سرمایہ دارانہ نظام کے ذرایع آمدنی

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 8 اگست 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی حکومت کو چلانے کے لیے ترجیحات کا تعین ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر حکومت کا حال بے لگام گھوڑے کا سا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی حکومت نے کبھی اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کیا۔ ہماری حکومت کو بھی دو سال ہوگئے ابھی تک اپنی ترجیحات مسائل کے حل کے حوالے سے طے نہیں کیں۔ نئی حکومت کا کوئی نیا پن اب تک نظر نہیں آیا۔

مثال کے طور پر ہمارے ملک کے عوامی مسائل میں بجلی اور پانی کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ ہر حکومت ان دو مسئلوں کو حل کرنے کے وعدے کرتی ہے لیکن یہ دونوں مسئلے نہ کسی حکومت کی ترجیح بنے نہ ان کے حل ہونے کی آج تک کوئی سبیل پیدا کی گئی، اس کی ایک بڑی وجہ عوام کا پھس پھسا ردعمل ہے اگر عوام اس حوالے سے شدید ردعمل کا اظہار کریں تو حکومتیں عوامی مسائل حل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

موجودہ حکومت خود کو نئی حکومت کہتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ حکومت کسی حوالے سے بھی نئی حکومت نہیں کہلا سکتی۔ اس حوالے سے نئے پن کی کوئی ایک بھی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اس حکومت کو ایک ہی کریڈٹ جاتا ہے جس کے حوالے سے اسے نئی حکومت کہا جا سکتا ہے اور وہ کریڈٹ یہ ہے کہ حکومت کرپشن سے پاک ہے اپوزیشن بھی حکومت پر کرپشن کے الزام نہیں لگا سکی ہے۔

یہ کریڈٹ چھوٹا نہیں بہت بڑا ہے کیونکہ 40-30 سال میں ایک بھی حکومت ایسی نہیں آئی جس پر کرپشن کے الزامات عائد نہ کیے گئے ہوں۔ چھوٹی موٹی وارداتیں لوگ ہر جگہ کرتے ہیں لیکن پچھلی دو حکومتوں کے جن بڑے لوگوں نے جتنی بڑی بڑی وارداتیں کیں اس کی بھی مثال نہیں مل سکتی۔

ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کا حال ایسا ہی ہوتا ہے جیسے جسم میں خون کا۔ اس حوالے سے یقیناً حکومت قابل مبارک ہے کہ دو سال میں اپوزیشن نے نااہلی کے تو بہت الزامات لگائے لیکن حکومت پر کرپشن کے الزامات لگانے میں اپوزیشن کو بھی محتاط ہونا پڑ رہا ہے۔ ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام میں نچلی سطح سے اوپری سطح تک کرپشن ہی کرپشن ہوتی ہے لیکن موجودہ حکومت اس حوالے سے اتنی نیک نام نہیں ہے جتنی ماضی کی حکومتیں رہی ہیں۔ یہ حکومت کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو اور حکومتوں میں نہیں دیکھی گئی کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس بیماری کا ایک آسان علاج ہے لیکن اس پر توجہ اس لیے نہیں دی جاتی کہ اس کا علاج کرنے والے بیمار ہو جاتے ہیں اس کا شافی علاج ارتکاز زر کو روکنا ہے اور ارتکاز زر ہی اس نظام کی بنیاد ہے۔ آج دنیا میں بڑے فخر کے ساتھ اخباروں میں یہ خبریں چھپتی ہیں کہ دنیا میں کتنے ارب پتی ہیں۔

ان کی دولت کا حساب ان کا دولت مندوں میں نمبر یہ ساری تفصیلات پڑھ کر عوام کے دل دکھتے ہیں لیکن دل دکھانے سے کیا ہوتا ہے اس کا واحد علاج ارتکاز زر کو روکنا ہے اگر کوئی نظام ایسا ہو جو ارتکاز زر کو روکے تو تقسیم دولت کی ناانصافی ختم ہو جاتی ہے لیکن اس چڑیا گھر میں اس نظام کو روکنے والا کون ہو سکتا ہے۔ کوئی مارکس کوئی اینجلز اگر پیدا ہو جائے تو پھر ایسا ممکن ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی بڑی برائیوں میں ایک بڑی برائی یہ ہے کہ اس نظام میں بے شمار ہتھیاروں کی کمپنیاں اور کارخانے ہوتے ہیں جو اربوں روپوں کا اسلحہ بناتے ہیں۔ یہ اسلحہ جنگوں میں کام آتا ہے جنگوں میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے جاتے ہیں۔ یہ انسان کش نظام ہے جو ہزاروں انسانوں کی جانوں کی بھینٹ لیتا ہے۔

جنگوں میں اربوں روپوں کا اسلحہ ضایع ہو جاتا ہے جنگوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس سے زر اور جان دونوں ضایع ہوتے ہیں۔ جنگوں میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتے ہیں۔ سامراجی ملکوں کی اس حوالے سے حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ بیروزگار لوگوں کو گھیر گھیر کر فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے اور یہ غریب قربانی کے بکرے بنتے ہیں۔ اس نظام میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جنگوں سے تحفظ کے نام پر بڑی فوجوں کے علاوہ مختلف ناموں سے مختلف سیکیورٹی فورسز تشکیل دی جاتی ہیں جن پر اربوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور عموماً یہ فورسز پریڈ کرتی ہیں یا اپنی کمپنیوں میں مشقیں کرتی رہتی ہیں۔

ان پر قوم کی بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں اگر نام نہاد خوف سے نکلنے اور امن کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے تو فورسز اور اسلحے پر خرچ ہونے والا اربوں روپیہ جو غریب طبقات کی کمائی ہوتی ہے بچ سکتی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں فوج اور اسلحے کی ضرورت پیدا کی جاتی ہے اس کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس خصوصی بجٹ میں سے خصوصی لوگ اپنی ضرورتوں کے مطابق رقوم خرچ کر لیتے ہیں یہ ایسی سہولت ہے جو صدقہ جاریہ کے مطابق جاری رہتی ہے۔

اس سسٹم میں ایک خودکار نظام ایسا ہوتا ہے کہ لوٹ مار کے چانس ہر وقت پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ایک تو طریقہ کار ایسا بنایا جاتا ہے کہ ان شعبوں میں بھاری خریداریوں کے مواقع چند مخصوص افراد اور اداروں تک محدود ہوتے ہیں جب کہ ان اداروں کی بھاری نفری ملازمت پیشہ ہوتی ہے اور لوٹ مار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

اس خودکار نظام میں کمائی کے سارے مواقع چند مخصوص گروہوں کو ہی حاصل ہوتے ہیں جو اعلیٰ حلقوں کی اجارہ داریاں بنائے رکھتے ہیں۔ عوام کو دھوکا دینے کے لیے اختلافات دور کرنے کے نام پر کروڑوں کی تنخواہوں پر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کا کام تو جنگوں کو روکنا ہوتا ہے لیکن یہ ادارے برسوں تک تنازعات کو لٹکائے رکھتے ہیں اور ان اداروں کے اعلیٰ سطح کے افراد ہر مہینہ تنخواہ کے نام پر لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔

اسلحہ اس سارے نظام کا اصل ماخذ ہوتا ہے اور اس خریداری میں اربوں کی کمائی یقینی ہوتی ہے چونکہ اس سسٹم میں عام طور پر ہنگامی ضرورتیں درپیش رہتی ہیں لہٰذا خریداری جاریہ کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے امن و امان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھاری خریداریوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ حصول امن کی کوششیں عشروں پر پھیلی ہوتی ہیں اور یوں عشروں تک کاروباری سلسلے چلتے رہتے ہیں اور یہ کاروباری سلسلہ عشروں تک پھیلتا چلا جاتا ہے اور اسی کے حوالے سے کمائی کے مواقعوں میں طوالت پیدا کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔