کراچی میں خالی پلاٹ سے کمسن بچی کی جلی ہوئی لاش برآمد، علاقہ مکینوں کا احتجاج

ویب ڈیسک  اتوار 6 ستمبر 2020
گھر والوں نے مروہ کو اس کی شلوار سے شناخت کیا، شک کی بنیاد پر ایک ملزم گرفتار (فوٹو : فائل)

گھر والوں نے مروہ کو اس کی شلوار سے شناخت کیا، شک کی بنیاد پر ایک ملزم گرفتار (فوٹو : فائل)

 کراچی: عیسیٰ نگری کے قریب خالی پلاٹ سے کمسن بچی کی جلی ہوئی لاش ملی جس پر علاقہ مکینوں ںے یونیورسٹی روڈ بلاک کردیا، پولیس اور رینجرز سے مذاکرات کے بعد لوگوں نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دے دیا جب کہ ٹویٹر پر بچی کے حق میں ’’ جسٹس فار مروہ‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

ایکسپریس کے مطابق عیسیٰ نگری کے قریب سابقہ ملک پلانٹ کے گراؤنڈ سے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب 5 سالہ بچی کی چادر میں لپٹی سوختہ لاش ملی، اطلاع ملنے پر ایس ایچ او پی آئی بی کالونی سب انسپکٹر شاکر پولیس پارٹی کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے اور لاش کو تحویل میں لے کر جناح اسپتال منتقل کیا۔

پولیس کے مطابق مغویہ کی شناخت 5 سالہ مروہ دختر عمر صادق کے نام سے ہوئی، مقتولہ اسی علاقے میں پیر بخاری کالونی بلاک اے کی رہائشی تھی ، مقتولہ کا ایک چھوٹا بھائی ہے جبکہ اس کے والد رکشا چلاتے ہیں ، ان کا آبائی تعلق بونیر سے ہے۔

مقتولہ کے والد عمر صادق نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مروہ جمعہ کی صبح تقریباً سات بجے گھر کے قریب دکان سے چیز لینے گئی تھی ، کافی دیر تک واپس نہ آنے پر گھر والوں کو تشویش ہوئی تو بچی کو ڈھونڈنا شروع کیا۔

دکان والے نے بتایا کہ مروہ اس کے پاس سے چیز لے کر گئی تھی تاہم کہاں گئی اسے بھی کچھ پتا نہیں تھا، ہر جگہ معلوم کیا اور علاقے کی مساجد میں اعلان کرانے پر بھی بچی کے بارے میں پتا نہیں چلا جس کے بعد ہفتے کی شام کو بچی کے والد نے پی آئی بی کالونی پولیس نے کمسن مروا کے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا جبکہ اپنے علاقے اور گلشن اقبال سمیت اطراف کے دیگر علاقوں میں مروہ کی گمشدگی کے پوسٹر لگا دیے۔

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب  ایک شخص کی نشاندہی پر میکاسا اپارٹمنٹ کے عقب میں پرانے ملک پلانٹ کے گراؤنڈ سے لاش ملی، مقتولہ کے گھر والوں اور علاقہ مکینوں نے مروہ کو اس کے زیب تن کیے ہوئے ہرے رنگ کی شلوار سے شناخت کرلیا، بچی کا جسم جلا ہوا  تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے شناخت مٹانے کے لیے لاش کو آگ لگا دی، پوسٹمارٹم رپورٹ آنے کے بعد مزید شواہد ملیں گے، پولیس نے علاقہ مکینوں کے کہنے پر بچی کی لاش کی نشاندہی کرنے والے شخص کو شک کی بنیاد پر تفتیش کے لیے حراست میں لے کر تھانے منتقل کر دیا۔

مقتولہ کے دادا کا کہنا ہے کہ ان کی نہ تو کوئی آبائی دشمنی ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی لین دین کا تنازعہ ہے۔ انہوں نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ مروہ کے اغوا اور قتل میں ملوث ملزم کو جلد گرفتار کرکے ان کے حوالے کیا جائے تاکہ ملزم کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے اور آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔

content.jwplatform.com

علاقہ مکینوں کا احتجاج، انتظامیہ کو تین دن کا الٹی میٹم

دریں اثنا واقعہ پر علاقہ مکینوں نے یونیورسٹی روڈ پر تقریباً 6 گھنٹے طویل پرامن احتجاج کیا اس دوران ظہر میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد بچی کو مواچھ گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ایکسپریس کے مطابق مظاہرے میں علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد شریک تھی جنہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ مظاہرے کے باعث یونیورسٹی روڈ پر پرانی سبزی منڈی سے حسن اسکوائر آنے اور جانے والے دونوں ٹریک پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس دوران متعدد بار پولیس حکام بھی موقع پر پہنچے اور انھیں بتایا کہ ایک مشکوک شخص کو حراست میں لیا جاچکا ہے لیکن علاقہ مکین کسی طرح بھی احتجاج ختم کرنے پر رضامند دکھائی نہ دیے اور احتجاج شام تقریباً چھ بجے تک جاری رہا۔ ٹریفک پولیس حکام موقع پر پہنچے اور ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب بھیج دیا گیا بعدازاں شام کو اعلیٰ پولیس حکام اور رینجرز کے افسران موقع پر پہنچے اور مظاہرین سے مذاکرات کیے۔

اعلیٰ حکام نے انھیں بتایا کہ حراست میں لیے گئے شخص کا طبی معائنہ کرایا جارہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ مظاہرین کو یقین دہانی کرائی کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرکے انھیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی جس پر مظاہرین نے تین روز کا الٹی میٹم دیتے ہوئے احتجاج ختم کردیا اور پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔

’’جسٹس فار مروہ‘‘ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا

 

Justice for marwah

مزید برآں سوشل میڈیا صارفین نے واقعے کی شدید مذمت کی اور ’’جسٹس فار مروہ‘‘ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اس گھناؤنے فعل میں ملوث ملزمان کو اسی طرح زندہ جلادیا جائے یا انہیں گرفتار کرکے سرعام پھانسی دی جائے، قانون ساز اسمبلی اس حوالے سے موثر قانونی سازی کرے تاکہ سرعام سزائیں دینے سے ایسے واقعات میں کمی ممکن ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔