عوامی استحصال

عبدالقادر حسن  بدھ 15 جولائی 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں معاشی اور سماجی ناہمواریاں بڑھ رہی ہیں، حکومت کے دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت یہی ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے اور امیروں کی دولت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اگر ترقی کے حکومتی دعوؤں کو مان بھی لیا جائے تو اس کا فائدہ ایک محدود طبقے کو ہوا ہو گا جو ہمیشہ ترقی کرتا آیا ہے اور فائدے میں رہا ہے۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور آج کی تحریک انصاف اس ملک کی ناگزیر ضرورت ہیں جن میں سے دو پارٹیوں کا طویل اقتدار ہم دیکھ چکے ہیں اور اپنی خاصی لمبی چوڑی امیدوں کوٹوٹتے دیکھ چکے ہیں۔

اب مدینہ کی ریاست کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت کو عوام بھگت رہے ہیں ان سے بھی کوئی خاص لمبی چوڑی امیدیں وابستہ نہیں ہیں کیونکہ یہ بھی پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے تصور سے کوئی قلبی اور حقیقی شعوری وابستگی نہیں رکھتے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور پاکستان کے لیے ایک مثالی ہیرو وہی ہوگا جو ہر حوالے سے قائد اور اقبال کے نظریات کا علمبردار ہو گا اور قائد کی طرح قومی سرمائے کو ایک امانت سمجھے گا اور اپنے آپ کو اس حیثیت میں دیکھے گا جیسے بقول رسول مقبول ﷺ ایک حکمران کو اپنے آپ کو سرکاری خزانے کا اسی طرح امین سمجھنا چاہیے جس طرح ایک یتیم کے مال کے نگران کو۔

حکومتوںکی پالیسیوں کی وجہ سے خلق خدا بہت تنگ رہی ہے اور اس تنگی کو ختم کرنے کے لیے عوام دوست ایسی پالیسیاں نہایت ضروری ہیں جن سے عوام کی روز مرہ کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں ورنہ دوسری صورت میں ہم ایک ایسے انقلاب کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہو گی اور جو بہت تنگ ہوتا ہے وہ کبھی کبھار جنگ پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے، اس لیے وقت کے حکمرانوں کو ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے ورنہ معاشی ناہمواریوں اور معاشرتی انصاف کے لیے علم بغاوت بلند ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

اخبار کے صفحے کالے کرتے عمر بیت گئی مگر ہمارے ظالم استحصالی حکمرانوں کے کان پر کوئی جوں بھی نہ رینگی، وہ اپنی مستی میں ہی مست رہے۔ ہمارے لکھے گئے الفاظ شاید کسی مورخ کے کام آجائیں جب وہ ہماری تباہی کی مستند تاریخ لکھے گا۔ اصلاح احوال کرنے کی بجائے اقتدار کی ہوس کے ان پجاریوں نے اپنی رعایا کی ہڈیوں پر محلات تعمیر کرنے کی ہوس کو بے لگام چھوڑ دیا۔ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے سسک سسک کر زندگی گزاررہی ہے، بے روزگار خودکشیاں کر رہے ہیں ۔

روٹی تو دورکی بات ہے، یہ ظالم تو ہمیں پینے کے قابل پانی بھی مہیا نہیں کر سکے ۔ یہ لوگ عوام کو دو ٹنگے جانوروں سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہیں ۔ قانون قدرت مجرموں کے دلوں،کانوں اور آنکھوں پر مہریں لگا دیا کرتا ہے اور پھر محلات والوں کا عبرتناک انجام ہوتا ہے جس سے قارئین مجھ جیسے کم علم کی نسبت کہیں زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔ اور مورخ یہی لکھے گا کہ اس ملک کاا نجام اس سے مختلف ہو ہی نہیں سکتا تھا جیسا کہ ہوا ہے۔

پاکستانی محنت کش اورمڈل کلاس طبقہ معاشرے پر طاری اس حبس میں حکمرانوں کے خوش کن وعدوں اور دعوؤںکو ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا محسوس کرتا ہے اور ملک میں انقلابی اور احتسابی پروگرام پر عمل ہوتے دیکھنے کا آرزومند اور اس امید سے ہے کہ ہماری ہاں بھی انقلابی لیڈر شپ کا یہ خلا ضرور پر ہو گا کہ بحران بھی انقلابی لیڈر کو جنم دیا کرتے ہیں اور کوئی لیڈر پردہ غیب سے ضرور نمودار ہو گا ۔ رہی اپوزیشن تو اس کے دوستانہ کردار نے ہر مشکل وقت میں حکومت کو سہارا ہی دیا ہے، گزشتہ برس سینیٹ کے چیئر مین کے ہونے والے انتخاب میں ان کی اوقات تھوک کے بھاؤ بکنے سے عیاں ہو گئی تھی ۔

اس حقیقی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے عوام بھی زیادہ دیر تک ایک ہاتھ سے کب تک تالی بجاتے رہیں گے، وہ بھی جلد یا بدیر اپنے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دیں گے کہ اب مزید برداشت کی حد ختم ہو چکی ہے ۔

لیکن وہ کون انقلابی ہو گا جو عوام کی بات کرے گا کیونکہ ابھی تک جس نے بھی عوام کوخواب دکھائے، وہ حقیقت میں نہ بدل سکے، چاہے وہ بھٹو صاحب ہوں جنہوں نے اپنے انقلابی پروگرام کے گرد عوام کو جمع کیا اور پھر جھرلو الیکشن کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کی ۔ بھٹو صاحب بعد میں اپنے انقلاب کی حقیقت افشا کرتے ہوئے کال کوٹھری میں لکھی گئی اپنی کتاب میں اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’میں متحارب طبقات کے متصادم مفادات کے درمیان مفاہمت کے ذریعے توازن قائم رکھنا ممکن سمجھتا رہا حالانکہ یہ ناممکن تھا اور ناممکن ہی رہے گا، صرف ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر مکمل فتح ہی اس تضاد کو حل کر سکتی ہے یا دبا سکتی ہے‘‘۔

بھٹو صاحب کے بعد ان کی پارٹی تین دفعہ حکمران رہی مگر وہ اپنے بنیادی ایجنڈے روٹی کپڑا مکان پر بھی عمل سے قاصر رہی ۔ ان کے بعد میاں نواز شریف عوام کی امنگوں کے ترجمان بن کر سامنے آئے اور آج کی جدید تاریخ میں ان کو بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا ۔ عمران خان نے انصاف کے نام پر تحریک برپا کی ۔انھوں نے اقتدار کے لیے جو سیڑھیاں استعمال کیں وہ چڑھنے کے بعد نہ ان کے ہاں انصاف رہا اور نہ ہی ان کی تحریک کہیں نظر آئی ۔ خدا نخواستہ عمران خان کی شکل میںعوام کی آخری امید بھی دم توڑتی نظر آتی ہے اور وہ بھی اسی طبقے کی نمائندگی کرنے لگ گئے ہیں جو ہمیشہ سے عوام کا استحصال کرتا آیا ہے اور اپنے دعوؤں کے برعکس ایک مختلف حکمران کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔