اپوزیشن اتحاد کا سربراہ کون

عبدالقادر حسن  بدھ 23 ستمبر 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اپوزیشن جو اقتدار سے باہر گویاتمام جماعتوں پر مشتمل ہے۔ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹی کانفرنس کے بعد اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جس کے پہلے مرحلے میںریلیاں اور جلسے منعقد ہوں گے جب کہ جنوری میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا، اس کے علاوہ حکومت کی تبدیلی کے لیے اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اجتماعی استعفوں کی حکمت عملی بھی احتجاجی تحریک کا حصہ ہو گی۔

اپوزیشن کے ایک دن کے اجتماع سے آصف علی زرداری نے کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے جب کہ میاں نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔آصف زرداری نے اپنے خطاب میں نہایت محتاط الفاظ کا انتخاب کیا اور کسی قسم کی متنارع گفتگو سے پرہیز کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ قید و بند کی مزید صعوبتیں برداشت کے لیے بھی تیار ہیں۔ میاں نواز شریف ایک مدت کے بعد چاک و چوبند اور صحت مند نظر آئے ہیں، ان کے خطاب کا لب لباب یہ تھا کہ ان کی تحریک عمران خان کے بجائے ان طاقتوں کے خلاف ہے جو ان کو اقتدار کو مسند تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

انھوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ ملک کے مقتدر حلقوں سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کے اس خطاب پر جہاں پر حکومتی مشیروں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں پر سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے مشیروں نے ان کے پاؤں پر کلہاڑی مار دی ہے ۔

نواز شریف نے ہر دفعہ اقتدار ملنے کے بعد فوج سے لڑائی کی اور اداروں کو کمزور کیا ۔ چوہدری شجاعت حسین جو ایک طویل مدت تک میاں نواز شریف کے اہم اتحادی رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی تقریر کا مفہوم یہ ہے کہ وہ سیاستدانوں کے نہیں بلکہ فوج کے خلاف ہیں۔جب فوج ان کے حق میں تھی تو اچھی تھی اب بری ہوگئی ہے جب کہ چیئر مین نیب کی نامزدگی بھی انھوں نے خود کی تھی ۔

حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سربراہ کون ہے، اس کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔ آل پارٹی کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر براہ راست نہ دکھانے پر شکوہ کیا جس کا الزالہ ایسے کیا گیا کہ کانفرنس کا اعلامیہ مولانا فضل الرحمن نے پڑھا ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں حکومت مخالف کانفرنس میں تو شریک ہو گئیں لیکن بے دلی سے شریک ہوئیں اور ان میں کسی ایک کی سربراہی پر اتفاق نہیں ہو سکا ۔

اپوزیشن کے گھوڑے کی لگام کون تھامے گا اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا جو مستقبل میں اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے تعین کے لیے کافی ہے کہ ہر جماعت اپنے قائدین پر بھروسہ کرے گی اور اپنا الگ الگ احتجاجی لائحہ عمل مرتب کرے گی یعنی اپوزیشن جماعتوں میںاعتماد کا فقدان برقرار ہے گاجو اس بات کا اعلان ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں کے لیڈران کسی ایک کی سربراہی پر اعتماد کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔

ان حالات میں مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان یاد آتے ہیں جو حکومت مخالف ہر اتحاد کے حسب معمول اور حسب دستور متفقہ سربراہ ہوتے تھے یعنی وقت کی گردشوں اور کلفتوں سے بے نیاز اور بے پرواہ۔ سیاسی اتحادوں کی سربراہی انھوں نے اس اولین سیاسی اتحاد سے شروع کی تھی جس نے مادر ملت فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا ۔ صدارت کے اس الیکشن میں مادر ملت کو شکست دلا دی گئی ۔

ایک اخبار نے اس پر ایک سرخی جمائی تھی ’’ الیکشن کمیشن نے ایوب خان کی کامیابی کااعلان کر دیا‘‘ ۔ ایوب خان جیسا بھی تھا بالآخر چلا گیااور اس کے بعد اس ملک نے سکھ کا سانس نہیں لیا ۔ کئی سیاسی تحریکیں شروع ہوئیں، عروج پر پہنچیں اور پھر مر گئیں ۔ ایک تحریک سے دوسری تحریک نکلتی آئی ۔ ایک جلسہ سے دوسرا جلسہ اور ایک جلوس سے دوسرا جلوس برآمد ہوتا رہا ۔ آنسو گیس اور گولی سب چلتے رہے ۔ قید وبند کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔

شور، ہنگامہ، نعرہ، خشت باری پیچھا کرتے ہوئے آگے بھاگتے ہوئے قدموں کی دبڑ دبڑ ، ہر ہنگامے کے بعد ایک نیا لیڈر آیا ، حکمران بنایا گیا اور پھر وہ ایک دوسرے ہنگامے کی نذر ہو گیا ۔ جمہوری سیاست میں سے فوجی آمریت برآمد ہوتی رہی اور فوجی آمریت میں سے جمہوری سیاست ۔ ایک شیطانی چکر چلتا رہا، ابلیس سیاست رقص کرتا رہا۔ نوابزادہ صاحب کی جمہوریت سے کمٹ منٹ بلا شک و شبہ رہی، آخر وقت تک وہ جمہوریت کی پرورش کے لیے ساغر و مینا اپنے سامنے رکھے رہے ۔

نوابزادہ صاحب کی وفات کے بعد اپوزیشن اتحادوں کی قیادت کا قحط پڑ گیا ہے۔ یہ جو نیا اتحاد قائم ہوا ہے، آل پارٹیز کانفرنس میں قائدین کی تقاریر اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ ان کے مقاصد الگ الگ ہیں۔ کل کے حکمران آج زیر عتاب ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے ،کچھ مدت پہلے تک ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک دوسرے کی سیاسی حریف تھیں لیکن لندن میں محترمہ بینظیر شہید اور نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد فرینڈلی اپوزیشن میں بدل گئیں۔

عمران خان کی حکومت نے ان دونوں پارٹیوں میں سیاسی فاصلے کم کیے ہیں، اسی تناظر میں ایک نئے میثاق کی بات ہو رہی ہے۔ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حکومت گرانے کے لیے تمام راستے اختیار کرنے کو تیار ہیں۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو پہلا فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اس اتحاد کی سربراہی کون کرے گا اور یہی فیصلہ اس نئے اپوزیشن اتحاد کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔