دانش… ابنِ آدم کا اجتماعی ورثہ

امجد اسلام امجد  جمعرات 9 جولائی 2020
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

دیکھا جائے تو دنیا میں موجود اور وقت کے ساتھ نابود ہوجانے و الی کتابوں کی تعداد کا صحیح تو کیا کوئی نزدیک کا اندازہ لگانا بھی شائد ممکن نہیں کہ یہ کام فی الوقت کسی بڑے سے بڑے کمپیوٹر کے بس کا بھی نہیں، اسی طرح ان کتابوں میں جو دانش کی باتیں تھیں یا ہیں اُن کا بھی شائد کئی لاکھواں حصہ کسی بڑے سے بڑے پڑھاکو کی نظروں سے گزرا ہو، اس کے ساتھ ساتھ جو باتیں ابنِ آدم کے اجتماعی ورثے کے طور پر کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہو گئی ہیں اُن سے عملی طور پر استفادے کی شرح ، اعلیٰ تعلیم کے حامل لوگوں کے ہاں بھی بہت ہی کم ہے ۔

عام طور پر ان دانش پاروں کو جو لوگ پڑھتے ، لکھتے، بولتے یا استعمال کرتے ہیں وہ بھی زیادہ گہرائی میں جانے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے، خوش قسمتی سے میرے احباب میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنھیں اس حوالے سے استثنا کا درجہ حاصل ہے کہ یہ لوگ دنیا بھر کے علم و ادب ، مذاہب ، اخلاقیات اور تحریروں سے ایسی کمال کی اور گہری باتیں ڈھونڈتے اور اُن کی گہرائی تک پہنچتے ہیں کہ اُن کی طرف سے آنے والی ہر بات دماغ کو روشن اور رُوح کو سرشار کر دیتی ہے البتہ یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ اس بڑی تصویر میں کس کی نظر زیادہ دیر تک کس نقش یا رنگ پر ٹھہرتی ہے۔

آج مجھے ایک دوست نے مشہور سائنس دان آئن سٹائن کی زندگی کا ایک واقعہ ویڈیو امیجز کے ساتھ بھیجا جس پر بات کا متن انگریزی میں سپر امپوز کیا گیا تھا جس سے میرا دھیان برادر عزیز فواد نیاز کی طرف گیا جو روزانہ مجھے ایک سے ایک باکمال اور بے مثال دانش پارہ واٹس ایپ کرتا ہے اور یوں ایک انگریزی محاورے کے مطابق’’میرا دن بن جاتا ہے‘‘ خیال تھا کہ آج کے کالم میں اُس کے بھجوائے ہوئے چند جملوں پر بات کی جائے گی مگر پیج میں آئن سٹائن صاحب کی Gravity آن ٹپکی ہے جس نے بتایا کہ اشیاء اور خواہشات میں موجود کشش کا دائرہ اصل میں بہت مختصر اور بے معنی ہوتا ہے اور یہ کہ اصلی اور حقیقی خوشی ایک بالکل دوسرے منطقے کی چیز ہے اور اس فرق کو سمجھنا ہی خوشی سمیت ہر چیز کے ’’معیار‘‘ کو متعین کرتا ہے۔ مزید کسی تفصیل کے بجائے آیئے اس بات کو پہلے خود سنتے اور سمجھتے ہیں۔

’’1922 میں آئن سٹائن جاپان کے دورے پر گیا تو اُسکے ہوٹل کے کمرے میں ایک بیل بوائے اُس کے لیے کوئی پیغام لے کر آیا جیسا کہ رواج ہے اور اُس وقت بھی تھا، آئن سٹائن نے اسے ٹِپ دینے کے لیے اپنی جیبیں ٹٹولیں تو اتفاق سے اُس کے پاس مطلوبہ ریزگاری نہیں تھی، اُس نے ایک کاغذ کا پرزہ لیا اور اُس ویٹر کے لیے اپنے نام اور دستخط کے ساتھ ایک نصیحت نما پیغام لکھ دیا، یہ کاغذ کا ٹکڑا آگے چل کر پندرہ لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہوا لیکن اس وقت ہمارا مقصد اس کی قدر اور قیمت کا موازنہ نہیں بلکہ ا ُس بات کا ذکر ہے جو اس عظیم فلسفی اور سائنس دان نے بظاہر یونہی رواروی میں کہی تھی۔ اُس نے لکھا،’’ایک پُر اطمینان اور خاموش زندگی زیادہ پُر لطف ہوتی ہے، ایک مسلسل خواہش اور کامیابی کی دُھن میں مبتلا زندگی سے جو کہ ایک مستقل بے آرامی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے ۔ خوش رہنے کا صحیح اور بہترین طریقہ کیا ہے اس کے بارے میں سوچو‘‘

یعنی دنیا کے ایک عظیم ترین دماغ کا یہ فیصلہ تھا کہ خوشی کا تعلق صرف ذہنی سکون کی حامل زندگی سے ہے ۔ اب یہ بات اور ہے کہ دنیا اسے اُن جگہوں پر ڈھونڈ رہی ہے جہاں وہ ہے ہی نہیں۔ ہمیں بار بار یہ بتایا جاتا ہے کہ خوش رہنا ہے تو ’’یہ‘‘ چیز اور ’’وہ‘‘ شئے حاصل کرو، آگے بڑھتے رہو اور زیادہ سے زیادہ سخت کام کرو‘‘

اس بات کی مزید تشریح کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ اب کوئی شاندار اور قیمتی رِسٹ واچ تمہیں بہت پسند ہواور اُسے اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی لیا جاتا ہو یا کوئی بہت عالی شان مکان، شاندار کار یا بڑے بڑے ایوارڈز کا حصول زندگی کا مقصد بن جائے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب چیزوں کی کشش وقتی اور عمر مختصر ہے۔

ان سے حاصل ہونے والی خوشی بہت جلد آؤٹ آف ڈیٹ یا کافور ہوجاتی ہے اور ان کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہوجاتا ہے، اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہالی وڈ کے ایک مشہور اور امیر اداکار نے ایک جگہ کہا کہ’’میں چاہتا ہوں کہ اس دنیا کے سب لوگ مشہور اور امیر ہوجائیں تاکہ اُن کو پتہ چل سکے کہ دولت سے سکون نہیں خریدا جاسکتا ،کل کی بڑی بڑی تصوراتی خوشیوں کی خواہش میں آج کی چھوٹی چھوٹی اور موجودخوشیاں قدر اور حفاظت کی متقاضی ہیں، ذہنی سکون ڈھونڈو کہ ہر خوشی اپنی اصل میں اسی کے اندر زندہ رہتی ہے‘‘

لطف کی بات یہ ہے کہ اس ساری بات میں کوئی راکٹ سائنس نہیں، ہر درمیانی عقل رکھنے والا شخص بھی اس طرح کی بات کہہ اور کرسکتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ بات کے اندر کی بات بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے ۔

اب آیئے اُن چند جملوں کی طرف جو پچھلے ایک ماہ میں (میاں بیوی کے رشتے سے متعلق دلچسپ اورلطیفوں کے علاوہ) فواد نیاز کی طرف سے موصول ہوئے اسّی فی صد دانش کی باتیں چونکہ انگریزی میں تھیں اس لیے اُن کا آسان اور عام فہم ترجمہ کردیا گیا ہے البتہ جو باتیں براہ راست اُردو زبان میں کہی گئیں اُن کا گناہ و ثواب کہنے والے کے سر ہے اور اس کے لیے فواد نیاز پرکسی قسم کا الزام دھرنا زیادتی ہوگی اُمید ہے، آپ بات سے زیادہ اُس کے ا ندر کی بات تک پہنچنے کی کوشش بھی کریں گے ۔

٭ انتظار کرو ۔۔ راتوں رات کچھ بھی نہیں بدلتا!

٭ عقل کا جوہر اور حاصل معمولی چیزوں میں غیر معمولی پن کی دریافت ہے۔

٭ آواز بنو، بازگشت نہیں۔

٭ ذہن کے پیدا کردہ شبہات کو کبھی دل اور اُس کی خواہش پر حاوی نہ ہونے دو۔

٭ غیر معمولی چیزوں کی تلاش نہ کرنے والوں کو معمولی چیزیں خود تلاش کر لیتی ہیں۔

٭ جب آپ خوش ہوتے ہیں تو موسیقی مزا دیتی ہے مگر جب آپ اُداس ہوتے ہیں تو یہ سمجھ میں آنے لگتی ہے ۔

٭ جب آپ چیزوں کو دیکھنے کا طریقہ بدلتے ہیں تو چیزیں بھی خود بخود بدلنا شروع ہوجاتی ہیں۔

٭ کامیابی کا کوئی تعلق آپ کی ذہنی صلاحیتوں سے نہیں ہوتا یہ ہمیشہ آپ کے عمل اور سوچ سے مربوط ہوتی ہے۔

٭ ہر روز صبح ہونے پر آپ کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ نیند کو جاری رکھیں اور خواب دیکھتے رہیں یا جاگ جائیں اور اُن کی تعبیروں کو تلاش کریں۔

٭ چوہوں کی دوڑ (Rat Race) کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اوّل آکر بھی چوہے ہی رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔