کیونکہ بجٹ میں تو بڑے بڑے اسٹیک ہولڈرز مقتدر اداروں سمیت شامل ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر مسلم لیگ ق کو، جبکہ اس نے اب تک علی الاعلان حکومتی اتحاد سے علیحدگی نہیں اختیار کی، ووٹ کیوں نہیں دینے تھے۔ ہاں! وزیراعظم کی دعوت عشائیہ میں نہ آنا ناراضگی کا واضح پیغام ہے۔ جب چوہدری صاحبان ایسے پیغامات دینے لگیں تو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ اشارے اوپر سے آرہے ہیں۔

بات کی حد تک تو کم از کم یہ مشہور ہے کہ چوہدری صاحبان کھلانے پلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جبکہ عمران خان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس خاص الخاص دعوت کو ٹھکرانے سے سیاسی پنڈتوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں۔ مائنس ون کی صدائیں الطاف حسین، نواز شریف، زرداری سے ہوتے ہوئے اب عمران خان تک بھی سنائی دینے لگی ہیں اور جب پاکستانی سیاست میں یہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوجائیں تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ مائنس ون کی ’فائن ٹیوننگ‘ کون کر رہا ہے۔ تبھی تو عمران خان نے اسمبلی میں حیرت انگیز انٹری دی، اور ’اُن‘ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سوا کوئی آپشن نہیں؛ اور ’’میں جاؤں گا تو میرے ساتھی (ٹائیگرز) ہی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ایسے موقع پر چوہدریوں کا دروازہ بند کرنا اور کھڑکی کھلی رکھنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

پاکستانی سیاست میں یہ بات بڑی حد تک عیاں ہے کہ سیانے ہونے میں کوئی بھی گجرات کے سیاسی خاندان کے پاسنگ تک نہیں۔ ایک وقت میں مولانا فضل الرحمان کو ’حکومتی آلو‘ کے طور پر اِن کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا لیکن مولانا دھرنے کا شاٹ کھیلتے ہوئے کلین بولڈ ہونے کے بعد اس کھیل میں بہت پیچھے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ بولڈ کرنے کا سہرا بھی حکومت کے بجائے حکومتی اتحادی چھوٹے چوہدری کے سر سجا تھا۔

ویسے تو تحریک انصاف سے حکومتی جوڑ کے بعد سے ہی چوہدری صاحبان کا کھنچاؤ کئی باتوں پر رہا ہے۔ اوّل تو پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی نے اسپیکر کا عہدہ ضرور سنبھال لیا لیکن تحریک انصاف نے چوہدری پرویز کو اس مورچے سے وزارتِ اعلیٰ کی طرف پیش قدمی نہیں کرنے دی، حتیٰ کہ بعد میں دھرنے کے باوصف مولانا کو سنبھالنے کا بھی مرمریں سا کریڈٹ دیا۔ نتیجتاً چوہدری پرویز الٰہی نے بھی خاموش رہ کر اپنے ضرورت پڑنے کے دنوں کا انتظار کیا۔

اس کے علاوہ چیمہ کی بطور نشانی حکومتی کابینہ میں نمائندگی تو ضرور رہی لیکن مونس الٰہی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کی بھاری بھرکم بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ بقول خود مونس الٰہی، عمران خان ’کابینہ جیولری سیٹ‘ میں مونس الٰہی جیسے ’ہیرے‘ کو برداشت نہیں کرسکتے۔

’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ سیاست میں اور خاص کر مخلوط حکومت میں وقتاً فوقتاً ایسی ناراضگی و کھینچا تانی کے ماحول اور اظہار کا سامنے آنا معمول کی بات ہے، خاص طور پر چوہدری صاحبا ن کی سیاست کے پیش نظر، جو اتنے قدم پیچھے ہٹنے میں طاق ہیں جن کا عام سیاستدان تصور بھی نہیں کرسکتے۔

بی این پی مینگل تو پہلے دن سے ہی روٹھی روٹھی ہے، لیکن اپنے پارلیمنٹرینز کی ناراضگی اور چوہدریوں کا روٹی نہ کھانا سرخ نہیں تو زرد سگنل ضرورہے کہ وزیراعظم مسلسل دو دن اس اسمبلی میں تقریر کرتے پائے گئے جسے وہ درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ ان اشاروں کو پارلیمنٹ سے باہر مسلم لیگ کی ’اندر والی تہہ‘ نے بھی محسوس کیا اور بقول شخصے، نواز شریف نے اِن ڈائریکٹ طور پر بجٹ منظور کروانے کی ہدایت کی، کیونکہ بجٹ منظور نہ ہونا نظام کو صفر کردینے کے مترادف ہوتا۔ یہاں تو چلتا نظام لپیٹ دیا جاتا ہے، تو رکا ہوا نظام کون برداشت کرتا۔ اسی تناظر میں اپوزیشن نے ’باادب باملاحظہ‘ وزیراعظم کی تقریر بھی سنی۔

حکومت بجٹ پاس کروا کر تھوڑا سا آگے کو ’کھسک‘ گئی ہے، لیکن ریاست منفی معیشت میں ’رِڑک‘ رہی ہے۔ اوپر سے عالمی جگ ہنسائی؛ زرتاج گل کے ’19 نکات‘ کو تو چھوڑیے، وزیراعظم کا مسلسل اصرار کہ پوری دنیا ’’ان کا متعارف کردہ لاک ڈاؤن فالو کر رہی ہے‘‘ چہ معنی دارد؟ اوپر سے پوری دنیا وزیر ہوا بازی کے انکشاف کی بدولت پی آئی اے کے ذریعے پاکستان کا بائیکاٹ کرتی نظر آرہی ہے، حالانکہ وزیر غلام سرور کوئی نئی ’لاٹ‘ نہیں۔ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ حکومت کی بالائی سطح سے ایسا ماحول بن گیا ہے کہ تجربہ کار بھی فرسٹریشن میں ملک و ریاست کےلیے شدید اندرونی و بیرونی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کی حکومت، خاص طور پر وزیراعظم، اپنی خوش فہمیوں کے باوجود شدید دباؤ کا سامنا کررہے ہیں، جس کا اظہار واضح طور پر ان کی تقریر سے ہی ہوجاتا ہے۔

سیاسی بھونچال میں قیاس ہے کہ وزیراعظم کو ’رام‘ کرنے کی بھی پسِ پردہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں لیکن پردے کے پیچھے والے خان کی ضد اور اکھڑ مزاجی کو بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ’اسٹیج‘ سے پھسلتے ہوئے پردے کو کھسکا کر ڈور ہلانے والوں کا پردہ بھی چاک کرسکتے ہیں۔ اسی پس منظر میں چوہدری صاحبان نے روٹی شوٹی تو نہیں کھائی لیکن کھڑکی ضرور کھلی رکھی، جہاں وزیراعظم ہاؤس سے انہیں مٹر پلاؤ اور قورمے کی خوشبو آتی رہی۔

اگر مائنس ون کی کوششیں مسلم لیگ ن کے اندر مسلم لیگ ن اور عمران خان کی ’مستقل مزاجی‘ کی بدولت ناکام رہیں تو چوہدری صاحبان اسی کھڑکی کے ذریعے وزیراعظم کو سماجی فاصلوں کی بدولت غیر روایتی ’ڈنگ‘ میں شرکت نہ کرنے کا عذر پیش کریں گے۔ امید ہے کہ عمران خان ایک بار پھر مسکراتے ہوئے یہ عذر قبول فرمائیں گے، بلکہ پہلے سے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ، چونکہ لاٹھی پہلے کی نسبت مضبوط اور سہارا کمزور ہوچکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منصور ریاض

منصور ریاض

بلاگر اردو میں تھوڑا لکھتے اور انگریزی میں زیادہ پڑھتے (پڑتے) ہیں، پڑھا لکھا صرف ٹیکنالوجی جاننے والوں کو سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔