بلاول اور سندھ حکومت !

علی احمد ڈھلوں  بدھ 5 اگست 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

آج کل پاکستان کی سیاست میں ’’ملاوٹ‘‘ آگئی ہے، کیسی ملاوٹ ؟ یہ بات یہاں لکھنا تو جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے مگر اتنا ضرور سمجھ لیجیے کہ وطن عزیز کے سنجیدہ حلقے مایوس ہوتے جا رہے ہیں، ایک نجی تنظیم کے سروے کے مطابق گزشتہ 5سالوں میں پاکستان کے مزید 7فیصد عوام نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے،یعنی سیاست، سیاسی بحث یا ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے افراد کی تعداد 31فیصد سے زائد ہوگئی ہے۔

جب کہ دنیا میں یہ تناسب 13فیصد سے زیادہ ہونا انتہائی خطرناک سمجھا جاتاہے۔ آپ اس ملک کی سیاسی جماعتوں پر ایک نظر ڈال لیں، جو چند سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اُن میں بھی برائے نام لیڈر رہ گئے ہیں، عمران خان جو کامیاب سیاسی لیڈر ابھر کر سامنے آئے تھے، وہ بھی تنقید کی زد میں ہیں، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے موجودہ لیڈرز سیاسی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اے این پی، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے، الغرض ہر طرف لیڈر شپ کا فقدان نظر آرہا ہے۔ لیکن فی الوقت جب ن لیگ دیوار کے ساتھ لگی ہے تو اپوزیشن میں سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی ہی لگتی ہے ۔

میں ویسے تو موروثی سیاست کے سخت خلاف ہوں، مگر بلاول کی قیادت اور اُس کی سمجھ بوجھ بہت سے سنجیدہ عوام کو متاثر کر رہی ہے قومی اسمبلی میں تقریر ہو ، پریس کانفرنس ہو یا جلسہ عام، چیئرمین بلاول بھٹو کا بیانیہ فی الوقت درست سمت میں جا رہا ہے، روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر وہ پسے ہوئے اور استحصال زدہ عوام کی بات کررہے ہیں، کسانوں، مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور چھوٹے دکانداروں کے لیے ایمنسٹی اسکیم کی بات کر رہے ہیں، طلبہ نوجوانوں اور بزرگوں کے لیے بیل آوٹ پیکیج کی بات کر رہے ہیں، کسانوں کے لیے قرضوں کی بات کر رہے ہیں۔ بلاول میں سیاسی پختگی اور حاضر جوابی کا عنصر بھی بڑھ گیا ہے۔ اسی وجہ سے اب وہ آستینیں چڑھا کر سیاسی میدان میںباقاعدہ اتر آئے ہیں ۔

لیکن مجھے یا مجھ جیسے ناقدوں کو جو چیز تنگ کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں وہاں انھیں تسلیم کرنے کے بجائے دفاعی پوزیشن میں کھڑی نظر آتی ہے، مثلاً سندھ (خصوصاً کراچی) کے حالات دیکھ لیں، پیپلزپارٹی کو سندھ پر حکومت کرتے ہوئے 12سال ہوگئے ہیں، 5سال مرکز میں بھی گزار چکے ہیں۔بلاول کم از کم یہ تو بتا دیں کہ اُن کی حکومت کراچی یا دیگر شہروں میں نکاسی آب کا مسئلہ حل کیوں نہیں کر سکی؟ ۔

جس جھولی میں جو چھید ہوئے

اس جھولی کا پھیلانا کیا

اس شعر کا لب لباب یہ ہے کہ بلاول یہ بھی تسلیم کریں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، تبھی وہ ایک بہترین لیڈر بن سکتے ہیں۔ کیا بلاول نے سوچا کہ ذوالفقار علی بھٹو جب پنجاب کا رخ کرتے تھے تو کسان میلوں پیدل چل کر ان کی ایک جھلک دیکھنے آیا کرتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو پنجاب کی عوام کی آنکھ کا تارا تھے۔

یہ مقام انھوں نے اپنی ذہانت اور عمل سے حاصل کیا تھا۔ اگرچہ بھٹو کی سیاسی وراثت کے لیے بلاول ایک فطری اور منطقی انتخاب ہیں تاہم انھیں اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے پیدا حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دیگر جماعتوں کی طرح پیپلزپارٹی میں قیادت کا فقدان ہے، میرے خیال میں پی پی پی اس وقت بھی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، قابل ترین افراد کی ٹیم رکھتی ہے، اس کے پاس کم و بیش 5ہزار کے قریب سیاسی شہید ہیں۔ان لوگوں نے پاکستان کے لیے جنگیں لڑی ہیں، کوڑے کھائے ہیں، قید کی صعوبتیں جھیلی ہیں،ن لیگ، یا تحریک انصاف میں مجھے ایک بھی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو حقیقی لیڈر ہو۔ جب کہ پی پی پی میں قمر الزمان کائرہ ، چوہدری منظور، رضا ربانی، فاروق ایچ نائیک، اعتزاز احسن ، خورشید شاہ، حنا ربانی، احمد مختار، شیری رحمن، منور علی تالپور وغیرہ نمایاں لیڈر ہیں۔

بلاول بھٹو نوجوان ہیں،ان کے دل میں ملک اور عوام کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ بھی ہے ،للکار بھی ہے، ایک پیپلز پارٹی وہ تھی جس نے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں مزدورں، کسانوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور نوجوان طلبہ کو متحرک کیا ۔ بھٹو کو پھانسی لگنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو نے سنبھالی۔

ان کی رہنمائی میں جنرل ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلائی گئی اور کئی میل تک لاکھوں افراد پر مشتمل ریلیاں نکالی گئیں۔پارٹی کا تیسرا دور آصف علی زرداری کی زیر قیادت رہا ، اس میں پارٹی کا گراف پنجاب میں صفر تک پہنچ گیا اورحکومت کرپشن کے الزامات کی زد میں رہی جب کہ اب چوتھا دور بلاول بھٹو زرداری کا ہے۔

جناب آصف علی زرداری بیمار بھی ہیں اور خاموش بھی۔ بلاول سے التجا ہے کہ خدارا بھٹو کو پنجاب کے بعد سندھ میں بھی سیاسی موت سے ہمکنار ہونے سے بچا لیں۔ اگلے تین سال اپنی سیاسی بصیرت کو سندھ کی عوام کے لیے وقف کردیں۔ کورونا سے اس مشکل سفر کا آغاز کریں۔ یہ سندھ کی دھرتی کا قرض بھی ہے ۔ بھٹو کا سیاسی وارث بننے کے لیے نا صرف ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا بلکہ مستقبل کے لیے ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جو پنجاب میں کھوئی سیاسی ساکھ واپس لا سکے۔ بلاول کو سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی ایک ایسی سیاسی تبدیلی لانی ہو گی جو مستقبل میں انقلابی سیاسی کامیابی کی ضمانت ہو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔