پاکستان میں ٹریفک حادثات کی سنگین صورتحال

سعدیہ اسلم  ہفتہ 15 اگست 2020
بے ہنگم ٹریفک، اوورلوڈنگ اور ڈرائیوروں کی غفلت ٹریفک حادثات کی اہم وجوہات ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بے ہنگم ٹریفک، اوورلوڈنگ اور ڈرائیوروں کی غفلت ٹریفک حادثات کی اہم وجوہات ہیں۔ (فوٹو: فائل)

زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات میں نقل و حمل کو خاص توجہ حاصل رہی ہے۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت آمدورفت کے ذرائع میں جدت پسندی واقع ہوئی۔ یہی وجہ تھی جہاں قدیم ادوار میں چند گھنٹوں کا سفر دو سے تین دن میں طے پاتا تھا، اب یہی سفر چند گھنٹوں کی مسافت سے طے ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ روز گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل موجود ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5 لاکھ تک اضافہ ہوچکا ہے جبکہ 2030 تک ان گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکیجز ہیں جس کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل باآسانی مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافہ کا باعث ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوجاتے ہیں، جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے، جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوجاتا ہے۔

اگر مختلف صوبوں میں ٹریفک حادثات کی صورت حال دیکھی جائے تو ادارہ شماریات نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں 2018-2017 کے حادثات کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی۔ صوبہ پنجاب میں 5093 حادثات ہوئے جن میں 3371 لوگ جاں بحق، 6772 افراد زخمی ہوئے۔ سندھ میں 848 حادثات ہوئے، جن میں 802 جاں بحق جبکہ 838 افراد زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں کل 4425 حادثات ہوئے جن میں 1298 جاں بحق جبکہ 6093 افراد زخمی ہوئے، جبکہ بلوچستان میں 1496 حادثات ہوئے جن میں 313 لوگ جاں بحق اور 624 لوگ زخمی ہوئے۔ اسلام آباد میں 259 حادثات ہوئے جن میں 167 لوگ جاں بحق اور 162 لوگ زخمی ہوئے۔ ان حادثات میں پنجاب سرفہرست ہے کیونکہ وہاں آبادی کا تناسب باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔

نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق 2020 میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فیصد تک بڑھ جائیں گے۔ اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ارب لیتا ہے جبکہ حادثات میں خرچ ہونے والی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آئی ہیں۔

سب سے پہلے ڈرائیور حضرات کی جانب سے ٹریفک سگنل کا توڑنا، سیٹ بیلٹ کے استعمال میں لاپروائی و غفلت، ٹریفک قوانین کے بارے میں ناقص معلومات اور تعمیل نہ کرنا، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں جیسے بریک کا فیل ہونا، گاڑی کی ناقص حالت کی وجہ سے ٹائر کا پنکچر ہونا، یا محدود مدت کے بعد ٹائروں کی حفاظت و تبدیلی نہ کروانا حادثات کی وجوہات میں شامل ہے۔ تاہم، ڈرائیورز کی لاپرواہی و غفلت گاڑیوں کی تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فیصد حادثات تیز رفتاری جبکہ 17 فیصد اموات ڈرائیورز کی بے باک ڈرائیورنگ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں 84 فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو دیکھا بھی گیا ہے کہ ڈرائیور حضرات کی طرف سے پیدل چلنے والے افراد کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ جہاں سڑک پر زیادہ رش ہو ڈرائیور حضرات شارٹ کٹ کے چکر میں فٹ پاتھ کا بھی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔

پاکستان میں کم عمر نوجوانوں کا موٹرسائیکل و گاڑی چلانے کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے خطرناک حادثات پیش آتے ہیں۔ اس لیے 24 فیصد لوگ ایسے ہیں جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں اور یہ لوگ سڑکوں پر کسی دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔

پاکستان میں پچھلے کئی عرصے میں درآمد ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 250,000 ہے۔ پاکستان میں اس وقت صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔ اس میں بننے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا مواد دو نمبر کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ایک ہی حادثے کے بعد گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے اور جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جبکہ ان میں تحفظ کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہوتا جس سے گاڑی میں سوار افراد کی جانیں بچ سکیں۔

اس کے علاوہ اوورلوڈنگ حادثات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اوورلوڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں یا ٹائر میں گرمائش زیادہ ہونے کے باعث ٹائر پھٹ جاتے ہیں جس سے بڑی گاڑیوں کو قابو کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی گاڑیوں کا سامان الٹ کر ساتھ چلنے والی گاڑیوں کو بری طریقے سے متاثر کرتا ہے۔

سڑکوں پر موٹرسائیکل چلانے والے اپنے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں دیتے۔ اگر پیچھے والوں کو اشارہ نہیں دیں گے تو غلط اوورٹیکنگ سے اچانک موٹرسائیکل و گاڑیوں کے مابین ٹکر ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کےلیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہوچکے ہیں۔ ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف آرڈیننس کی حد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔

ہم ہمیشہ سے ہی اپنے ملک کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، جس کا مقصد ان کی مثال سامنے رکھ کر بہتری کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ان اقدامات کو دیکھا جائے تو دستاویزات کی شکل میں تو موجود ہیں لیکن عملاً یہ غیر موجود ہیں۔

 

حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

حکومت کو چاہیے کہ روڈ سیفٹی کو وہ سیاسی سطح پر ترجیح دے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا ادارہ ادارہ موجود نہیں جو صرف روڈ سیفٹی پر کام کر رہا ہو۔ حکومت کو ایسی ایجنسی متعارف کرانا ہوگی جو سڑک پر حادثات سے بچاؤ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ حکومت اسے باقاعدہ وسائل فراہم کرے۔

اس کے علاوہ روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان بنانا ہوگا، جس سے اس موضوع کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جاسکے اور جسے نافذ بھی کیا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے روڈ سیفٹی پر کچھ رقم مخصوص کی جاتی ہے لیکن اس میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ فیڈرل حکومت کی جانب سے ٹریفک پولیس ڈپارٹمنٹ کو فنڈ دیے جاتے ہیں جبکہ صوبائی حکومت اس معاملے کےلیے فنڈز مختص نہیں کرتی۔ سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کےلیے بہترین سول انجینئر لائے جانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ حکومت کو پرانے ٹریفک قوانین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ ہمارے پاس موجود موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000 ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کےلیے بنائے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔

جس طرح ڈنڈے کے زور پر کام کرایا جاتا ہے اسی طرح سخت قوانین کو سامنے رکھ کر کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہاں پر جن چیزوں پر سختی سے عمل کرانا چاہیے وہ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال، قوانین کی پاسداری، جدید ٹیکنالوجی جس میں سی سی ٹی اور ڈبلیو سی سی ٹی وی کیمرے کا نظام متعارف کرانا شامل ہے، تاکہ ڈرائیور حضرات کے ساتھ پیدل چلنے والے افراد پر باآسانی نگرانی رکھی جاسکے گی۔

اسی طرح ہیوی ٹریفک کا معمول کے خلاف اندرونِ شہر میں داخلہ بند ہونا چاہیے۔ اوور لوڈنگ کرنے والوں پر چالان عائد کرنا ہونا چاہیے اور ڈرائیور حضرات کےلیے گاڑی کی رفتار مختص کرنا ہوگی، جبکہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔

روڈ سیفٹی کی ساخت اور ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ قانون بنانے والے اداروں کو ایسی پالیسی متعارف کرانی ہوں گی جو زیادہ عرصہ تک لاگو بھی کی جاسکے۔ عموماً پاکستان میں متعارف کرائے جانے والا قانون زیادہ دیر تک لاگو نہیں کیا جاتا یا وہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اس پر زیادہ دیر عمل نہیں کیا جاسکتا۔

 

گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار

گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہے۔ پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے۔ جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتیں۔ حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصان آپ سب کے سامنے ہیں۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کو وسائل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں۔

یہاں یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو کسی بڑے حادثے کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے۔ ان کمپنیوں کو ذمے داری دینے کے بعد مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔

 

صحت عامہ کا شعبہ روڈ سیفٹی پر کیا کام کرسکتا ہے؟

سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والے نقصان پر حادثات کی شدت اور اس کے نتائج کے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حادثات سے زخمی و جاں بحق ہونے والے افراد کےلیے صحت کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی، صوبائی، علاقائی اور ضلعی سطح پر اسپتالوں میں ایمرجنسی کےلیے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا چاہیے۔

لوگوں میں حادثات اور صحت پر ہونے والے سالانہ اخراجات کے بارے میں لوگوں اور اداروں کو پتہ چلنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی لاپرواہی کی وجہ سے ہونے والے خطرناک حادثات کے کس قدر منفی نتائج سامنے آرہے ہیں۔

 

روڈ سیفٹی کےلیے ایک فرد اور شہری کیا کرسکتے ہیں؟

کسی بھی ملک کا نظام شہریوں کے تعاون کے بغیر چلنا ناممکن ہے، اس لیے عوام کی جانب سے حکومت کو زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ محفوظ سڑکیں بنائے اور سڑکوں پر تحفظ کے معیار کو بلند کرے۔ شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ روڈ سیفٹی کے قوانین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کریں کیونکہ ملکی نظام کو بہتر بنانے کےلیے صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بنتی بلکہ شہریوں کو بھی ٹریفک قوانین کی پیروی کرنا لازم ہے۔

اگر ان اقدامات پر عملدرآمد کیا جائے تو پاکستان میں بڑھتے ہوئے حادثات میں بتدریج کمی لائی جاسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سعدیہ اسلم

سعدیہ اسلم

بلاگر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے سوشیالوجی میں ایم فل کررہی ہیں، مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں بلاگ اور کالم نگاری بھی کرتی رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔