شفاف عنبر میں 10 کروڑ سال سے قید ’جہنمی‘ چیونٹی کی دریافت

ویب ڈیسک  منگل 11 اگست 2020
اس رکاز میں چیونٹی نے اپنے شکار کو جبڑوں میں جکڑا ہوا ہے، جو اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد رکاز ہے۔ (تصاویر: کرنٹ بائیالوجی)

اس رکاز میں چیونٹی نے اپنے شکار کو جبڑوں میں جکڑا ہوا ہے، جو اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد رکاز ہے۔ (تصاویر: کرنٹ بائیالوجی)

بیجنگ: سائنسدانوں نے برما سے ملنے والے، تقریباً 10 کروڑ سال قدیم شفاف عنبر کے ٹکڑے میں ایک ایسی خونخوار ’’جہنمی چیونٹی‘‘ کا رکاز (فوسل) دریافت کیا ہے جو مکمل حالت میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس چیونٹی نے اپنے جبڑوں میں لال بیگ جیسے کسی کیڑے کو بھی جکڑا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ عنبر (Amber) کسی درخت یا پودے کی وہ شفاف رال ہوتی ہے جو خارج ہونے کے بعد جم جاتی ہے اور ٹھوس حالت اختیار کرلیتی ہے۔ اگر حالات سازگار رہیں تو یہ شفاف رال اسی ٹھوس حالت میں کروڑوں سال تک محفوظ رہ سکتی ہے اور اگر رال کے بہتے دوران کوئی چھوٹا جانور یا کیڑا مکوڑا اس میں بند ہوگیا ہو تو وہ بھی اس کے اندر ہی محفوظ ہوجاتا ہے۔

اس طرح کے رکازات کو ’’ایمبر فوسلز‘‘ (عنبریں رکازات) کہا جاتا ہے جو اپنی رنگت اور شفافیت کے علاوہ اپنے اندر خاصی مکمل حالت میں محفوظ چھوٹے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے بھی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں، جبکہ نایاب ہونے کے باعث یہ مہنگے بھی ہوتے ہیں۔

دوسری جانب کروڑوں سال پہلے معدوم ہوجانے والی خطرناک شکاری چیونٹیوں کی ایک قسم ’’جہنمی چیونٹی‘‘ (Hell Ant) کے نام سے مشہور ہے۔ اب تک اس کی کئی انواع دریافت ہوچکی ہیں جن میں سب سے نئی دریافت ہونے والی نوع Ceratomyrmex ellenbergeri ہے۔ یہ وہی چیونٹی ہے جو آج سے 9 کروڑ 90 لاکھ (تقریباً 10 کروڑ) سال پہلے شکار کرتے وقت درخت کی رال میں قید ہوگئی تھی اور بعد ازاں عنبریں رکاز میں تبدیل ہوگئی۔

تاہم اس رکاز میں صرف یہی بات اہم نہیں کہ ایک چیونٹی کو بہت واضح طور پر کیڑے کا شکار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، بلکہ اس ’جہنمی چیونٹی‘ کے منہ کے مختلف حصے آج کی چیونٹیوں سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے ہمیں چیونٹیوں کے ارتقاء کو جاننے اور سمجھنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔

جہنمی چیونٹی کے چہرے پر ایک ایسا لمبوترا ابھار ہے جو شکار کو جکڑنے میں اس کی مدد کرتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ قدیم چیونٹی کا وہ اوّلین نمونہ بھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کروڑوں سال پہلے بھی چیونٹیوں کے جبڑے اوپر نیچے حرکت کرسکتے تھے اور وہ اپنے منہ سے شکار کو جکڑنے کا کام لیتی تھیں۔

جہنمی چیونٹیوں کے جبڑے اوپر نیچے بھی حرکت کرسکتے تھے جبکہ جدید چیونٹیوں کے جبڑے صرف دائیں بائیں ہی حرکت کرسکتے ہیں۔

کیڑے مکوڑوں کو سخت جان سمجھا جاتا ہے اور وہ شدید ترین ناموافق حالات میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین کےلیے آج تک یہ بات معما بنی ہوئی ہے کہ آج سے 6 کروڑ 50 لاکھ سال پہلے، جب ڈائنوسار کا اچانک خاتمہ ہوا تو چیونٹیوں کی بھی کئی اقسام صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور ان کی معدودے چند انواع سے جدید چیونٹیاں ارتقاء پذیر ہوئیں۔

چینی، امریکی اور فرانسیسی ماہرین کی اس مشترکہ تحقیق کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’کرنٹ بائیالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔