دہری شہریت اور ووٹ کا حق

مزمل سہروردی  جمعرات 3 ستمبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

میں نے اپنے ایک کالم میں یہ رائے دی ہے کہ دہری شہریت والوں کو پاکستان میں انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے لکھا کہ جب تک  وہ دوسرے ملک کی شہریت ختم نہیں کرتا،اسے پاکستان میں حکمرانی کے کسی بھی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ بے شک انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دیں، کم از کم انھیں ووٹ کا حق ضرور ہونا چاہیے۔

ماضی میں تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کے  معاملے پر بہت بات ہوئی ہے۔ لیکن کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوا اور تاحال یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ تارکین وطن اور دہری شہریت کے حامل افراد کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں بھی رائے تقسیم ہے۔

تحریک انصاف ان کو ووٹ کا حق دینے کے حق میں رہی اور شاید اب بھی ہے۔ لیکن دیگر بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص ن لیگ اور پیپلزپارٹیٰ کو اس ضمن میں تحفظات ہیں۔ اسی لیے قانون سازی آج تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس تو اتنی عددی اکثریت بھی نہیں ہے کہ فیٹف جیسی اہم قانون سازی اپوزیشن کی حمایت کے بغیر کر سکے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک انصاف متنازعہ معاملات پر  قانون سازی کر سکے۔

تا ہم گزشتہ دنوں کابینہ میں منظوری دی گئی ہے کہ دہری شہریت کے حامل تارکین وطن کو ووٹ دینے اور انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ ویسے توسب کو علم ہے کہ اکیلی تحریک انصاف یہ قانون سازی نہیں کر سکتی۔ اس معاملے پر اسے اپوزیشن کی حما یت نہیں مل سکتی۔ لیکن پھر بھی تحریک انصاف کی حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ایسے کرنے جا رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں جیسے دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے،ا سی طرح انھیں ووٹ کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بیرون ملک بیٹھ کر انھیں ووٹ کا حق دینے سے پاکستان کے انتخابی عمل پر مثبت نہیں منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں صرف اور صرف مکمل پاکستانیوں کو شرکت کی اجازت ہونی چاہیے۔

میری رائے میں جن کے پاس گرین کارڈ یا دیگر ممالک میں مستقل رہائش کے پرمٹ موجود ہیں۔ انھیں بھی ووٹ کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابھی انھیں ووٹ کا حق حاصل ہے۔ ایک طرف ان کے پاس گرین کارڈ پی آر کارڈ جیسے مستقل رہائش کے اجازت نامہ موجود ہیں دوسری طرف انھوں نے پاکستانی پاسپورٹ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے تکنیکی اعتبار سے دہری شہریت کے حامل بھی ہیں لیکن نہیں بھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ چور دروازہ بھی بندہونا چاہیے۔ ان کے لیے ووٹ کا حق ختم ہونا چاہیے۔ ان پر بھی قدغن ہونی چاہیے کہ اگر انھوں نے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے تو انھیں اپنی دہری شہریت ختم کرنا ہوگی۔ تب ہی ان کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ یہ رائے دیں کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہونی چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا انتخابی نظام اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ان کو ووٹ کا حق بھی دیا جائے۔ اگر پاکستان میں متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو شاید ووٹ کا حق دینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ تا ہم حلقوں کی بنیاد پر انتخاب کی وجہ سے ان کو ووٹ کا حق دینا خطرناک ہوگا۔ اگر ان کو ووٹ کا حق دے دیا جائے تو پاکستان کی حلقہ بندی کی بنیاد پر قائم ہونے والی انتخابی سیاست مزید گندی ہو جائے گی۔ اس میں مقامی لوگوں کی رائے کا وزن کم ہو جائے گا اور یہ دہری شہریت کے حامل لوگ اپنے پیسے اور ووٹ کی طاقت سے سب کچھ ہائی جیک کر لیں گے۔

آپ دیکھیں اگر کسی ایک حلقے میں دس پندہ ہزار ایسے ووٹر بن جائیں جن کواس حلقے کے مسائل کا کچھ علم نہ ہو۔ کبھی اس حلقے میں سکونت اختیار نہ کی ہو۔ انھیں کیا معلوم کس کو اور کیوں ووٹ دینا ہے۔ دیار غیر میں بیٹھے ووٹرز کے فیصلے کیسے درست ہو سکتے ہیں۔ یہاں تو گزشتہ انتخاب میں پاکستان میں آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا تھا۔ ایسے میں بیرون ملک ووٹنگ کے بندو بست بھی مشکل ہیں۔

وہاں پولنگ اسٹیشن کیسے بنائے جائیں گے۔  ووٹنگ کیسے کرائی جائے گی۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کرالی جائے۔ یہ بھی ممکن نہیں۔ ایک پیسے والا سارے غریب تارکین وطن کو اکٹھا کرے گا اور اپنی مرضی کے ووٹ دلوا دے گا۔ سب اکٹھے بیٹھ کر مل کر ووٹ ڈال دیں گے۔ کس کا ووٹ کس نے ڈال دیا۔ کیسے معلوم ہوگا۔ ایک ہی بندہ کئی کئی ووٹ ڈال دے گا۔ اس لیے بیرون ملک ووٹنگ کا انتظام بالکل ممکن نہیں۔ اگر یہ شرط عائد کر دی جائے کہ سب واپس پاکستان آکر ووٹ ڈالیں تو صرف پیسے والے تارکین وطن ہی ووٹ کا استعمال کریں گے۔ غریب اور  ورکر کلاس کے لیے آنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے جب تک بیرون ملک ان کے لیے ووٹنگ کے انتظامات نہ کیے جائیں اس سہولت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور حلقہ بندی کے انتخابی نظام میں بیرون ملک یہ انتظام کرنا ممکن نہیں۔

ہماری سیاست میں ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں جو عملی طور پر ممکن نہیں ہوتے۔ ان کو عوام کو سبز باغ دکھانا بھی کہا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے تو اس ضمن میں ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ عوام سے وہ تمام وعدے کیے گئے جو پورے نہیں ہو سکتے تھے اور اب ہر معاملے میں یو ٹرن لیا جا رہا ہے۔ اس لیے مجھے لگ رہا ہے کہ دہری شہریت کے حامل افراد کو انتخاب لڑنے کی اجازت دینے اور انھیں ووٹ کا حق دینے کے کابینہ کا فیصلہ بھی ایک سیاست ہی ہے۔

تحریک انصاف کو اندازہ ہے کہ یہ سب ممکن نہیں ہے لیکن نعرہ لگانے میں کیا حرج ہے۔ اگر ممکن نہیں بھی ہوگا تو کل کو یہ تو کہیں گے کہ ہم نے تو کابینہ کی سطح پر فیصلہ بھی کر لیا تھا لیکن پارلیمان میں مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوا۔ چلیں اور کچھ نہیں تو چندہ تو اچھا مل جائے گا۔ ویسے بھی تارکین وطن نے پہلے بھی تحریک انصاف کو چندہ دینے اور فنڈنگ کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس کی وجہ سے تحریک انصاف فارن فنڈنگ کے کیس میں آج تک پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ کل پھر پیسے تو ملیں گے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف تارکین وطن کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔