تین گونگے بہرے نوجوانوں کی داستان عزم و ہمت

نوید جان  اتوار 4 اکتوبر 2020
معذوری کو مجبوری بنانے کے بجائے انہوں نے دوسروں کے لیے مثال قائم کی۔ فوٹو : فائل

معذوری کو مجبوری بنانے کے بجائے انہوں نے دوسروں کے لیے مثال قائم کی۔ فوٹو : فائل

دنیا کی اس امتحان گاہ میں ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے، کوئی زر و مال، شہرت اور اقتدار کے ذریعے توکوئی غربت، بھوک، افلاس اور محکومی کے ذریعے۔ کوئی صحت و تندرستی اور طاقت کے ذریعے توکوئی بیماری اور معذوری کی صورت میں آزمائش کا سامنا کر رہا ہے۔

اوّل الذکر آزمائش میں سرخرو ہونا نسبتاً آسان ہے، مثال کے طور پر کسی شخص کے پاس بے تحاشا دولت یا اقتدار ہے تو وہ اس کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت کر کے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن دیگر کچھ آزمائشیں بہت سخت ہیں مثلاً بہت زیادہ غربت، بھوک، افلاس، بیماری وغیرہ۔ تاہم معذوری ایک ایسی کڑی آزمائش ہے جس کا اندازہ صرف اس میں مبتلا ہونے والے ہی کر سکتے ہیں اور سرخرو وہی لوگ ہوتے ہیں جو ان آزمائشوں کا حوصلے اور جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہیں۔

دوسری طرف اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مملکت خداداد میں عام آدمی کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرٹ پر فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے اہل لوگوںکوکم ہی مواقع ملتے ہیں، اس طرزعمل سے زیادہ تر پڑھے لکھے، قابل اورذہین نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور پھر حالات اور نظام کو کوسنے لگتے ہیں۔ ان میں ایک قابل ذکر تعداد ذہنی خلفشار کا شکار ہوکر اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہے یاکچھ منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہونے میں دیر نہیں لگاتی، جس سے معاشرہ مزید بگاڑ اور مایوسی کی راہ پر جا نکلتا ہے۔

ایسے میں معدودے چند لوگ مشکلات اور کھٹنائیوں کا ہمت اور عزم سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن ان افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے جو دل برداشتہ حالات اور نظام سے مایوس نوجوانوں کے لیے مثال بنتے ہیں۔ ایسے ہی باہمت اورکامیاب لوگوں میں اگرکسی جسمانی معذوری کا شکار افراد بھی شامل ہوں تو وہ معاشرے کے لیے بہترین مثال ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی محنت اور حوصلے کو وہ قدر و منزلت نہیں ملتی جس کے وہ حقیقی معنوں میں حق دار ہوتے ہیں۔

یہ من حیث القوم ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ جن کے پاس دولت اور اختیار ہو ہم ان کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں لیکن محنت کش، ہنرمند، خوددار اور باہمت لوگوں کو کوئی اہمیت یا وقعت نہیں دیتے، جوگمنام ہیروزکی طرح اپنے حصے کے دیے جلاکر تاریکیوں کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہاں ایسے تین بہادر، جفاکش اور محنتی قوت سماعت وگویائی سے محروم نوجوانوں کی کتھا بیان کی جا رہی ہے جنہوں نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ ویسے تو کئی گونگے، بہرے لوگ اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالنے کے لیے کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں جن میں زیادہ تر آپ کو درزی کی دکان پر ملیں گے کیوں کہ یہ نسبتاً آسان اورکم مشقت والاکام ہے۔ اسی طرح دیگر پیشے بھی ہیں جن سے یہ لوگ وابستہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر قوت سماعت وگویائی سے محروم لوگوں کو معاشرے کا ایک ناکارہ حصہ سمجھتے ہوئے نظراندازکیا جاتا ہے جس کے باعث وہ اپنے خاندان یا معاشرے پر بوجھ بنتے ہیں۔ راج مستری جیسے مشکل اور محنت طلب کام میں اپنا ایک معیار اور نام بنانے والے یہ تینوں گونگے بہرے محنت کش ہمارے معاشرے کے لیے ایک بہترین مثال ہیں۔

یہ تینوں باہمت نوجوان کافی عرصہ سے راج مستری کے طور پر اکٹھے کام کرتے ہیں اور دور دور تک ان کی محنت اور معیاری کام کے چرچے ہیں، جس کے باعث ان کا ایک بھی دن بغیرکام کے خالی نہیں گزرتا۔ ان کی خوبی یہی ہے کہ تینوں کام شروع کرنے سے لے کر چھٹی تک بس اپنے کام میں ہی مگن رہتے ہیں، جس سے ان کے کام میں مسلسل نکھار آ رہا ہے۔ ان تینوں کا تعلق خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں محب بانڈہ سے ہے، جن میں دو بھائی اور تیسرا ان کا ماموں زاد ہے۔ دو بھائیوں کی مرحوم والدہ بھی قوت سماعت و گویائی سے محروم تھیں جب کہ والد حفیظ الرحمان ایک تندرست انسان ہیں۔

ان کے والدین نے علاقے میں قوت سماعت وگویائی سے محروم لوگوں کا سکول نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کوعام سرکاری سکول میں داخل کرایا، ان کو اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ بچے یہاں کس طرح پڑھ سکیں گے لیکن انہوں نے بہ امر مجبوری یہ قدم اٹھایا۔ ان بچوں کو دیگر مشکلات کے علاوہ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی درپیش آیا کہ ہم جماعت انہیں معذوری کے باعث چھیڑنے لگے جس سے ان کو آئے روز ایک نئی آزمائش سے گزرنا پڑتا۔

آخر کار چند جماعتیں پڑھنے کے بعد ان کو سکول سے اٹھوایا گیا، تھوڑا عرصہ یہ بچے گلی کوچوں میں کھیلتے، گھومتے پھرتے رہے لیکن بعد میں ان کے ماموں اور چچا جو خود بھی قوت سماعت وگویائی سے محروم اور راج مستری ہیں، ان کو اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ لڑکے کام کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ اس دوران حیدرعلی اور زبیرعلی کی شادیاں بھی ہوئیں اور دونوں کو اللہ نے بچوں سے بھی نوازا ہے۔ اس وقت حیدر علی اور زبیرعلی دونوں مشترکہ طور پر اپنے کنبے کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، ان کی دوبہنیں بھی قوت سماعت وگویائی سے محروم ہیں۔

ان کے ساتھ مزدوری کرنے والا ان کا ماموں زاد سلیمان خان بھی اس معذوری کا شکار ہے، جس کی عمر ابھی بمشکل سولہ سال ہوگی۔ اس کے والد بھی راج مستری ہیں اورقوت سماعت و گویائی سے محروم ہیں لیکن بدقسمتی سے پچھلے کئی سال سے وہ بینائی کی نعمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں، جس سے ان کی زندگی مزید تاریکی میں چلی گئی ہے۔ سلیمان خان کی تین بہنیں بھی بول اورسن نہیں سکتیں جب کہ ایک بہن عام سکول میں اس وقت میٹرک کی طالبہ ہے۔ سلیمان خان کے چار بھائیوں میں صرف ایک بول اور سن سکتا ہے۔

ایک نشست میں اشاروں کنایوں سے بات سمجھاتے ہوئے حیدرعلی نے بتایا: ’’پہلے پہل جب ہمیں محسوس ہوا کہ دوسرے لوگوں کی طرح ہم بول اورسن نہیں سکتے توانتہائی دکھی ہوتے اور پریشان رہنے لگتے، ایسے میں جب کوئی بندہ ہمارا مذاق اڑانے کی کوشش کرتا تو بہت تکلیف پہنچتی۔ اوپر سے ہم اپنے دل کا مدعا کسی کو سمجھا بھی نہیں سکتے تودل ہی دل میں کڑھتے رہتے جس سے ہم مزید مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتے۔ ایسے میں ہم اپنے آپ کو دنیا کی حقیر ترین شے سمجھتے، دنیا سے ہمارا دل اچاٹ ہو چلا تھا لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ اللہ کی ذات سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

اس نے جو بھی شے تخلیق کی ہے وہ بے کار نہیں۔ ہم نے ہمت باندھی اور والدین نے ہمیں اپنے ماموں کے ساتھ، جو خود بھی معذور ہے، مزدوری کرنے بھیج دیا۔ وہ پہلا دن ہم کبھی بھی نہیں بھولیں گے، بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، پہلے دن کام کی بالکل بھی سمجھ بوجھ نہ ہونے پر جو ڈانٹ ڈپٹ ہوئی وہ آج تک یاد ہے۔ خیر رفتہ رفتہ ہم کام کے عادی ہوتے گئے لیکن عام لوگوں کی طرح باتیں نہ کرنے کا ہمیں یہ فائدہ بھی ہوا کہ ہم نے اپنے کام پر خصوصی توجہ دی، جس کے باعث ہم بہت جلد راج مستری کاکام سمجھنے اور سیکھنے لگے۔ ہمارے استاد اور جس گھر میں ہم کام کرتے وہ لوگ بھی ہمارے کام سے متاثر ہونے لگے، اب لوگوں نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اوران کا رویہ بھی تبدیل ہوتا گیا، یوں اب تک بے شمارگھر بنا چکے ہیں۔‘‘

اشاروں کی زبان بولتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں لیکن اس مقصد کے لیے باقاعدہ ادارے بنانے چاہیں جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کوکوئی ہنر سکھایا جائے تاکہ وہ عملی زندگی میں کسی کے محتاج نہ ہوں اور ایک باعزت زندگی بسر کریں۔ ہم پر ترس کھانے کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعے پروفیشنل تعلیمی اور تربیتی اداروں کے قیام پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘

خصوصی افراد، حکومت کی خصوصی توجہ کے منتظر

معذور افراد کی تعلیم و تربیت اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروںکو ٹھوس بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا میں خصوصی افراد کے لیے اس وقت محکمہ سوشل ویلفئیرکے زیرانتظام 27 رفاہی ادارے قائم ہیں جب کہ 13پر کام جاری ہے۔

ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچوں کے لیے 13 اور بینائی سے محروم بچوں کے لیے 8 ادارے ہیں۔ اسی طرح گونگے بہرے بچوں کے لیے19ادارے قائم ہیں جن میں کوہاٹ، ملاکنڈ اور پشاور میں دو دو، مردان میں تین، جب کہ دیرلوئر، ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چارسدہ،کرک، ڈی آئی خان، بنوں اور بونیر میں ایک ایک ادارہ کام کررہاہے۔ خصوصی افراد کے لیے قائم ان تعلیمی اداروں میں مجموعی طور پر 27 سو سے زائد بچوں کی تعلیم وتربیت کاسلسلہ جاری ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت ان خصوصی اداروں میں تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے جس میں مختلف قسم کے آلات، رہائش کی سہولیات سمیت بعض سکولوں کو بسیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ مختلف اضلاع میں قائم ان اداروں میں فیسوں اور عمر میں رعایت اور روزگارکے مواقع دینے سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے معذور افراد کے لیے بھریتوں کاکوٹہ دوسے بڑھا کرپانچ فی صدکر دیا گیا ہے۔ اسی طرح آئندہ چند ماہ میں مزید 14 ادارے چارسدہ، مردان، صوابی،کوہاٹ، کرک، شانگلہ ،کوہستان، بٹ گرام، بونیر اور ملاکنڈ میں کام شروع کردیں گے۔

اگرچہ خیبرپختون خوا میں برسراقتدار تحریک انصاف کی حکومت دیگر شعبوں کے مقابلے میں تعلیم پر سب سے زیادہ بجٹ خرچ کررہی ہے لیکن قوت سماعت وگویائی سے محروم، ذہنی اور جسمانی طورپر معذور بچوں کے لیے پرائمری سے آگے تعلیم کے مواقع انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں بے زبان بچے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ خصوصی بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر میں خصوصی بچوں کے لیے گنتی کے چند تعلیمی ادارے قائم ہیں جب کہ ہر سال ایسے بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں معروف معالج ڈاکٹرضیاء الرحمان کا کہنا ہے کہ ابھی تک سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی کہ پیدائشی طور پر گونگے اوربہرے افراد کا علاج کیا جائے، لیکن پھر بھی ان کو ایک اچھی زندگی گزارنے کی طرف لایا جاسکتا ہے۔

عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جن گونگے بہرے لوگوں نے کوئی ہنر یا فن سیکھا ہو وہ دیگر عام افرادکی نسبت بہتر کام کرتے ہیںکیوں کہ ان کی توجہ اپنے کام پر ہوتی ہے جس کے باعث ان کے کام میں نفاست اورعمدگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ضرورت اس امرکی ہے کہ ان خصوصی افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے بنائے جائیں، اگر ان میں فنی تربیتی ادارے شامل ہوں تو یہ خصوصی افراد معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔

قوت سماعت و گویائی سے محروم چند طلبہ نے حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر ایک مہم کا آغازکیا ہے جس میں وہ اپنے لیے تعلیم کے بنیادی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومتی رویے سے مایوس یہ بچے بول بھی نہیں سکتے لیکن پھر بھی انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اب وہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا میں خصوصی بچوں کاکوئی تعلیمی بورڈ نہیں اور نہ ہی پرائمری سے آگے تعلیم کی باقاعدہ سہولیات ہیں۔

پاکستان میں معذور افراد کی کسمپرسی کی بنیادی وجہ سرکاری سطح پر ان کے لیے سہولیات کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے کوٹہ مختص ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، اس کے علاوہ سرکاری دفاتر اور پبلک مقامات پر بھی معذور افراد کو قابل ذکر سہولیات میسر نہیں۔ ایک قابلِ توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں معذور افراد کو تعلیم دینے کے لیے مخصوص سکول بنائے گئے ہیں جب کہ مغربی ممالک میں ایسا نہیں، وہاں معذور افراد کو عام افراد کے سکولوں اورکالجوں میں ہی تعلیم دی جاتی ہے جس کے لیے اساتذہ اور دیگر عملے کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔

جس طرح خصوصی افراد کو معذوری کی صورت میں ایک کڑی آزمائش کا سامنا ہے وہیں جسمانی طور پر صحت مند لوگوں کو بھی ایک آزمائش میں مبتلا کیاگیا ہے کہ وہ اپنے معذور بہن بھائیوں، بچوں اور بزرگوں کی مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ معاشرے میں اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں جعلی این جی اوز پوری طرح سرگرم عمل ہیں جو معذور افراد کے نام پر بھاری چندے جمع کرکے خود ہڑپ کر رہی ہیں لیکن حکومت ان کی شناخت کرنے اور انہیں روکنے میں ناکام ہے۔

معذور افراد کی بحالی کے لیے حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے۔ کسی زمانے میں قومی ٹی وی پر قوت سماعت وگویائی سے محروم افراد کے لیے ’’اشاروں کی زبان‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ پروگرام چلاکرتا تھا، جس میں ان افراد کی تعلیم وتربیت کااہتمام کیا جاتا۔ اسی طرح کچھ عرصے کے لیے پی ٹی وی پر خبریں پڑھنے والے نیوزکاسٹر کے ساتھ ایک ماہرشخص اشاروں کی زبان میں قوت سماعت وگویائی سے محروم افراد کو خبریں سمجھاتا لیکن اس قسم کی کاوشیں اب کہیں بھی نظرنہیں آ رہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی کل آبادی کا تقریباً 10فیصد حصّہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں 35 لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں، ان میں سے 8.6 فیصد نابینا، 7.43 فیصد گونگے بہرے، 18.93فیصد لنگڑاہٹ، 7.60 فیصد پاگل پن اور 43.37 فیصد کسی اور قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ 8.23 فیصد افراد ایسے ہیں جنہیں ایک سے زائد معذوریوں کا سامنا ہے۔

پاکستان میں معذور افرادکی تعداد کے اعتبار سے صوبہ پنجاب سرِ فہرست ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ عملی طور پرثابت ہوچکا ہے کہ اگر قدرت نے کسی کو معذوری کی آزمائش میں مبتلاکیا ہے تو اسے کچھ اضافی صلاحیتیں بھی دی ہیں۔ مغربی ممالک کو اِس کا ادراک ہے لہٰذا وہ معذور افراد کو ہر ممکن سہولیات مہیاکر رہے ہیں، جس کی بدولت وہ نہ صرف نارمل افراد کی طرح زندگی گزار رہے ہیں بلکہ ایسے کارہائے نمایاں بھی سرانجام دے رہے ہیںجو لاتعداد صحت مند افراد کے بس کا بھی روگ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔