موروثی سیاست آخر کب تک ؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 23 ستمبر 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پاکستان میں موروثی سیاست پر بہت کچھ لکھا، پڑھا، سنا اور بولا جاتا ہے، لیکن خاندانی سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں موروثی سیاست سب سے زیادہ ہے۔

امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد ،انگلینڈ میں یہ تناسب 7فیصد، بھارت کی لوک سبھا میں 28 فیصد،بنگلہ دیش میں 36فیصد اور پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان جمہوری ملکوں کی فہرست میں 110ویں نمبر پر موجود ہے۔

اگر ملک بھر میں موروثی سیاست کی بات کریں تو پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان بشمول نواز شریف، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور لغاری، مزاری اور بزدار قبائل کی اجارہ داری برقرار ہے، منتخب ایوانوں میں بھی انھی خاندانوں کے افراد موجود ہوتے ہیں۔ نواز شریف اپنی بیٹی، مریم نواز کو مسلم لیگ کا لیڈر بنارہے ہیں۔

جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد مفتی محمود کی وجہ سے لیڈر بنے، جب کہ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کے بعد ان کی بیٹی قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔موروثی یا خاندانی سیاست کی یہی حالت صوبہ خیبرپختونخوا کی ہے جہاں اس وقت بڑا سیاسی خاندان پرویز خٹک کا ہے، روایتی طور پر وہاں بڑا سیاسی خاندان خان عبدالولی خان کا رہا ہے۔ ہوتیوں کا خاندان، سیف اللہ خاندان، یوسف خٹک کا خاندان، ایوب خان کا خاندان اور مولانا مفتی محمود کا خاندان اس موروثی سیاست سے فیض یاب ہوئے ہیں۔

سندھ میں موروثی سیاست  بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہاں بھی بھٹو سے محترمہ اور محترمہ سے بلاول تک کا سفر جاری ہے جب کہ بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا مسلم لیگ ن میں ایک بھی سیاستدان  ایسا نہیں ہے جو مریم نواز یا حمزہ شہباز سے بہتر ہے۔ اسی طرح حمزہ شہباز اور بلاول کا معاملہ ہے ۔

گزشتہ دنوں جو ہوئی آل پارٹیز کانفرنس پر جب کیمرہ مین جلوہ گر ہوئے تو ہم نے وہاں موروثی سیاست کے جلوے دیکھے، جن میں بلاول اور مریم نمایاں تھیں۔ اے پی سی کی بات ہوئی ہے تو یاد آیا کہ ہمارے ہاں جب بھی جماعتیں اکٹھی ہوتی ہیں تو یہ حکومت کو گرانے کے لیے ہی اکٹھی کیوں ہوتی ہیں؟ یہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اکٹھی کیوں نہیں ہوتیں؟ جمہوریت کے ساتھ یہ کیسا مذاق ہے کہ جب دل کرتا ہے یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں، اور جب دل کرتا ہے یہ ایک دوسرے کو گالیاں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر دل کرے تو ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے تک آجاتے ہیں اور اگر دل کرے تو یہ ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے ہیں۔ اب لوگ اس بات پر اکٹھا ہوئے ہیں کہ موجودہ حکومت انھیں نہ تو این آر او دے رہی ہے اور نہ ہی منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اور بہانہ یہ ہے کہ انھیں سیاسی انتقام کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔  پہلے یہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ ایک دوسرے پر کیسز بناتے تھے اور پھر صلح کر لیتے ۔  اب جب کہ ایسی صورتحال نہیں ہے۔ عدالتیں جب ان کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہیں تو بہت اچھی ہوتی ہیں، اور اگر ان کے خلاف فیصلہ آجائے تو یہ لوگ عدلیہ پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

بہرکیف روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty Democracy Notis میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست ختم کرنے یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جب کہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔لیکن یہاں انھی قوتوں نے آج تک نہ تو عدالتی نظام ٹھیک ہونے دیا اور نہ ہی صاف شفاف الیکشن کروائے۔ اس لیے ان پارٹیوں سے ہم اُمید کرتے ہیں؟ یعنی ہم خود بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان میں خاندانوں کا اقتدار ختم ہو۔ ہمیں بھی وراثتی پارٹیاں ہی پسندہیں۔

آپ پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں، اعتزاز احسن، رضا ربانی جیسے لوگ ہیں۔کیا یہ نالائق ہیں؟ جن کی پوری دنیا قابلیت کی معتقد ہے انھیں یہ پارٹیاں سائیڈ لائن کرکے خود اقتدار میں آ جاتی ہیں ۔ خاندانی سیاست اس وقت ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور ان کی اولادیں عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیںیا یوں سمجھ لیجیے کہ عوام پر مظالم ڈھانے کے لیے۔

اگر موثر قیادت کے لیے تجربہ اور ذمے داری ضروری ہے تو پھر اچانک ابھرنے والی قیادتیں، جیسے بلاول بھٹو، مریم نواز شریف، حمزہ شریف وغیرہ، راتوں رات اپنی جماعتوں کے حقیقی سربراہ نہیں بن سکتے بلکہ انھیں سیاسی ’’سجادہ نشین کہا جائے تو بہتر ہو گا۔

حقیقی قیادت کے لیے انھیں بنیادی حقوق کی فراہمی کا سبق سیکھنا ہوگا۔ نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں ووٹرز کو عام انتخابی وعدوں اور شخصیت کا سحر زیادہ عرصے تک جکڑے نہیں رہ سکتا۔اسی لیے ان نومولود سیاستدانوں کو اگر واقعتا سیاستدان بننا ہے تو عوام کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی یا اپنی سیکنڈ لائن قیادت کو اوپر لانا ہوگا اور ان کے تجربے سے خود کو نکھارنا ہوگا ، وطن عزیز اس وقت دوراہے پر ہے یہاں حقیقی لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے،  ولی عہدی نظام کو چھوڑیں اور حقیقی معنوں میں عوامی سیاست کریں۔ ورنہ ملک یونہی تباہی کی جانب گامزن رہے گا۔بقول ساغر صدیقی

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں

کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔