سید منورحسن مرحوم کی داستان ہجرت

اصغر عبداللہ  پير 7 ستمبر 2020
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

سید منورحسن صاحب مرحوم کا تعلق پاکستان کی اس نسل سے تھا، جو اب بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ وہ نسل تھی جس نے پاکستان کو بنتے دیکھا تھا اور آگ اور خون کا دریا عبور کرکے پاکستان پہنچی تھی۔ سید منور حسن کے جمعیت، جماعت اور قبل اس کے این ایس ایف کے پس منظر سے تو لوگ واقف ہیں، لیکن اس سے بھی پہلے ان کے اور ان کے والدین کے تحریک پاکستان اور قائداعظمؒ سے تعلق ِخاطرکے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ جب پاکستان بن رہا تھا، سید منورحسن کے والد اخلاق حسین ایم بی ہائی اسکول دہلی میں استاد تھے۔

والدہ گھر میں محلہ کے بچوں بچیوںکو قرآن پڑھاتی اور سلائی کڑھائی سکھاتی تھیں اور اس کے عوض کوئی ہدیہ تک قبول نہ کرتی تھیں۔ وہ استانی جی کہلاتی تھیں۔ اخلاق حسین اور ان کی بیوی دونوں مسلم لیگ کے پرجوش حامی، بلکہ کارکن تھے۔ اخلاق حسین اسکول ملازمت کی وجہ سے جلسے جلوسوں میں شرکت نہ کر سکتے تھے، لیکن استانی جی مسلم لیگی جلسوں میں بھرپور شرکت کرتی تھیں، بلکہ محلہ کی دیگر خواتین کو بھی شرکت کی ترغیب دیتی تھیں۔ منورحسن، جن کی عمر اس وقت سات آٹھ برس ہوگی، وہ بھی ماں کی انگلی پکڑے ان کے ساتھ ساتھ ہوتے۔ برصغیر میں یہ سیاسی گرماگرمی کے عروج کا زمانہ تھا۔ گلیوں، چوراہوں، سڑکوں، بازاروں اورمسجدوں میں، ہرکہیں ملکی حالات و واقعات زیربحث ہوتے۔

بقول منورحسن، ان کے والد قدرے مغلوب الغضب واقع ہوئے تھے، تاہم ان کی شرافت و نجابت اور ٹیچر ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی بات توجہ سے سنتے تھے۔ وہ لوگوںکو سمجھاتے کہ مسلم لیگ کیا کہہ رہی ہے اور پاکستان مسلمانوں کے لیے کتنا ضروری ہے۔ محلہ قرول باغ میں بیش تر گھر مسلمانوں کے تھے، تاہم اکا دکا لوگ کانگریس کے بھی حامی تھے۔ محلہ میں ایسے ہی ان کے ایک جاننے والے کی کریانہ کی دکان تھی۔ منور حسن بھی وہیں سے گھر کا سودا سلف لایا کرتے تھے۔ تحریک پاکستان کے آخری دنوں میں جب مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان مخالفت بہت زیادہ ہو گئی، بلکہ تصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی تو ایک روز اخلاق حسین نے بھی اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ ہم آیندہ سے اس کانگریسی کی دکان سے سودا سلف نہیں خریدیں گے۔ بیٹے نے وجہ پوچھی تو انتہائی سخت لہجہ میں کہا، ’’ وہ کانگریسی ہے اورکانگریس مسلمانوں کی دشمن ہے۔‘‘

سید منورحسن کو وہ رات بھی اچھی طرح یاد تھی، جس رات پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے کا اعلان ہوا،اس رات محلہ قرول باغ کے تمام گھروں میں دیواروں اور چھتوں پرموم بتیاں روشن تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ اس رات ہم جلوس کی شکل میں گلیوں میں خوشی سے نعرے لگاتے پھر رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اردگرد سے قتل وغارت کی جو خبریںآ رہی تھیں، وہ بزرگوں کو سراسیمہ کر رہی تھیں۔ ہم مگر بچے تھے اور آنے والے خطرات سے بے نیاز ’پاکستان زندہ باد، قائداعظم زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے اور شور مچاتے پھر رہے تھے۔‘‘

پاکستان بننے کے بعد دہلی کے جن علاقوں میں بہت زیادہ قتل عام ہوا، ان میں سید منورحسن کے محلہ قرول باغ کا نام بھی آتا ہے۔ چنانچہ جس رات پاکستان بننے کا اعلان ہوا، اس سے اگلی صبح ہی قرول باغ مسلمانوں سے خالی ہونا شروع ہو گیا۔ اخلاق حسین کے دور نزدیک کے عزیزوں اور رشتہ داروں نے بھی نکلنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ لیکن انھوں نے گھر کے صحن میں جائے نماز بچھا لیا اور جانے سے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کے گھر والوں کو ان کے بغیر ہی نکلنا پڑا۔ تاہم چند روز بعد ان کے اعزا واقربا انھیں کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ کیمپ میں لے آئے۔ دہلی سے لاہور ہجرت کی داستان سید منورحسن مرحوم نے ایک نشست میں جن لفظوں میں سنائی تھی، آج انھی کی زبانی لفظ بہ لفظ نذر قارئین ہے:،’’ہم سامان کے بغیر ہی تانگوں پر سوار ہوئے اور پنڈت کے کوچہ میں آ گئے۔ تقریباً مہینہ بھر وہاں رہے۔ دہلی سے ٹرینوں پر جو لوگ لاہور آ رہے تھے، ان سب کو پہلے پرانے قلعہ میں پہنچنا ہوتا تھا۔ ہم بھی پنڈت کے کوچہ سے پرانے قلعہ لائے گئے۔

معلوم ہوا کہ اس روز جو ٹرین لاہور کے لیے چلی تھی، وہ راستے میں پوری کی پوری کٹ گئی ہے اورکوئی زندہ نہیں بچا ہے۔ قلعہ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ دہلی سے لاہور کے درمیان ٹرینوں کی آمدورفت فوری طور پر معطل کر دی گئی۔ پرانے قلعہ میں لوگ اتنی بڑی تعداد میں آ رہے تھے کہ گنجایش کم پڑتی جا رہی تھی۔ خانماں برباد،کسی کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ ان کے تن پر وہی دوکپڑے تھے، جو پہن کر وہ گھر سے نکلے تھے۔ صفائی کا انتظام بڑا ہی ناقص تھا، جس کی وجہ سے قلعہ بیماریوں کا گڑھ بن چکا تھا۔ ایک مہینے تک اسی حال میں یہیں رہنا پڑا۔ تاہم دہلی اور لاہورکے درمیان ٹرینوں کی آمدورفت کھلتے ہی جو پہلی ٹرین دہلی سے روانہ ہوئی، اس میں ہم لوگ بھی تھے۔ سبھی ڈرے ڈرے، سہمے سہمے اور چپ چپ تھے۔

بزرگ کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے۔ راستے میں ایک دو جگہوں پر یوںلگا کہ جیسے ٹرین پر حملہ کر نے کے لیے کرپانوں سے مسلح سکھ جتھے گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ٹرین مگر ایک بار جب چلی تو پھر رکی نہیں اور اپنی منزل مقصود کی طرف مسلسل دوڑتی رہی۔ مسلح جتھوں کو حملہ کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ جیسے ہی ٹرین لاہور پہنچی، سب کی جان میں جان آئی۔ یوں لگا کہ جیسے کسی نے ہمیں شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور اب اس سے رہائی نصیب ہوئی ہے۔ سب اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے اور سجدۂ شکر بجا لائے۔ ‘‘

دہلی سے لاہور تک کا یہ سفر کہنے کو دو شہروں کے درمیان سفر تھا، لیکن حقیقتاً یہ دو دنیاؤں کے درمیان سفر تھا، جن کے درمیان آگ اور خون کے دریا حائل تھے۔ سید منورحسن، ان کے والدین اور بھائی بہن یہ دریا پار کرکے پاکستان پہنچے تھے اور اپنا سب کچھ لٹا کر پہنچے تھے۔ ہجرت کے اس سفر نے ان کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا ۔ چنانچہ یہاں پہنچ کر پھر انھوں نے مڑ کر نہیں دیکھا، کبھی واپس جانے اور دہلی میں اپنے گھر کو پھر سے دیکھنے کی بھی آرزو نہیں کی، اور اپنی زندگی اپنے خوابوں کی اس سرزمین کو اپنے نظریہ اور سوچ کے مطابق اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے لیے وقف کر دی اور اسی جدوجہد میںاپنی جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔