معاشی ترقی کی ’’خوش کن‘‘ خبریں

ایڈیٹوریل  پير 10 اگست 2020
پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصرنظرآتی ہیں

پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصرنظرآتی ہیں

ایک عرصہ بعد معاشی محاذ پرخوش کن خبریں سامنے آرہی ہیں، تازہ ترین درجہ بندی میں موڈیز پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری آئی ہے، نہایت مشکل معاشی صورتحال کے باوجود پاکستان کی برآمدات بڑھ رہی ہیں، اقتصادی منصوبہ بندی کے باعث تجارتی خسارے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ صائب بات ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے رویے میں مثبت تبدیلی پاکستان کے حوالے سے رونما ہوئی ہے۔

معیشت کے حوالے سے یہ انتہائی مثبت اشارے ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 19.56 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج بہتری میں دنیا میں دوسرے نمبر پرآگئی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ این آر او والوں نے دو سال تک روکا ہے، اب آگے بڑھانا ہے، یعنی وہ گڈگورننس کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی منازل طے کروانا چاہتے ہیں،جوکہ خوش آیند امر ہے۔

اس ساری صورتحال کو ہم حکومتی نقطہ نظر کے مطابق اطمینان بخش قرار دے سکتے ہیں لیکن دوسری جانب  عوام میں بے چینی کا عنصر کسی اور معاملے کی عکاسی کر رہا ہے۔ اشیائے ضروریہ سمیت ہرچیزکی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھنے سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے رہی ہے،ملبوسات، ادویات سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں عدم استحکام کے منفی اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ روز نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ، جس کے تحت گزشتہ 8 ماہ کے لیے بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں پانچ ماہ کے لیے اضافہ اور تین ماہ کے لیے کمی کردی گئی ہے۔

مرے کو ماریں شاہ مدار کے مصداق مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ کے بعد بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ناقابل فہم ہے۔آسان الفاظ میں سمجھ لیجیے کہ بجلی کا نرخ نامہ پیچیدہ ہونے کے باعث عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا،جب بجلی کے بل عوام کے ہاتھوں میں آتا ہے تو انھیں زورکا جھٹکا لگتا ہے، وہ بجلی کمپنیوں کے دفاتر پہنچتے ہیں تو وہاں ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا،کیونکہ یونٹ بلنگ کا نظام انتہائی پیچیدہ اورسمجھ سے بالاتر ہے،اس کے مختلف سلیب ہیں، جوکسی کی سمجھ میں نہیں آتے۔

یہی وجہ ہے کہ بجلی کمپنیوں اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی فضا برقرار رہنے سے بسا اوقات صارفین اورعملے کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے کا ایک آسان حل یہ بھی ہے کہ سلیب سسٹم ختم کرکے یکساں ریٹ لاگوکیے جائیں تاکہ پہلے کی طرح ایک عام شہری میٹرریڈنگ کی بنیاد پر اپنے بل کا تخمینہ خود لگاسکے۔

ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی نموگزشتہ نو سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے سبب رینگ رہی ہے، جس سے لا محالہ مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ ملکی معیشت کی کارکردگی پر اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ اقتصادی حالات کی سنگینی اور مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے ، رپورٹ کے مطابق رواں اور گزشتہ سال معیشت کے پیداواری شعبوں، خاص طور پر زراعت اور صنعت کے لیے بھاری ثابت ہوا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ، زراعت کی نمو جون2018 ء میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 3.9 فیصد تھی، تاہم جون 2019ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران زراعت کی نمو صرف 0.8فیصد رہ گئی۔

اسی طرح صنعت کی نمو 4.9فیصد سے گر کرمحض 1.4فیصد پر آگئی ہے۔ چنانچہ معیشت کے زوال پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سب سے زیادہ توجہ زراعت اور صنعت کو دینا ہو گی تا کہ خسارے پر قابو پایا جاسکے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہی دو شعبے ہیں جو افرادی قوت کو ملازمت کے زیادہ مواقعے مہیا کرنے کے علاوہ دیگرکئی شعبوں کے لیے انجن کا کام کرتے ہیں۔اگر زراعت اچھی ہوگی تو خوراک، ٹیکسٹائل، تیل، بیج، کھاد، ادویات، بینکوں کے قرض، مشینری کی فروخت، غرض لاتعداد شعبوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔

اسی طرح صنعت کی ترقی روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنے، برآمدات میں اضافے اور قومی معیشت کا سہارا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ا سٹیٹ بینک کی جانب سے بھی یہی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ مالی سال 2020ء میں زرعی معیشت کی ترقی سے خسارے میں کمی آ سکتی ہے۔

غرضیکہ حکومت کے معاشی ماہرین اور پالیسی ساز ادارے اگر اقدامات کرنا چاہیں تو معیشت کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہونے والے اس سال کوکیس اسٹڈی کے طور پر لے سکتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران قومی معیشت کے اہم ترین شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر خرابیوں کے اسباب تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ سب کچھ قومی معیشت کے بہتر مستقبل کے لیے لازم ہے، کیونکہ جی ڈی پی کی کم ترین شرح نمو نے پاکستانی معیشت کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ روپے کی قدر گرنے سے درآمدی اشیا کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اس معاشی صورتحال سے پورے پاکستان کے تاجر، صنعتکار، امپورٹر، ایکسپورٹر سب پریشان ہیں، چھوٹا دکاندار بھی پریشان ہے حتیٰ کہ خریدار بھی۔ درحقیقت ملک میں منافع خورمافیا طاقتور ہے اورملک کے انتظامی ادارے ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوگیا ہے۔

پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ چینی مارکیٹ میں ایک سو روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ شوگرکمشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، بلکہ الٹا عوام ہی نہ صرف پریشان ہوئے بلکہ مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ عید قرباں کے موقعے پر ، آلو، پیاز، ٹماٹر، لہسن اور پیاز سمیت سبزیوں کی قیمتیں جس طرح بڑھیں، وہ بھی ایک ریکارڈ ہے،دوسری جانب کھادکی قیمتیں زائد ہونے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ متاثر ہورہا ہے۔ مہنگائی کی ایسی صورتحال کے باعث معاشرے سماجی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں، اخبارات اور ٹی وی چینل پر تواتر سے ایسی خبریں آرہی ہیں جن کے مطابق خودکشی کا رجحان ملک میں پروان چڑھ رہا ہے، خبروں کے مطابق لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پریشان ہوکر اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں۔

ملک میں جرائم کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ایک بے یقینی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ مہنگائی کے تدارک کے لیے موثر اقدامات کرے۔ خوراک کی قیمتوں میں عدم توازن کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ضروریات اور پیداوارکے فرق کو ختم کیا جائے ، مارکیٹ پر نظر رکھنے سے قیمتوں میں توازن قائم کیاجاسکتا ہے۔ حکومت نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو زبانی کلامی باتوں کو چھوڑ کر عملی طور پر اسے ثابت کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بہترین طرز حکمرانی قائم کرکے قوم کو ریلیف فراہم کیا جائے،کیونکہ ہماری مہنگائی کی ستائی اور بحرانوں کی ماری قوم مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی ہمت وسکت نہیں رکھتی۔

ملک میں باران رحمت کھل کر برس رہی ہے، مون سون اسپیل کے تحت تیسرے روز بھی سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے بیشترشہروںمیں گرج چمک کے ساتھ شدید بارش ہوئی، کرنٹ لگنے اور دیگرحادثات میںمزید پندرہ افرادجان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، مستونگ، قلات، ڈھاڈر، نوشکی، جھل مگسی، مچھ اور بولان میں تیزبارشوں سے نشیبی علاقے زیرآب ، متعدد علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع جب کہ کوہلو، سبی شاہراہ ہرقسم کی ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہے۔

بولان کے علاقے میں سیلاب سے 24 اور12 انچ قطر کی گیس پائپ لائنز متاثر ہونے سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں گیس سپلائی متاثرہوگئی۔سیلابی ریلے میںمال مویشیوں کے بھی بہہ جانے کی اطلاعات ہیں۔ گوادر میں بارش کی وجہ سے میران کوسٹل ہائی وے پر بدوک کے مقام پر پل ٹوٹ گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں سے نئی گیج ڈیم کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے نئی گیج ڈیم کا فلڈ پروٹیکشن بند ٹوٹ گیا ہے، جس سے ضلع دادوکے 12گاؤں شدید متاثر ہوئے ہیں۔

لاہور سمیت پنجاب بھر میں گزشتہ روز ہونے والی تیز بارش سے ہرطرف جل تھل ہوگیا، بارش کے پانی میں گاڑیاں، موٹرسائیکل پھنس گئے جب کہ پارک پانی سے بھر گئے۔ کراچی میں کرنٹ لگنے اور دیگرحادثات میںمزید 10افرادجان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ شہرقائد میں گزرے تین روز کے دوران شہر میں 172 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوچکی ہے۔

بارشوں کے بعد کراچی میں جوبھیانک صورتحال سامنے آئی ہے، اس کے بعد پاک فوج سے عملاً مدد لینی پڑی ہے۔ یہاں ایک اہم ترین سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخرکارشہرکے متعدد انتظامی ادارے کہاں غائب ہیں۔کیا پورا انتظامی ڈھانچہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ عروس البلاد کہلانے والا شہرگندگی اور غلاظت کا ڈھیر بن چکا ہے۔ وفاقی ، صوبائی اورشہری انتظامیہ کے متعلقہ ادارے شہر میں موجود ہیں، ان کے افسران وملازمین  ماہانہ لاکھوں، کروڑوں کی تنخواہیں اورمراعات لے رہے ہیں لیکن ان کاکام کہیں نظر نہیں آرہا، انتظامی مشینری جوکروڑوں اربوں کی خریدی گئی تھی وہ کہاں ہے۔ ضلع، اور یونین کونسل کی سطح پر جوسرکاری ادارے اور افراد ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے۔

تنقید توسیاسی جماعتوں کے قائدین پر خوب کی جاتی ہے، لیکن عملی طورپرمتعلقہ اداروں کے ہزاروںسرکاری ملازمین سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے، حقیقت میں جن کا فرض شہرکو تباہی سے بچانا ہے، وہ غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ حرف آخر جب تک ہم اختیارات گراس روٹ لیول پر منتقل نہیں کریں گے، مسائل کا دیرپا حل نہیں نکلے گا اورکوئی بھی معاشی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔