لاپتہ شہری کا بازیاب نہ ہونا ریاستی ناکامی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 3 ستمبر 2020
عدالتوں کا کام انویسٹی گیشن کرنا نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

عدالتوں کا کام انویسٹی گیشن کرنا نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ریاستی ادارے اپنے کام میں ناکام ہو چکے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پانچ سال سے لاپتہ شہری عمران خان کی بازیابی کے لئے والدہ نسرین بیگم کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا کمیشن خود کہہ رہاہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے، عدالت کو تو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ لاپتہ افراد کے کمیشن کا مقصد کیا ہے؟ کمیشن دس دس سال تک کیس رکھ کر بیٹھا رہتا ہے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ نے کہا کہ یہ کمیشن کی حتمی رائے نہیں ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ جرم کر کے خود غائب ہوں مگر ریاست کہاں ہے؟ کوئی شخص اگر خود اپنی مرضی سے چلا گیا ہو تو بھی اس کا پتہ تو ریاست نے ہی کرنا ہے،عدالتوں کا کام انویسٹی گیشن کرنا نہیں ہے، دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی بھی کہہ دے کہ انہیں نہیں معلوم تو پھر ہم کیا کہیں؟۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی بازیابی کے لئے اداروں کو آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ 29 ستمبر تک آخری مہلت ہے شہری کو بازیاب نہ کرانے پر ناکامی تسلیم کرنا ہو گی، کوئی بندہ غائب ہو جائے اور اسے ڈھونڈا نہ جا سکے تو ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے وہ فیل ریاست بن چکی، اگر ریاست اور کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم اتنا ظرف دکھائے کہ اپنی ناکامی تسلیم کر لے۔ کیس کی مزید سماعت 29 ستمبر کو ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔