قومی سیاست میں خواتین پیچھے کیوں؟؟

احسن کامرے  اتوار 4 اکتوبر 2020
پہلی قانون ساز اسمبلی سے موجودہ پارلیمنٹ تک

پہلی قانون ساز اسمبلی سے موجودہ پارلیمنٹ تک

خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں اور ملکی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ امور خانہ داری سے لے کر پارلیمنٹ تک، شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہوجہاں خواتین نے اپنی قابلیت کا لوہا نہ منوایا ہو۔

تحریک آزادی کی خاتون رہنما مادر ملت فاطمہ جناحؒ سے لے کر پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو تک، یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاست میں خواتین کافی مضبوط ہیں اوران کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے بہترین کام ہو رہا ہے مگر انٹر پارلیمنٹری یونین جوکہ قومی اسمبلیوں پر مشتمل ایک عالمی ادارہ ہے، کی رپورٹ کے مطابق پاکستان،پارلیمنٹ میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے 107 ویں نمبر پر ہے جبکہ روانڈا، صومالیہ اور افغانستان جیسے ممالک ہم سے کہیں بہتر ہیں۔

پاکستانی خواتین کے پارلیمانی کردار کا جائزہ لیا جائے تو ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مساوی شہری ہونے کے ناطے خواتین کو ملکی سیاست میں وہ کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی دیا گیا جو اس کا بنیادی حق ہے مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ قانون سازی اور سیاسی شعور میں اضافے کی وجہ سے خواتین کا سیاسی کردار بڑھ رہا ہے جس کے بعد اب خواتین خود کو ملکی سیاست میں متحرک اور فعال بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔

تاریخی پس منظر

مادر ملت فاطمہ جناحؒ اور ان کی ساتھی خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ تحریک آزادی پاکستان میں مضبوط کردار ادا کیا مگر آزادی کے بعد خواتین کی یہ طویل جدوجہد انہیں قومی سیاسی دھارے میں وہ مقام نہیں دلوا سکی جس کی وہ حقدار تھی۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی جو 1947 سے 1954 تک رہی، کے 79 اراکین اسمبلی میں سے صرف 2 خواتین بیگم شائستہ اکرام اللہ اور بیگم جہاں ٓرا شاہنواز تھیں۔ 1956ء کے بالواسطہ انتخابات میں کوئی بھی خاتون منتخب نہیں ہوئی اور اس طرح پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل میں خواتین اپنا کردار ادا نہیں کرسکیںالبتہ 1956کے آئین میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے خواتین کے حق رائے دہی کا اصو ل طے کیا گیا جس سے انہیں دہرے ووٹ کا حق حاصل ہوا، ایک ووٹ جنرل سیٹ کیلئے اور ایک خواتین کی مخصوص نشست کے لیے۔اس سے یہ یقین تھا کہ اب خواتین ملکی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گی مگر 1962ء کے آئین میں اسے ختم کردیا گیا۔

فیلڈ مارشل جنرل (ر) ایوب خان کے اس اقدام سے خواتین کی سیاسی جدوجہد کو زور دار دھچکا لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف 6 خواتین ہی بالواسطہ انتخابات کے ذریعے اسمبلی کا حصہ بن سکی۔ خواتین کے سیاسی منظر نامے میں اہم موڑ اس وقت آیا جب فاطمہ جناحؒ نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ نے خواتین میں ایک نئی تحریک پیدا کی۔ ملک کے طول و عرض میں خواتین میں جوش و ولولہ پیدا ہوا، ان کی انتخابی سرگرمی بڑھ گئی اور الیکشن سے پہلے ہی ان کی جیت نظر آنے لگی ۔ فاطمہ جناحؒ نے الیکشن بھرپور طریقے سے لڑا مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔

ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اگر انتخابات شفاف ہوتے تو فاطمہ جناحؒ ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوتی۔ 1962ء سے 1965ء تک، 156 ارکین اسمبلی میں سے صرف 8خواتین تھی اور اس کے بعد آنے والی اسمبلی جو کہ 1965 سے 1969تک رہی، میں خواتین کی یہ تعداد کم ہوکر 6 رہ گئی۔ بھٹو خاندان کی خواتین کی سیاسی شمولیت کے بعد خواتین کا حوصلہ مزید بلند ہوا۔1970ء کے انتخابات میں 9 خواتین نے حصہ لیا مگر کوئی بھی خاتون کامیاب نہیں ہوسکی اور کسی بھی خاتون کوالیکشن جیت کر اسمبلی میں آنے میں 7 برس لگے۔ یوں 1977 ء کے انتخابات میں بیگم نسیم ولی خان واحد خاتون تھی جنہوں الیکشن لڑا اور جیت گئیں۔

 حوصلہ افزاء رجحان

1977ء سے انتخابی اور پارلیمانی سیاست میں خواتین کے کردار میں بتدریج اضافہ ہوا اور 2008ء میں اس حوالے سے عروج دیکھنے میں آیا۔جنرل ضیاء الحق دورکے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں 15 خواتین نے حصہ لیا مگر صرف ایک خاتون ہی کامیاب ہوسکی۔تین برس بعد 1988ء میں الیکشن جیتنے والی خواتین کی تعداد 4 ہوگئی جن میں مستقبل کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو شامل تھی۔ 1997ء کے انتخابات میں 34 خواتین نے حصہ لیا مگر جیت کا تناسب کم رہا اور صرف 6 خواتین ہی اپنی نشست بچاسکی۔ بہرحال یہ تعداد ماضی میں انتخاب جیتنے والی خواتین سے زیادہ تھی۔  جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت نے خواتین کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 17 فیصد نمائندگی دی۔

اس قانون سازی کے بعد2002 سے 2007تک گیارہویں اسمبلی کے 342 اراکین میں سے 69 خواتین تھی جو ملکی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ 2002ء کے انتخابات میں خواتین کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں 75 خواتین نے انتخاب لڑا جن میں سے 13 کامیاب ہوئی۔ یہ رجحان 2008ء تک قائم رہا اور اس سال انتخاب لڑنے والی 64 میں سے 16 خواتین جیت اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 2013 ء کے انتخابات میں الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا مگر کامیاب ہونے والی خواتین کی تعداد گزشتہ انتخابات کی نسبت کم رہی۔

اس مرتبہ 161 خواتین نے الیکشن لڑا مگرصرف 9 خواتین کامیاب ہوئی جن میں سے 6 عام انتخابات میں جبکہ 3 ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ الیکشن ایکٹ 2017 خواتین کی سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کیلئے ایک اور اہم قدم تھا۔ اس ایکٹ کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ہر جماعت انتخابی ٹکٹوں کا کم از کم 5 فیصد خواتین امیدواروں کو دیں گی تاکہ انہیں سیاسی طور پر مزید متحرک کیا جائے، ان کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جائے اور انہیں عملی طور پر انتخابی میدان میں اتارا جائے۔ بدقسمتی سے ملک کی 45 فیصد سیاسی جماعتوں نے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بھی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا جبکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی بامشکل یہ ٹارگٹ  پورا کر سکی۔

اس کے باوجود ان انتخابات میں ملکی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ خواتین نے الیکشن لڑا مگر کامیابی کی شرح ماضی کے انتخابات کی طرح کم رہی۔ ناقدین کے مطابق سیاسی جماعتوں نے زیادہ تر خواتین کو ان نشستوں کیلئے ٹکٹ دیے جن پر ان کی جیت کے امکانات نہیں تھے یا پھر ان خواتین کو ٹکٹ دیے گئے جو خاندانی طور پر مضبوط تھی اور ان کا تعلق کسی سیاسی خاندان سے تھا۔ اس طرح الیکشن ایکٹ 2017ء میں 5 فیصد ٹکٹوں کی شرط رکھنے کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے اور الیکشن لڑنے والی 182 خواتین میں سے صرف 15 خواتین ہی کامیاب ہوسکی۔

بیگم آشفہ ریاض

(وزیر برائے وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب)

تاریخی اعتبار سے ہمارا معاشرہ مردوں کے زیر اثر ہے اور ہم ابھی تک اس خطے کے صدیوںپرانے رسم و رواج سے آزاد نہیں ہوسکے۔ یہ سوچ ہماری نسلوں کے ساتھ پڑھوان چڑھی ہے جس کی تبدیلی میں وقت لگے گا۔ آزادی سے اب تک خواتین کی سیاسی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے، اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی جس پر سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر ہم آہستہ آہستہ بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے لہٰذا ہم پہ یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی سیاسی، سماجی اور معاشی شرکت کو یقینی بنائیں۔

اس میں سب سے اہم پارلیمنٹ ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں ان کی موثر نمائندگی ہوگی تو وہ اپنی آواز بھرپور طریقے سے اٹھا سکیں گی۔ ہم خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنا رہے ہیں تاکہ وہ اس سسٹم میں رہتے ہوئے نہ صرف مخصوص نشستوں پر بلکہ جنرل نشستوںپر بھی الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں آئیں اور جمہوریت میں اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کریں۔ یہ مطالبہ درست ہے کہ پارلیمنٹ میں خواتین کی زیادہ نشستیں ہونی چاہیے تاکہ حکومتی سطح پر خواتین کی فیصلہ سازی میں بھرپور شمولیت کو یقینی بنایا جائے لیکن دوسری جانب حکومت کے بنائے گئے قوانین اور پالیسیوں کا احترام بھی ہم سب پر لازم ہے۔

اس لیے خواتین کو معاشی و اقتصادی پذیرائی اور معاشرتی لحاظ سے اتنا بااعتماد و پروقار بنانا از حد ضروری ہے کہ وہ خود براہ راست الیکشن لڑ کر حکومتی فلورز پر ملکی قوانین وقواعد کی تخلیق و عملدرآمد میں اپنا فعال اور مثبت کردار ادا کرسکیں اورایسا وقت کے ساتھ ساتھ ہورہا ہے۔جیسے جیسے ہمارے لوگوں میں تعلیم وتربیت اخلاقیات شعور اور احترام انسانیت بڑھتا جائے گا ، ہر شعبہ حیات میں خواتین کی نمائندگی و موجودگی کا عمل آٹو پر لگ جائے گا۔

بیگم مہناز رفیع

 (سابق رکن قومی اسمبلی و رہنما انسانی حقوق)

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے مادر ملت فاطمہ جناح ؒ سے کہا کہ برصغیر کی خواتین کو جگاؤ، ان کے بغیر پاکستان نہیں بن سکتا۔قائد کی ہدایت کے مطابق فاطمہ جناح ؒمتحرک ہوئیں اور ان کی قیادت میں خواتین نے بھرپور جدوجہد کی مگر بدقسمتی سے قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ جیسا پاکستان قائد اعظمؒ چاہتے تھے وہ کہیں کھو گیا۔ ان کی رحلت کے بعد  خواتین کو سیاست میں وہ مقام نہیں ملا جو قائداعظمؒچاہتے تھے بلکہ جاگیرداروں اور وڈیروں نے خواتین کو پیچھے دھکیل دیا ۔ان حالات میں ایک بار پھر مادر ملت فاطمہ جناحؒ نے خواتین میں تحریک پیدا کی، ان کے ساتھ بیگم رعنا لیاقت علی خان، شائستہ اکرام اللہ و دیگر نے پرزور مطالبہ کیا کہ مسلم لیگ کی خواتین کو ان کا سیاسی حق ملنا چاہیے۔

آج بھی خواتین اپنا وہ مقام حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں جس کا وعدہ قائد اعظمؒ نے کیا تھا۔ جنرل (ر) پرویزمشرف کے دور میں عطیہ عنایت اللہ اور میںنے ان سے ملاقات کی اور قائد اعظمؒ کے ویژن کے مطابق خواتین کو نمائندگی دینے کی بات۔ انہوں نے ہمیں اس کی یقین دہانی کروائی اور پھر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 17 فیصد نمائندگی دی گئی۔

اس کے علاوہ عالمی ٹرینرز سے خواتین کو بجٹ اور امور حکومت چلانے کی خصوصی تربیت بھی دلوائی گئی۔ میں اس وقت قومی اسمبلی کی رکن تھی لہٰذا ہم نے اسمبلیوں میں قانون سازی سے امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا، ہم قائد اعظمؒ اور مادر ملتؒ کی سوچ کے مطابق خواتین کو آگے لانا چاہتے ہیں کیونکہ نصف آبادی کی شمولیت کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ خواتین کو جنرل نشستوں پر زیادہ سے زیادہ ٹکٹ دینے چاہئیں اور مخصوص نشستوں پر خانہ پری اور خوش آمد کرنے والی خواتین کے بجائے ایسی خواتین کو نمائندگی دی جائے جو صحیح معنوں میں فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔