- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
- اڈیالہ میں عمران خان سمیت قیدیوں سے ملاقات پر دو ہفتے کی پابندی ختم
- توانائی کے بحران سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرنا ترجیح میں شامل ہے، امریکا
- ہائیکورٹ کے ججزکا خط، چیف جسٹس سے وزیراعظم کی ملاقات
- وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسیحی ملازمین کیلیے گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بونس کا اعلان
- سونے کی عالمی ومقامی قیمتوں میں اضافہ
- بلوچستان : بی ایل اے کے دہشت گردوں کا غیر ملکی اسلحہ استعمال کرنے کا انکشاف
- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی نے اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
- ایف بی آر سے کرپشن کے خاتمے کیلیے خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دیدیا گیا
- کاکول ٹریننگ کیمپ؛ اعظم خان 2 کلومیٹر ریس میں مشکلات کا شکار
- اسٹاک ایکسچینج؛ 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- بجلی ایک ماہ کیلیے 5روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی
- کھلاڑیوں کی ادائیگیوں کا معاملہ؛ بورڈ نے فیکا کے الزامات کو مسترد کردیا
- پی ٹی آئی (پی) کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن حکام فوری ہائیکورٹ طلب
کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں، چیئرمین نیب
اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں،موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کے لئے ناکافی ہیں، ہر احتساب عدالت اوسط 50 مقدمات سن رہی ہے، لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے، حکومت کو کئی مرتبہ کہہ چکے کہ نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہو سکتے ہیں، احتساب عدالتوں کیخلاف اپیلیں سننے کے لئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
جاوید اقبال نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے، عدالتوں کی جانب سے “سیاسی شخصیات” کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے، غلط تشریح کے باعت سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ 50،50 گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے، عدالتیں ضمانت کے لئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں، ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلی عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہے، اس کے علاوہ ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے۔ احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں اور ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں۔ سپریم کورٹ نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے روک چکی ہے، رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے۔
نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا پس منظر
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 8 جولائی کو کوئلے کے پلانٹ میں غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی سیکرٹری قانون کو متعلقہ حکام سے ہدایات لے کر نئی عدالتیں قائم اور نئے ججز کی تعیناتی کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ20، 20 سال سے نیب ریفرنسز زیر التوا ہیں۔ نیب ریفرنسز کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے نیب قانون بنانے کا مقصد ختم ہو جائے گا۔ ہر احتساب ریفرنس کا فیصلہ 3 ماہ میں ہو جانا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔