’’ربڑاسٹیمپ‘‘ کرکٹ کمیٹی

سلیم خالق  پير 7 ستمبر 2020
امیج بلڈنگ کیلیے مختلف کام ہوتے رہتے ہیں لیکن حقیقت دیکھیں تو الٹ ہے۔ فوٹو: فائل

امیج بلڈنگ کیلیے مختلف کام ہوتے رہتے ہیں لیکن حقیقت دیکھیں تو الٹ ہے۔ فوٹو: فائل

2010ء کی بات ہے میں سڈنی کرکٹ اسٹیڈیم سے ہوٹل واپسی کیلیے اسٹیشن پرٹرین کا انتظار کر رہا تھا، سوچا پاکستان میں چیف سلیکٹر سے ٹیم کی شکست پر کوئی بات کر لوں،اقبال قاسم کو فون کیا تو زندگی میں پہلی بار انھیں شدید غصے کی حالت میں پایا، جیتا ہوا میچ ہارنے پر وہ بیحد افسردہ تھے، سیریز ختم ہونے کے بعد بدترین شکستوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔

ایک بار پھر جب وہ چیف سلیکٹر بنے تو بے جا مداخلت پر عہدہ چھوڑ دیا،پاکستان میں ایسی روایات کم ہی ملتی ہیں، لوگ کسی عہدے پر آجائیں تو جب تک انھیں خود ہاتھ پکڑ کر گھر نہ بھیجا جائے نہیں جاتے، مگر اقبال قاسم ان چند سابق ٹیسٹ کرکٹرز میں سے ایک ہیں جنھیں اصول پسندی کے معنی پتا ہیں، کچھ عرصے قبل میں نے’’کرکٹ پاکستان‘‘ ویب سائٹ کیلیے ان کا ایک انٹرویو کیا جس میں انھوں نے وسیم خان کی ’’شان میں گستاخی‘‘ کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ چیف ایگزیکٹیو کو پاکستان کرکٹ کے معاملات کا علم نہیں ہے۔

انھوں نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی واپسی کیلیے بھی آوازاٹھائی، جب انٹرویو ختم ہوا تو میں نے ان سے کہا اقبال بھائی کافی سخت باتیں کر گئے ہیں، بورڈ ناراض ہو جائے گا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ ’’میں نے سچی باتیں کی ہیں کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے، زیادہ سے زیادہ کرکٹ کمیٹی کی سربراہی چھوڑنا پڑے گی ناں تو چھوڑ دوں گا، مگر میرا دل تو مطمئن ہوگا‘‘ بعد میں پھر یہی ہوا کسی تنازع سے بچنے کیلیے پی سی بی نے انھیں ازخود عہدے سے تو نہیں ہٹایا مگر مشاورت ختم کر دی، اقبال قاسم نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا اور استعفی دے دیا۔

پاکستان میں ایسے سابق کرکٹرز اب کم بچے ہیں، مرحوم عبدالقادر بھی ایسے انسان تھے، وہ بھی سچ بات کرنے سے نہیں ڈرتے تھے، ورنہ بیشتر کھلاڑی بورڈ کی توجہ حاصل کرنے کیلیے میڈیا میں آ کر تنقید کرتے ہیں پھر کوئی پوسٹ مل جائے تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، حال ہی میں ایسے کئی افراد کو ملازمتیں ملی ہیں،ویسے یہ کرکٹ کمیٹی ہے کیا؟ صرف مشورے ہی دے سکتی ہے وہ بھی جب مانگے جائیں اورعمل صرف انہی پر ہوگا جو من پسند ہوں، اسے پی سی بی نے صرف ربڑ اسٹیمپ کے طور پر رکھا ہے،بڑے بڑے فیصلوں پر اسٹیمپ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بوقت ضرورت دکھائی جا سکے۔

جو فیصلہ کرلیا بعد میں کرکٹ کمیٹی کی آڑ لے لی، جیسے ندیم خان کو ہائی پرفارمنس سینٹر کا سربراہ بنانا تھا تو صرف انہی کا اقبال قاسم سے انٹرویو کرایا پھر کہا کہ کرکٹ کمیٹی کی سفارش پر تقرر ہوا، پہلے محسن خان اس کمیٹی کے چیف بنے، وسیم اکرم کو ساری عمر ’’ماضی‘‘ پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے مگر عہدہ ملنے پر انھیں دودھ کا دھلا قرار دے دیا، بورڈ ان سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھااس لیے چیف سلیکٹر یا کوچ کی پوسٹ کا آسرا دے کر استعفیٰ لے لیا۔

یقین مانیے میں نے کئی بار محسن خان سے کہا کہ انھیں بورڈ کوئی ذمہ داری نہیں سونپے گا لیکن وہ نہ مانے،بعد میں ایسا ہی ہوا، ہر کام وسیم خان خود اپنے ذمہ کیوں لے رہے ہیں؟ اس تنقید سے بچنے کیلیے پھر وہ سربراہی سے الگ ہوئے تو اقبال قاسم آئے جنھوں نے ڈمی بن کر رہنے سے انکار کر دیا،اس کمیٹی میں وسیم اکرم بھی موجود ہیں، وہ بہت بڑا نام ہیں لیکن محسن خان جیسے اپنے مخالف شخص کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو گئے، پھر وسیم خان اور اقبال قاسم کی سربراہی پر بھی انھیں کوئی اعتراض نہ ہوا، دراصل وسیم اکرم پردے کے پیچھے رہنے کے عادی ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ وہ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ عمران خان کے بہت قریب ہیں، حالیہ کچھ عرصے میں بورڈ کے تقریباً تمام اہم فیصلوں میں ان کی رائے شامل رہی، کئی دوست بھی بورڈ بھی فٹ ہو چکے، وہ خود کیوں نہیں سربراہ بن جاتے؟ یا ایک دوست معین خان بچے ہیں شاید انھیں بھی کوئی ذمہ داری مل جائے، پاکستان کرکٹ ان دنوں جس زوال کا شکار ہے اس کی اہم وجہ ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ نہ ہونا بھی ہے،حکومت اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے اس کے پاس اتنا وقت نہیں کہ پی سی بی سے پوچھے کہ آپ لوگوں نے کیوں ملکی کرکٹ کا یہ حال کر دیا، گورننگ بورڈ بھی ربڑ اسٹیمپ ہے، اس میں نئی تبدیلیوں کو بھی دانستہ روکا ہوا ہے، ایسے میں احسان مانی اور وسیم خان کو جو کرنا ہو وہ کرتے ہیں انھیں کسی کا ڈر نہیں، میڈیا بھی 95 فیصد ساتھ ہے، سوشل میڈیا پرہاری ہوئی ٹیم کو بھی ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ ورلڈکپ جیت کر آئی ہو۔

امیج بلڈنگ کیلیے مختلف کام ہوتے رہتے ہیں لیکن حقیقت دیکھیں تو الٹ ہے، ٹیم کی کارکردگی تینوں طرز کی کرکٹ میں مایوس کن ہے، کپتان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا، چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں، بھاری تنخواہوں پر تقرریاں کر کے ہائی پرفارمنس سینٹرکو سفید ہاتھی بنا دیا گیا، ڈومیسٹک کرکٹ میں تبدیلی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے، کلب کرکٹ تقریباً ختم ہو چکی، پی ایس ایل ہماری واحد کامیاب پروڈکٹ تھی مگر موجودہ بورڈ حکام کی اناپسندی اور نااہلی نے اسے بھی تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا، ملکی کرکٹ کوبہتری کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے بورڈ حکام کی کوشش ہے کہ خلاف اٹھنے والی آوازیں روک دو۔

سابق کرکٹرزکی زبان نوکری دے کربند کرا دو، ملک میں کرکٹ کب کی بحال ہوچکی تھی اس کا کریڈٹ موجودہ بورڈ لے رہا ہے اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوگا، وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ایسے کام ہی نہیں کیے جنھیں کامیابی قرار دیا جا سکے،اگلے برس احسان مانی کے تین برس مکمل ہو جائیں گے، وسیم خان اور انھوں نے ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے کیا کیا؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، ہمارے دوست تو کوئی فون پر بات کر لے یا چائے پینے گھر چلا آئے تو اسی پر خوش ہو جاتے ہیں مگر کیا واقعی پی سی بی نے کرکٹ کی بہتری کیلیے اقدامات کیے ہیں؟ سوشل میڈیا پر مت جائیں وہ حقیقت نہیں، اصل میں کیا ہو رہا ہے اس کیلیے باہر نکلیں اور دیکھیں کہ آپ کے شہر میں کتنے کلب ٹورنامنٹس جاری ہیں، یاانگلینڈ کے دورے سمیت حالیہ کچھ عرصے میں ٹیم کی پرفارمنس کا دوبارہ جائزہ لیں، سچ سامنے آ جائے گا، ورنہ بورڈ کی تعریفیں کرتے رہیں شاید آپ کو بھی کوئی نوکری مل جائے۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔